Pakistani Film Ka Aik Tabnaak Baab - Waheed Murad

Pakistani Film Ka Aik Tabnaak Baab - Waheed Murad

پاکستانی فلم کا ایک تابناک باب وحید مراد

ایک زمانے میں وہ ہر ہیروئن کے ہیروہوا کرتے تھے

ہفتہ 16 نومبر 2019

چوہدری عبدالخالق
وحیدمراد فلمی دنیا کے افق پر جگمگانے والے ایسے ستارے تھے جن کی یاد آج بھی لوگوں کے دلوں میں موجود ہے۔انہیں ہم سے بچھڑے 36سال کا عرصہ ہو گیا ہے،وحید مراد2-10-1938کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ،کراچی کے ایس ایم آرٹ کالج سے گریجویشن کی اور کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش لٹریچر کی ڈگری حاصل کی۔ان کے والد فلم پروڈیوسر تھے جنہوں نے ”’فلم آرٹس“کے نام سے اپنا ادارہ بنا رکھا تھا۔
وحید مراد کی فلمی دُنیا میں انٹری بطور پروڈیوسر ہوئی جنہوں نے اپنے والد کے ادارہ کی طرف سے دوفلمیں”انسان بدلتاہے“اور ”جب سے دیکھا ہے تمہیں“پروڈیوس کیں۔دوسری فلم میں زیبا کیساتھ درپن کو ہیرورکھا گیا تھا لیکن بعض وجوہات کی بنا پر زیبانے وحید مراد کو مشورہ دیا کہ اپنی اگلی فلم میں وہ خود ہیرو کا کردار ادا کریں مگر وحید مراد نے یہ مشورہ قبول نہ کیا جس کے بعد ان کے دیرینہ دوست پرویز ملک نے بھی یہی مشورہ دیا تو وہ رضا مند ہو گئے اور فلم میں کام کرنے کی حامی بھر لی۔

(جاری ہے)

بطور اداکار پہلی فلم”اولاد“تھی جس کے ہدایتکار ایس ایم یوسف تھے۔
اس میں حبیب ہیرو اور نیئر سلطانہ ہیروئن تھیں۔وحید مراد نے اس فلم میں سپورٹنگ اداکار کا رول کیا تھا۔یہ فلم باکس آفس پر بڑی کامیاب ہوئی بالخصوص وحید مراد کے کام کو بہت سراہا گیا۔اس فلم نے دونگار ایوارڈ حاصل کئے ،ایک سال کی بہترین فلم کا اور دوسرا وحید مراد کو سال کے بہترین ایکٹر کا ملا۔
اس کے بعد انہوں نے فلم”جال“میں کام کیا،پھر اپنے ادارے ”فلم آرٹس“کی طرف سے پیش کی جانے والی فلم“ہیر ا اور پتھر“میں کام کیا جس کے فلمساز پرویز ملک ،موسیقار روبن گھوش اور نغمہ نگار مسرور انور تھے ،اس فلم میں یہ خود ہیروتھے اور زیبا ان کی ہیروئن تھیں۔فلم کامیاب ہوئی اور دونوں کی جوڑی کو خوب پسند کیا گیا۔موٹی موٹی آنکھوں والے خوبصورت شوخ وچنچل وحید مراد کو خواتین کی بہت بڑی تعداد نے چاکلٰٹی ہیرو کا خطاب دیا تھا۔

