Baap Gher K Darakhat Hote Hain Fathers Day

Baap Gher K Darakhat Hote Hain Fathers Day

باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں فادرزڈے

سال میں ایک دن مخصوص کرلینا کافی نہیں نامور گائیک اُستاد حامد علی خاں کے ساتھ خصوصی نشست

پیر 17 جون 2019

 وقاراشرف
باپ بیٹے کا رشتہ بہت مضبوط اور خوب صورت ہوتا ہے لیکن ماں کی مامتاتوسب کو دکھائی دیتی ہے باپ کی محبت کو عموماً اس اتھارٹی کے بھاری بوجھ تلے دبادیاجاتا ہے جو بظاہر باپ کی سخت گیری لیکن دراصل بہترین تعلیم وتربیت کا ایک ذریعہ ہوتی ہے ۔باپ اولاد سے محبت کی خاطرموسم کی سختیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے گھر سے نکلتاہے اور سارا دن بھوکا پیا سارہ کر بھی بچوں کے درمیان لوٹ جاتا ہے ۔
لیکن شاید وہ اس طرح اپنے بچوں کے ساتھ محبت اور پیار کا اظہار کرنے سے قاصر رہتا ہے جو ماں بڑی آسانی سے کردیتی ہے ۔یہ بھی سچ ہے کہ باپ ہر بچے کا اصلی ہیروہوتا ہے لیکن آج کے معاشرے میں ہمیں یہ ہیرومنظر سے ہٹا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔شاید اس ہیروکوواپس لانے کے لئے ہی عالمی سطح پر ”فادرزڈے “منایاجاتا ہے لیکن کیا اس کے لئے سال میں محض ایک دن مخصوص کردینا کافی ہے اور اس کا حق ادا کیا جا سکتا ہے؟
”فادرزڈے“ہر سال عموماً جون کے تیسرے اتوار کو منایا جاتا ہے لیکن کئی ملکوں میں الگ الگ تاریخوں میں بھی منایا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

