Pakistani Film Industry Ko Sahara Dene K Liye 2 Filmain Produce Kar Raha Hoon

Pakistani Film Industry Ko Sahara Dene K Liye 2 Filmain Produce Kar Raha Hoon

پاکستان فلم انڈسٹری کو سہارا دینے کے لئے دو فلمیں پروڈیوس کررہا ہوں

”بریکنگ نیوز“اور”سن آف شیر خان دی لیجنڈ“معروف فلمساز غفور بٹ کا خصوصی انٹرویو

جمعہ 19 جولائی 2019

سیف اللہ سپرا
غفور بٹ کا شمار پاکستان کے چند ایسے فلم میکرز میں ہوتا ہے جو اپنے ملک کی فلم انڈسٹری کے ساتھ صحیح معنوں میں مخلص ہیں ۔وہ ناروے میں بزنس کرتے ہیں، سارا سال محنت کرتے ہیں اور جو منافع ہوتاہے وہ لے کر پاکستان آتے ہیں اور یہاں فلمیں بناتے ہیں ۔گزشتہ کئی برسوں سے ان کا یہی معمول ہے ۔وہ اب تک 24فلمیں پروڈیوس کر چکے ہیں جن میں”شیر باز خان ،بارش ،ٹھاکر 420،خاموش رہو،سسٹم،آخری شکار،سیلوٹ،خوبصورت شیطان اور کالے خان“شامل ہیں ۔
اب غفور بٹ نے دونئی فلمیں شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جو وہ ”بریکنگ نیوز اور سن آف شیر خان دی لیجنڈ“کے نام سے بنائیں گے۔غفوربٹ چند ماہ سے لاہور میں ہی مقیم ہیں اوراپنی دونوں فلموں پر کام کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کے ساتھ ایک نشست ہوئی جس میں ان کی فنی اور نجی زندگی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی جس کے منتخب حصے قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش کئے جارہے ہیں:۔

(جاری ہے)


غفور بٹ نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں نے1966ء میں پاکستان فلم انڈسٹری جوائن کی اس سے قبل میں پاک آرمی میں تھا میں نے 1965ء کی جنگ میں بھر پور حصہ لیا جس میں مجھے سینے پر گولی بھی لگی۔(انہوں نے مجھے انٹرویو کے دوران گولی کا نشان بھی دکھایا)اس جنگ میں جنرل پرویزمشرف میرے کیپٹن تھے۔1966ء میں،میں نے آرمی چھوڑ دی اور فلم انڈسٹری میں آگیا۔
فلم انڈسٹری میں میرے پہلے راہبر اداکار حبیب صاحب تھے۔حبیب صاحب میرے لئے ایک مکمل انسٹی ٹیوٹ کی حیثیت رکھتے تھے۔
یہ حبیب صاحب ہی تھے جنہوں نے نہ صرف فلم انڈسٹری کے حوالے سے میری رہنمائی کی بلکہ اخلاقی اقدار کے حوالے سے بھی انہوں نے مجھے بہت کچھ بتایا میں سمجھتا ہوں اس بات کا کریڈٹ حبیب صاحب کو ہی جاتا ہے کہ میں فلم انڈسٹری میں رہتے ہوئے شراب اور جوئے جیسی خرابیوں سے دور رہا۔
حبیب صاحب کی تمام فلموں کا میں ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر تھا۔ان کے ساتھ بڑے قریبی تعلقات تھے ان کی شادی کی تقریب میں بھی شامل ہوا۔فلم انڈسٹری میں حبیب صاحب کے علاوہ علی بھائی کے ساتھ میرا بہت اچھا تعلق رہا۔حبیب اور علی بھائی دونوں ہی انتہائی نفیس شخصیت کے مالک تھے۔ان کے علاوہ سلطان راہی(مرحوم)،جاوید شیخ ،غلام محی الدین،ریحان اسماعیل شاہ (مرحوم)،اظہار قاضی(مرحوم)اور مصطفی قریشی کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رہے۔

