Pakstan Ka Shaan - Mitti Ki Mohabbat Main Bollywood Ki Kayi Peshhkash Thukra Chuka Hai

Pakstan Ka Shaan - Mitti Ki Mohabbat Main Bollywood Ki Kayi Peshhkash Thukra Chuka Hai

پاکستان کا”شان“مٹی کی محبت میں بولی ووڈ کی کئی پیشکش ٹھکراچکا ہے

1990ء میں اپنی پہلی فلم”بلندی“سے شہرت کی بلندیوں کوچھونے والے شان اب تک 600کے قریب اردو اور پنجابی فلموں میں کام کر چکے ہیں۔

پیر 8 جولائی 2019

 فاروق احمد انصاری
پاکستانی فلم اسٹار ارمغان شاہد عرف عام شان شاہد کئی برسوں سے پاکستانی سینما پر چھائے ہوئے ہیں۔1990ء میں اپنی پہلی فلم”بلندی“سے شہرت کی بلندیوں کوچھونے والے شان اب تک 600کے قریب اردو اور پنجابی فلموں میں کام کر چکے ہیں۔ان کی مشہور فلموں میں بلندی،نکاح،سنگم،گھونگھٹ،وار اور خدا کے لیے شامل ہیں۔ شان نے فلموں کا آغاز بچپن میں چائلڈاسٹار کی حیثیت سے چند چھوٹے چھوٹے کردار ادا کرکے کیا۔
لیکن بلندی کو ان کی پہلی بڑی فلم سمجھا جاتا ہے جس میں انہوں نے اداکارہ ریما کے ساتھ مرکزی کردار ادا کیا۔آج کل شان کی وجہ شہرت سلطان راہی کے انداز کی ماردھاڑ والی پنجابی فلمیں ہیں، اسی لیے انہیں موجودہ دور کا سلطان راہی بھی کہا گیا ہے۔وہ ماضی کی مشہور اداکارہ اور بیشمار فلموں میں مرکزی کردار ادا کرنے والی نیلو کے بیٹے ہیں۔

(جاری ہے)


شان نے سلطان راہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مولا جٹ جیسی فلمیں کرنے کیلئے گنڈا سا اٹھایا تو شان کے بہت سے مداحوں کو حیرت ہوئی ،لیکن آج اگر مولا جٹ کے ری میک میں فواد خان گھوڑے پر بیٹھ کر بڑھکیں مارنے کیلئے تیار ہے تو یہ بات ماننا پڑے گی کہ ہماری فلم انڈسٹری اور فلم بینوں کا ایک بہت بڑا طبقہ آج بھی مولا جٹ جیسی فلموں کو پسند کرتا ہے۔

اس بابت جب شان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مولا جٹ ہمارا ہیروہے۔ہالی ووڈ اور بالی ووڈ میں بھی ہیرو پچاس گولیاں کھا کر نہیں مرتا تو لوگ قبول کرلیتے ہیں اور کوئی اعتراض نہیں ہوتا،لیکن یہ لوگ سلطان راہی پر اعتراض کرتے ہیں ۔مظلوم طبقے کے لیے مولا جٹ بھی کسی سپرمین سے کم نہیں ہے۔فلم ساز کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے اداکاربھی قابل ذکر ہیں جن کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور جب بھی پاکستانی سینما کی تاریخ لکھی جائے گی تو ان کا نام ضرور لیا جائے گا اور اداکارشان کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں کیا جاتا ہے۔