یہ دن منانے کا آغاز امریکہ سے ہوا تھا اور19جون 1910ء کو پہلا”فادرزڈے“واشنگٹن میں منایا گیا ہے۔یہ دن منانے کا خیال سنوراسمارٹ ڈوڈنامی ایک خاتون نے پیش کیا تھا۔اس کی پرورش ماں کی وفات کے بعد اس کے باپ ولیم سمارٹ نے کی تھی اور وہ اپنے والد کو بتانا چاہتی تھی کہ وہ اس کیلئے کتنے اہم ہیں اس لئے اس نے والد کی سالگرہ کے دن یعنی 19جون کو ”فادرزڈے“کے طور پر منایا۔
1956ء میں امریکی کانگرس نے ایک قرار داد کے ذریعے اسے باقاعدہ طور پر ”فادرزڈے“تسلیم کرلیا۔اب پاکستان سمیت دُنیا کے بیشتر ممالک میں جون کا تیسرا اتوار”فادرزڈے“کے طور پرمنایاجاتا ہے ،اس سال بھی 16جون کو ”فادرزڈے“کے طور پر منایا جارہا ہے ۔
اس فادرزڈے کے حوالے سے ہم نے پٹیالہ گھرانے کے نامور گائیک اُستاد حامد علی خان اور ان کے بیٹوں ولی حامد علی خان،نایاب علی خان اور انعام علی خان سے خصوصی گفتگو کی ہے۔
استاد حامد علی خان بلاشبہ کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے انتہائی بڑا اور معتبرنام ہے،انہیں پٹیالہ گھرانے کا لچنڈ بھی کہا جاتا ہے ۔انہوں نے کلاسیکی موسیقی کی تربیت اپنے والد اُستاد اختر حسین خاں اور بڑے بھائیوں اُستاد امانت علی خاں اور اُستاد فتح علی خاں سے حاصل کی۔کلاسیکل کی تمام اصناف میں وہ گاچکے ہیں۔دو بار صدارتی ایوارڈ سمیت متعددایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔
1996/97ء میں پرائیڈآف پر فارمنس اور 2008ء میں ستارئہ امتیاز سے نوازا گیا۔اسرائیل کے علاوہ وہ پوری دُنیا میں فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔
کیا فادریا مدر کے لئے سال میں صرف ایک دن مخصوص کر دینا کافی ہے؟اس حوالے سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے اُستاد حامد علی خاں نے بتایا کہ فادرزڈے اور مدرزڈے خالصتاً مغربی تہوار ہیں کیونکہ ہمارا تو ہر دن ہی فادرزڈے اور مدرڈے ہوتا ہے ۔
چلیں اب رواج چل نکلا ہے تومنانے میں کوئی ہرج بھی نہیں ہے لیکن ماں یا باپ سے اظہار محبت کے لئے صرف ایک دن مخصوص کر دینا کافی نہیں ہے ۔
ہمارے معاشرے میں بھی کچھ ایسے لوگ ہونگے جو پورا سال اپنے والدین کی خبر نہیں لیتے ان کے لئے یہ دن منانا اچھا ہے کہ اسی بہانے ہی سہی انہیں والدین کے لئے کچھ وقت تو مل جاتا ہے ۔اپنے والد اُستاد اختر علی خاں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اُستاد حامد علی خاں نے بتایا کہ میرا اپنے باپ کے ساتھ بہت مضبوط تعلق تھا،ویسے بھی ہر اولاد کو اپنا والد اور والد کے لئے اپنی اولاد بہت پیاری ہوتی ہے ۔
وہ بچے بہت ہی بد نصیب ہوتے ہیں جو ماں باپ کی عزت نہیں کرتے،ایسے بچے زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔میرے والد میرے اُستاد بھی تھے اس لئے احترام کا دوہرا رشتہ تھا۔میں چونکہ ان کی سب سے چھوٹی اولاد تھا اس لئے لاڈلا تھا اور ہر وقت ان کے ساتھ ساتھ ہی رہتا تھا۔مجھے یہ بھی احساس تھا کہ میرا باپ بہت بڑا آدمی ہے اور میں ان سے جس قدر بھی علم سیکھ سکوں وہ اچھا ہو گا ،مجھے چونکہ اللہ نے اُستاد حامد علی خاں بنانا تھا اس لئے بچپن میں ہی میرے اندر گائیکی کا شوق پیدا کر دیا تھا ۔
پہلے میرے دونوں بڑے بھائیوں استاد امانت علی اور استاد فتح علی نے والد سے موسیقی کا علم سیکھا جس کے بعد میں نے بھی بہت کچھ سیکھا۔اب میں اپنے خاندان اور والد کے ورثے کولے کر آگے چل رہا ہوں ۔میرے بچے ولی حامد علی خاں،نایاب علی خاں اور انعام علی خاں خاندان کی نویں پیڑھی ہیں اور خاندانی میراث کولے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
اپنے والد کے حوالے سے یادیں تازہ کرتے ہوئے حامد علی خاں نے بتایا کہ لوگ انہیں مانتے تھے کہ وہ علم کا سمندر ہیں،کلاسیکل موسیقی کا جو خزانہ ان کے پاس تھا سب لوگ اس کے معترف تھے،انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں کو تربیت دی اور تینوں نے ہی بہت زیادہ نام کمایا ہے وہ خود کیا ہوں گے۔
استاد بڑے غلام علی خاں،ملکی پکھراج کی بیٹی طاہرہ سید سمیت بڑے بڑے لوگوں نے ان سے فیض حاصل کیا۔
ہمارے علاوہ انہوں نے میرے بھتیجوں کو بھی موسیقی کا علم دیا۔ایسی ایسی بندشیں،خیال اور دیگر مستند چیزیں ان کے پاس تھیں کہ دنیا حیران رہ جاتی تھی۔
باپ بیٹے کا تعلق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کس طرح تبدیل ہوا ہے ؟اُستاد حامد علی خاں نے بتایا کہ اب بھی اچھے لوگ ہیں لیکن زیادہ تر خرابی کی صورتحال ہے ۔
جھوٹ اب زیادہ ہو گیا ہے ۔جہاں تک میرے بچوں کا تعلق ہے تو وہ اب بھی با ادب ہیں ،میں ان پر زیادہ سختی کا قائل بھی نہیں ہوں ۔میں نے انہیں فیصلے کا اختیار دیا تھا کہ جو مرضی کریں تو انہوں نے کہا کہ ہم نے میوزیکل بینڈ ہی بنانا ہے ،اچھی بات ہے کہ وہ خاندانی کام کولے کر آگے چل رہے ہیں ،جس طرح میرے والد میرے کام کو تنقیدی لحاظ سے دیکھتے تھے اس طرح میں بھی دیکھتا ہوں کہ یہ چیزکیسے مزید بہتر ہو سکتی ہے۔