ان کا ہیئر اسٹائل نوجوانوں میں بڑا مقبول ہوا اور ہر کوئی ”وحید کٹ“بال بنواتا تھا۔وحید مراد نے 1968ء میں فلم”آرمان “پروڈیوس کی جس میں خود ہیرو تھے اور ان کے مد مقابل ہیروئن کا رول زیبانے ادا کیا تھا،اس فلم نے باکس آفس کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے جو مسلسل 75ہفتے تک سینماؤں کی زینت بنی رہی۔اسی فلم پر وحید مراد کو بطور بہترین پروڈیوسر اور بہترین اداکارہ دونگار ایوارڈ ملے۔
اس فلم کے سارے گانے مشہور ہوئے لیکن احمد رُشدی کی آواز میں گایا ہوا گانا”کوکوکورینا“تو وحید مراد کی پہچان بنا۔اس فلم کے دوسرے گانوں میں ”اکیلے نہ جانا“اور ”جب پیار میں دو دل ملتے ہیں“بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔اسی سال فلم”جاگ اٹھا انسان“بنائی جس میں زیباہی ان کی ہیروئن تھیں۔دیکھا جائے تو زیبا کو سُپر اسٹار بنانے میں وحید مراد کا بڑا ہاتھ تھا۔
اس کے علاوہ1964ء اور 1968ء کے درمیان پرویز ملک کیساتھ احسان ،دوراہا اور جہاں تم وہاں ہم جیسی کامیاب فلمیں بنائیں۔بعد میں”فلم آرٹس“کے بینر تلے کافی فلمیں بنائیں۔
اس دارے میں وحید مراد کے ساتھ نغمہ نگار مسرور انور،ہدایتکار پرویز ملک ،موسیقار سہیل رعنا، گلوکار احمدرشدی اور زیبا بیگم بھی شامل تھیں۔وحید مراد پر احمد رشدی کی آواز میں گایا ہوا ہر گانا برا فٹ بیٹھتا تھا بلکہ یوں سمجھ لیں کہ وحید مراد کی اداکاری اور احمد رشدی کے گانے ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم بن چکے تھے یہی وجہ تھی کہ ان پر سب سے زیادہ احمد رشدی کے گانے فلمائے گئے۔
ویسے توان پر دوسرے گلوکاروں کے گانے بھی پکچرائز کئے گئے جن میں مہدی حسن اور اخلاق احمد بھی شامل ہیں۔ان میں یہ بھی ایک خوبی تھی کہ وہ ہرگلوکار کا گانا اس طرح پکچرائز کرواتے کہ دیکھنے والے کو پتہ ہی نہ چلتا کہ یہ اپنی آواز میں گارہے ہیں یا کسی اور کی آواز میں۔1967ء میں وحید مراد نے دوراہا،انسانیت ،ماں باپ اور دیور بھابھی جیسی کامیاب فلموں میں کام کیا جن میں گولڈن جوبلی کرنے والی”دیور بھابی“ان کی بہترین فلموں میں شمار ہوتی ہے جبکہ ”انسانیت “میں ایک ڈاکٹر کا کردار بڑی خوبی سے نبھانے پر شائقین سے خوب داد سمیٹی۔

بعد میں کچھ وجوہات کی وجہ سے ”فلم آرٹس“کے ادارے کو توڑ دیا گیا اور پرویز ملک نے اپنے طور پر دو فلمیں تمہیں دیکھا تمہیں چاہا اور دشمن بنائیں۔اُدھر وحید مراد نے بھی بطور پروڈیوسر اور کہانی نویس اپنی فلم اشارہ بنائی جس کی ہدایتکاری بھی انہوں نے ہی کی مگر یہ فلم باکس آفس پر فلاپ ہو گئی۔1969ء میں ان کی فلم عندلیب ریلیز ہوئی جس کے ہدایتکار فرید احمد تھے،یہ فلم بہت کامیاب رہی جس میں ان کے ساتھ شبنم نے کام کیا تھا جبکہ دیگر کاسٹ میں عالی ،طالش اور مصطفی قریشی شامل تھے۔
عندلیب کو سال کی بہترین فلم قرار دیا گیا تھا اور وحیدمراد کو اس فلم پر بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔اس فلم کے گانے بھی بڑے مقبول ہوئے تھے کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے“اسی فلم کا گانا تھا۔اس کے بعد انہوں نے نصیب اپنا اپنا ،نیند ہماری خواب تمہارے اور انجمن جیسی فلموں میں کام کیا۔وحید مراد نے اپنے فلمی کیریئر کے دوران124فلموں میں کام کیا جن میں114 اُردو،9پنجابی اور ایک پشتوفلم شامل تھی ۔