شان کی جانب سے کرداروں اور فلموں کا انتخاب چاہے کتنا ہی گھسا پٹا کیوں نہ ہو،اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ایک مضبوط شناخت رکھتے ہیں۔ سال 2007 میں شعیب منصور کی فلم’خدا کے لئے‘سے پاکستانی سینما کو گویا دوبارہ زندگی ملی تھی۔شان اس فلم کے پوسٹربوائے تھے جو یہ بات ثابت کرنے کے لئے کافی تھا کہ شان لالی ووڈ کے سپر اسٹار ہیں۔
فلم ہٹ رہی اور شان نے اپنی شاندار پر فارمنس پر سب سے تعریفیں بھی سمیٹیں لیکن اس کے بعد ایک خاموشی سی چھا گئی۔کچھ وقفے کے بعد شان ’ظل شاہ ‘اور پھر ’عشق خدا‘میں دکھائی دئیے۔اس کے علاوہ ان کی فلم ’وار‘بھی اسی سال ریلیز ہوئی۔
زیبا بختیار اور ان کے بیٹے اذان خان کی فلم کو بھی انہوں نے جمشیدمحمود کے ساتھ کو پروڈیوس کیا ہے۔اب یہ شان کا اپنا فیصلہ تھا کہ بولی ووڈ کی کئی پیشکشوں کے باوجود انھیں وہاں کام نہیں کرنا تھا ۔
اس کے برعکس فواد،ماہرہ اور علی ظفر نے وہاں کام کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔اس بابت شان ماضی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ’جس کو جو طریقہ بہتر لگتا ہے اسے اپنا لینا چاہیے۔ان تینوں کو کہیں کہ اپنی پاکستانی فلمیں انڈیا جا کر سینما گھروں میں لگائیں،اگر ایسا نہیں ہوپاتا تو ردعمل میں یہ تینوں غصہ اور ناراضگی دکھا سکتے ہیں اور نہیں بھی دکھا سکتے۔

اگر میں ان کی جگہ ہوں تو میں تو بہت غصہ کروں کہ آپ کی فلموں میں ہم کام کر رہے ہیں،اتنی تصویریں ہماری آپ کے ساتھ اخبار اور میگزین میں چھپتی ہیں،آپ کی اتنی تقاریب میں ہم شرکت کرتے ہیں، آپ جو کہتے ہیں ،وہ ہم کرتے ہیں ۔میری فلم کو ذرا بھارت میں بھی ریلیز کردیں۔لیکن وہ نہیں لگائیں گے۔اگر بھارت نے پاکستانی فلموں کی نمائش بند کی ہوئی ہے تو ہمارے یہ تینوں آرٹسٹ فواد،ماہرہ اور علی ظفر جو وہاں جاتے ہیں ،اگر ان کو اس سب کا احساس نہیں ہے تو مجھے ان سے کوئی شکوہ نہیں،یہ ان کا اپنا ذاتی فیصلہ ہے ۔
لیکن اگر میں ان کی جگہ پر ہوں گا تو مجھے یہ بات بہت چھبے گی کہ اگرمجھ سے اتنی دوستی ہے تو میری فلم بھارت میں کیوں نہیں لگاتے‘۔
شان کا خیال ہے کہ اگر دونوں ملکوں کی حکومتیں چاہیں تو جیسے کرکٹ کے مقابلے ہوتے ہیں اور دونوں ملکوں کے جھنڈے برابری کی سطح پر لہراتے ہیں بلکل اسی طرح یہ برابری کا اطلاق ہر چیز میں ہونا چاہیے ،جن میں فلم انڈسٹری بھی شامل ہے ۔
اگر کوئی پاکستانی اداکار بھارت جاتا ہے تو اس کو بھی سرکاری مہمان کا درجہ دینا چاہیے اور بھر پور سیکیورٹی ملنی چاہیے۔بھارتی اداکارجب پاکستان آتے ہیں تو ان کو سرکاری مہمان بنایا جاتا ہے جیسے کچھ عرصے قبل شتروگہن سنہا کو پروٹوکول دیا گیا تھا۔اسی طرح جب پاکستان میں بھارتی فلمیں لگ رہی ہیں اور کوئی روک ٹوک نہیں ہے تو ہمیں بھی بھارت میں اتنی ہی مارکیٹ ملنی چاہیے جتنی پاکستان نے ان کو دی ہوئی ہے۔

بھارتی فلموں میں کام کرنے کے بارے میں شان کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ پاکستان میں ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔اگر میں اپنے بینک اکاؤنٹ کی طرف دیکھوں تو مجھے بھارت جاکر کام کرنا چاہیے۔پاکستان میں لوگوں کے رویے دیکھتا ہوں تو دل کرتا ہے چلاجاؤں لیکن ایک ذمہ داری ہے ،ایک عہد ہے جو خود سے کیا ہوا ہے،اس مٹی سے کیا ہوا ہے،اس ملک سے کیا ہوا ہے۔شان کو پرائیڈ آف پر فارمنس ،چار نیشنل فلم ایوارڈز ،پندرہ نگار ایوارڈز،پاکستان میڈیا ایوارڈز اور ان گنت دیگر ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔

Browse More Articles of Lollywood