اگر بیٹا باپ سے آگے نکل جائے تو باپ کو جیلسی ہوتی ہے یا فخر ؟اس حوالے سے حامد علی خاں نے بتایا کہ ہمارے کام میں کچھ لوگ جیلس بھی ہو جاتے ہیں لیکن مجھ میں ایسی بات نہیں ہے مجھے تو فخر ہوتا ہے کہ میرے بیٹے ترقی کررہے ہیں اور پھل پھول رہے ہیں۔فخر ہوتا ہے کہ میں نے انہیں سکھایا اور وہ اب دنیا کے سامنے سر اٹھا کر کام کر رہے ہیں۔میرے والد بھی مجھ پر فخر کیا کرتے تھے۔
”راگابوائز“پوری دنیا میں پر فارم کر چکے ہیں اور اب جلد امریکہ کے ٹور پر جارہے ہیں۔آج کل میں باپ بیٹے کے تعلق میں خرابی دیکھتا ہوں تو دکھ ہوتا ہے ،یہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ماں باپ جیسا رشتہ کوئی نہیں ہے ۔میں بار بار کہتا ہوں کہ باادب اولاد ہی پھل پاتی ہے اور بے ادب کبھی پھل نہیں پا سکتے۔
نامور باپ کے بیٹوں کو آگے بڑھنے میں آسانی ہوتی ہے یا مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؟اس حوالے سے اُستاد حامد علی خاں نے بتایا کہ واقعی ان کے لئے جہاں آسانی ہوتی ہے تو وہیں کچھ مشکلات بھی ہوتی ہیں کیونکہ لوگ کام کا موازنہ اس کے باپ سے کرتے ہیں ۔
میرے بیٹے جب تک اچھا کام نہیں کرتے تھے میں انہیں نہیں مانتا تھا لیکن اب وہ اچھا کام کررہے ہیں تو میں اب خوش ہوں۔یہ بھی درست ہے کہ بڑے برگد کے نیچے چھوٹے پودے اس طرح سے پنپ نہیں سکتے لیکن محنت اور ادب سے وہ اپنی جگہ ضرور بنا لیتے ہیں۔گلوکار پیدائشی بھی ہوتا ہے اور محنت وریاضت سے بھی بن سکتا ہے اس لئے یہ ضروری نہیں کہ بڑے گلوکار باپ کا بیٹا بھی بڑا گلوکارہی بنے۔
ہمارے ہاں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ نامور باپ کے بیٹے وہ مقام حاصل نہیں کر سکے۔
کلاسیکل موسیقی کے مستقبل کے حوالے سے حامد علی خاں نے بتایا کہ یہ بہت مشکل صنف ہے ،اس کو پسند کرنے والے بھی کم ہی لوگ رہ گئے ہیں جبکہ دوسری موسیقی کو پسند کرنے والے لوگ زیادہ ہیں ۔جہاں تک کلاسیکل کے مستقبل کا تعلق ہے تو یہ ایسے ہی چلے گا شاید کبھی اس کا اچھا دور آجائے اور ہم چاہتے بھی ہے کہ اچھا دور آئے۔
آج سے پینتیس چالیس سال پہلے کلاسیکل موسیقی کا اچھا دور تھا پھر غزل اور فلمی موسیقی کے بعد پوپ آگیا اور کلاسیکل مویسی کسی حد تک پس منظر میں چلی گئی۔لیکن جو موسیقی کو سمجھنے والے ہیں وہ کلاسیکل ہی سنتے ہیں ۔والد صاحب کہا کرتے تھے کہ ہمارے والے کام کی اول تو کسی کو سمجھ نہیں اور جس کو آجائے وہ پھر ساری زندگی اس کا ہو کر رہتا ہے ۔
میں پوپ کے خلاف نہیں وہ بھی آخر میوزک ہے اور نوجوان نسل اسے پسند بھی کرتی ہے لیکن اس کی وجہ سے کلاسیکی موسیقی پر اثر پڑا ہے ۔
حکومتی سطح پر بھی اس فن کی ترویج نہیں کی گئی صرف پرویز مشرف واحد حکمران تھا جس نے ہمیں عزت اور احترام دیا۔انہوں نے ہمیں مربعے یا بنگلے نہیں دےئے لیکن سب فنکاروں کو عزت بہت دی باقی حکمرانوں نے یہ بھی نہیں کیا۔میں آج کل ڈاکٹر غزالہ خاکوانی کی غزلوں کا البم کر رہا ہوں۔”لذت درد“پہلا البم تھا جس کے بعد ”انتظار “آیا جس کی شاعری نیلما درانی کی تھی ،اس البم کی ایک غزل”اداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے“بہت ہی مقبول ہوئی تھی۔
”رسم جنون “کے بعد ایس ایم صادق کی شاعری پر مبنی”دل کے زخم“آیا۔
اس کے علاوہ بھی بے شمار البم آئے ہیں۔”راہ الفت“کی شاعری رؤف صدیقی کی تھی۔البمز کا کام اب ختم ہی ہو گیا ہے کیونکہ ریکارڈ لیبل کمپنیاں ختم ہو گئی ہیں جس سے سنگرز کو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے ۔ان حالات میں اگر مجھ جیسے سنگرز عزت کی روٹی کھا رہے ہیں تو یہ ایک معجزہ ہی ہے ورنہ حالات بہت ہی مشکل ہیں۔
فن کی ترویج کے نام پر بنائے گئے اداروں میں پی این سی اے کچھ نہیں کر رہا ۔صرف الحمراء میں تھوڑا بہت اس حوالے سے کام کررہا ہے ۔پی ٹی وی ماضی میں اس فن کی سر پرستی کرتا آیا ہے اب وہ بھی نہیں کر رہا،ریڈیوپاکستان کا سی پی یوویسے ہی ختم کر دیا گیا ہے ان حالات میں جینئن فنکار کہاں جائیں،ہمارے نہ وظیفے ہیں نانوکریاں،ہم کوئی کاروبار بھی نہیں کرتے۔