فلمسازی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے ابتدائی میں حبیب اور شیخ نذیر مرحوم کے ساتھ پارٹنر شپ پر فلمیں بنائیں۔1974ء میں،میں ناروے چلا گیا میں ناروے کیوں گیا اس کی ایک اہم وجہ تھی جو آج آپ کے ساتھ پہلی دفعہ کسی انٹرویو میں شےئر کررہا ہوں۔میں نے کچھ عرصہ صحافت بھی کی ہے۔1971ء میں،میں مقبول اخبار ”آفاق“میں سب ایڈیٹر کے ساتھ سیاسی تجزیہ نگار بھی تھا۔
میرے کچھ مضامین اس وقت کی حکومت کو پسندنہ آئے جس پر مجھے اور میرے ایڈیٹر شوکت حسین شوکت کو گرفتار کر لیا گیا۔اتفاق کی بات ہے کہ جس ملٹری کورٹ میں مجھے پیش کیا گیا اس کے جج بریگیڈ ےئر ایف بی علی تھے جو ائیر مارشل اصغر خان کے بہنوئی تھے۔ایف بی علی جب میں آرمی میں تھا تو میری رجمنٹ44ایس پی کے کمانڈنگ آفیسر تھے۔
انہوں نے جب مجھے عدالت میں دیکھا تو معروف قانون دان ایس ایم ظفر کو اپنے چیمبر میں بلالیا اور کہا کہ اس بچے کو میں کس جرم میں سزادوں یہ تو میری پاک فوج کا بہترین سیاہی ہے لہٰذا انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور ساتھ کہا کہ یہ جو آپ کام کررہے ہیں اس کو چھوڑدیں میں آپ کو کوئی دوسری ملازمت دلوادیتا ہوں میں نے انکار کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ پھر باہر چلے جاؤ میں آپ کو کینیڈا بھجوادیتا ہوں میں نے انہیں کہا اگر میں نے باہر ہی جانا ہوا تو پھر ناروے جاؤں گا۔اس کیس میں میرے ایڈیٹر شوکت حسین شوکت کو سات سال قید کی سزا ہوئی جو انہوں نے مچھ جیل سبی(بلوچستان)میں کاٹی مرحوم شوکت حسین شوکت اعلیٰ پائے کے دلیر صحافی اور نقاد تھے میں 1974ء میں ناروے چلا گیا ۔1987ء میں فلمسازی کا دوبارہ آغاز کیا اور پہلی فلم ”شیر باز خان“بنائی جس کے ہیرو میں اور یوسف خان تھے۔
یہ یوسف خان کی واحد فلم تھی جو بغیر کسی رکاوٹ کے ایک ماہ کے قلیل عرصے میں مکمل ہوئی ۔
اس کے بعد میں نے”بارش “فلم شروع کی جس میں میں نے حیدر چودھری جن کے ساتھ میں نے بہت سی فلمیں بطور ایسوسی ایٹ کیں ،کوڈائریکٹر لیا۔حیدر چودھری اچھے ڈائریکٹر تھے مگر ان کے ساتھ میرا کاروباری تجربہ کچھ اچھا نہیں رہا۔انہوں نے میرے ساتھ فلم سائن کی کہ وہ 28لاکھ روپے میں فلم مکمل کریں گے اور 25فیصد ان کی پارٹنر شپ ہو گی اس معاہدے کے دودن بعد انہوں نے راکسی فلمز کے ساتھ”بارش“کا32لاکھ میں ٹھیکہ کر لیا جب مجھے اس بات کا پتہ چلا تو میں نے الطاف حسین کو ”بارش“
کے لئے سائن کیا اور یہ فلم میں نے 21دن میں مکمل کی اور حیدر چودھری نے”پانی“کے نام سے فلم ریلیز کی۔
میری فلم سپرہٹ ہوئی اس فلم کے فنکاروں میں میرے علاوہ اظہار قاضی،جاوید شیخ مصطفی قریشی،بابرہ،نغمہ اور آصف خان شامل تھے۔فلم انڈسٹری کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے فلمی کیرےئرکے53برسوں میں فلم انڈسٹری کے بہت سے اُتار چڑھاؤ دیکھے ایسے حالات فلم انڈسٹری کے کبھی نہیں ہوئے جو آج ہیں ہمیشہ فلم انڈسٹری کے دو بڑے مراکزرہے ہیں۔
کراچی اور لاہور مجھے آج بھی یاد ہے کہ اداکار اسلم پر ویز صبح کراچی جا کر شوٹنگ کرتے اور رات کو لاہور آکر شوٹنگ کرتے لیکن آج صرف کراچی فلم انڈسٹری پر قابض ہو چکا ہے ۔یہ بات فلم انڈسٹری کے لئے اچھی نہیں جو فلم لاہور میں شروع ہوتی ہے کراچی کے آرٹسٹ اس میں کام نہیں کرتے وہ اتنا زیادہ معاوضہ طلب کرتے ہیں کہ پروڈیوسر ادا نہیں کر سکتا۔یہی وجہ ہے کہ لاہور کا پروڈیوسر فلم نہیں بنا پاتا۔