حامد علی خاں نے بتایا کہ ہمار ا خاندان تقریباً 200سال سے اس فن کے ساتھ وابستہ ہے۔میرے دادا علی بخش خان کو گائیکی میں ”جنرل “کا خطاب ملا تھا ۔ان کے بھائی فتح علی خاں بھی ان کے ساتھ گاتے تھے جنہیں ”کرنل“کا خطاب دیا گیا تھا ۔کرنل فتح علی خان اُستاد عاشق علی خان کے والد تھے۔میرے والد اُستاد اختر حسین خان نے ہم تینوں بھائیوں کو گائیکی کی ٹریننگ دی ۔
میں نے کلاسیکی موسیقی کی تمام اصناف ٹھمری ،غزل ،گیت ،خیال گائی ہیں ،ہر صنف کا اپنا مزاہے کیونکہ ان سب کی جڑ کلاسیکل ہی ہے۔میں بے شمار قومی اور بین الاقوامی گلوکاروں کے ساتھ گا چکاہوں۔مہدی حسن کے ساتھ بہت گایا۔یورپ کا پورا ٹوران کے ساتھ کیا تھا۔اسد امانت علی خان کے ساتھ بھی گایا ۔میں نے مومن ،داغ ،غالب،اقبال سمیت تقریباً سبھی اُستاد شاعروں کا کلام گا یا ہے ،جدید شاعروں میں منیر نیازی ،فیض ،فراز ،امجد اسلام امجد کو بھی گایا۔

”فادرزڈے“کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے راگابوائز نے بتایا کہ ہمارے خیال میں فادرز اور مدرز کیلئے سال میں ایک دن مخصوص کردینا بہت غلط روش ہے ،ہمارا تو ہر دن فادر اور مدرڈے ہوتا ہے ،ہمیں ہر وقت والدین کی دعائیں لینی چاہئیں ،ہم اس دن کو خاص طور پر تو نہیں مناتے ہاں کھانا کھانے باہر ضرور چلے جاتے ہیں،ہمارا اپنے باپ کے ساتھ رشتہ بہت مضبوط ہے ،جب آپ کیساتھ اتنا بڑا نام جڑا ہوتو آپ کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے ،ہمارے کیرئیر کو آگے بڑھانے میں بھی والد کا اہم کردار ہے کیونکہ ہم نے ان سے ہی یہ فن سیکھا ہے ،ان کا نام ہمارے نام کے ساتھ لگنا ہی بہت بڑا اعزاز ہے۔

Browse More Articles of Music