فنکاروں کا رویہ فلم ساز کے ساتھ اچھا نہیں ہے مثال کے طور پر ایک واقعہ بیان کرتا ہوں کہ اداکار سمیع خان نے 6ماہ پہلے مجھ سے سکرپٹ لیا ۔سکرپٹ پڑھا سکرپٹ انہیں پہلے پسند آیا پھر پسندنہ آیا میں نے انہیں کہا کہ سکرپٹ واپس کردیں وہ سکرپٹ آج تک مجھے واپس نہیں ملا یہ مکمل سکرپٹ ہے اگرکوئی دوسرا فلمساز اس سکرپٹ کو لے کر فلم بنا لے تو میں کیا کروں گا؟اگر یہی حالات رہے تو ان حالات میں کون فلم بنا سکتا ہے ۔
فلمسازی میں مشکلات کاذکر کرتے ہوئے غفور بٹ نے کہا کہ بے تحاشا ٹیکس بھی فلمسازی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ایک پروڈیوسر اگر فلم بنانا چاہتا ہے تو ظاہر ہے اس کے پاس جو سرمایہ ہے وہ ٹیکس پیڈ ہیں وہ خود فائلر بھی ہے جب اس کی فلم سینما میں بزنس کرتی ہے تو 8فیصد سینما اونر ٹیکس کی مد کاٹ لیتا ہے اس کے بعد ڈسٹری بیوٹر8فیصد کاٹ لیتا ہے اکثر یہ ہوتا ہے کہ سینما کے ساتھ ففٹی پر سنٹ پارٹنر شپ پر فلم لگتی ہے ۔

اس ففٹی پرسنٹ میں سے ڈسٹری بیوٹر اور سینما اونر نے آٹھ آٹھ فیصد ٹیکس لے لیا باقی آپ کے پاس بچا 34فیصد اس میں سے آپ نے حکومت کو بھی ٹیکس دینا ہے آپ خود سوچیں ان حالات میں کون فلم پروڈیوس کرے گا۔یہ سارا ٹیکس سینما مالکان خود رکھتے ہیں حکومت کے خزانے میں جمع نہیں کراتے ہیں آج تک کسی سینما اونر کو چالان فارم جمع کراتے نہیں دیکھا پتہ نہیں وہ کہاں جمع کراتے ہیں کچھ عرسہ پہلے فلمی وفد نے اس حوالے سے چےئرمین ایف بی آر سے ملاقات بھی کی اور ان سے مطالبہ کیا کہ فلمسازوں کو اس جگا ٹیکس سے نجات دلادیں مگرکوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اب میں آپ کے موٴقر جریدے سے حکومت کے ذمہ داران سے اپیل کرتاہوں کہ فلمساز کو اس جگا ٹیکس سے نجات د لادیں میں تو امیگزنٹ پروڈیوسر ہوں باہر سے پیسے کما کر یہاں پر فلم بناتا ہوں اور اپنے شو ق کی خاطر گزشتہ چالیس سال سے فلمیں بنا کر ملک کی خدمت کررہاہوں۔حکومت سے پر زور اپیل ہے کہ اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دے اور فلمسازوں کی مدد کرے تاکہ وہ اس دم توڑتی فلم انڈسٹری کو بچا سکیں ۔
اپنے نئے پراجیکٹس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں دونئی فلمیں”بریکنگ نیوز“ اور”سن آف شیر خان دی لیجنڈ“شروع کر رہاہوں اگر فیصل قریشی سے معاملات طے پا گئے تو سن آف شیر خان پہلے بناؤں گا۔بصورت دیگر ”بریکنگ نیوز“پہلے بناؤں گا۔دونوں فلموں کے سکرپٹس میوزک اورکاسٹ سب کچھ مکمل ہے میں انشاء اللہ اگست میں شوٹنگ شروع کردوں گا۔

Browse More Articles of Lollywood