ایک پنجابی فلم”مستانہ ماہی“انہوں نے خود بنائی تھی یہ ایک رومانوی فلم تھی جو بیحد کامیاب رہی، اس کا گانا”سیونی میرا ماہی میرے بھاگ جگاون آگیا“نہ صرف سننے میں مزہ دیتا ہے بلکہ دیکھنے میں اس سے بھی زیادہ مزہ آتاہے ۔نور جہاں کی آواز ،حزین قادری کی شاعری ،نذیر علی کی موسیقی ،وحید مراد اور عالیہ کی اداکاری اور کمال کی عکس بندی جس میں ٹرالی کا استعمال نہایت عمدگی سے کیا گیا تھا۔
یہ گانا آج بھی شوق سے سنا جاتاہے ۔اس فلم پر بھی انہیں نگار ایوارڈ ملا تھا۔ان کی دوسری پنجابی فلم’‘’عشق میراناں“نے بھی اچھا بزنس کیا تھا۔وحید مراد نے اپنے وقت کی ہر معروف ہیروئن کے ساتھ کام کیا جن میں زیبا ،دیبا ،شبنم ،رانی ،عالیہ،بابرہ شریف،رخسانہ اور نیلو شامل ہیں ۔انہوں نے کل 32ایوارڈ حاصل کئے۔ان کی وفات کے27سال بعد 2010ء میں انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا جو ان کی بیگم نے صدر پاکستان آصف علی زرداری کے ہاتھوں وصول کیا تھا۔

یہ تو تھا وحید مراد کے عروج کا زمانہ۔اب ہم زوال کا تذکرہ کرتے ہیں جو ان کے لئے بڑی پریشانی اور ذہنی اذیت کا سبب بنا اور شاید یہی ان کی موت کا سبب بنا۔ایک خاص لابی کی اجارہ داری کی وجہ سے بڑے بڑے فلم سازوں اور ہدایتکاروں نے انہیں اپنی فلموں میں بطور ہیرولینا چھوڑ دیا تھا،اس کے علاوہ صف اول کی اداکارؤں ،جن کیساتھ ان کی جوڑی سجتی تھی،نے بھی ان کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔
زیبانے محمد علی سے شادی کرلی تھی جنہوں نے زیبا کووحید کے ساتھ کام کرنے سے منع کر دیا۔اُدھر روبن گوش نے اپنی بیوی شبنم کو ان کیساتھ کام کرنے سے روک دیا۔اسی طرح نشو نے بھی ان کیساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا۔لہٰذا وحید مراد ٹاپ کلاس ہدایت کاروں کی بجائے بھی کلاس ہدایت کاروں کی فلمیں کرنے پر مجبور ہو گئے۔
اب انہیں محمد علی اور ندیم جیسے اداکاروں کے ساتھ بطور معاون اداکار کام کرنا پڑرہا تھا۔
گویا وہ آسمان کی بلندیوں سے زمین پر آگرے۔ان کی بعد میں بننے والی فلمیں ناگ منی ،لیلیٰ مجنوں، عزت ،راستے کا پتھر،دلر با،مستانی محبوبہ ،ناگ اور ناگن ،محبوب میرا مستانہ نے انہیں ناکامی کی گہرائیوں میں پہنچانے میں بڑا کردار ادا کام کیا۔وحید مراد کو صدمے پر صدمہ سہنا پڑا،انہیں گھریلو زندگی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑاجب ان کی بیوی انہیں چھوڑ کر امریکہ چلی گئی تو تسکین قلب وجاں کے لئے انہوں نے سکون آور ادویات کا استعمال شروع کر دیا،بعد میں نشے کے بھی عادی ہو گئے۔
ان کے قریبی دوست اقبال یوسف کی فلم”ہیرو“ان کی آخری فلم تھی جو ان کے انتقال کے دو سال بعد ریلیز ہوئی۔اس فلم نے کراچی کے سینماؤں میں سلور جوبلی تھی ۔1962ء میں وہ انور مقصود کے ٹی وی شو”سلور جوبلی“میں آئے تو دیکھنے والوں کو بخوبی اندازہ ہو گیا کہ وہ اندر سے ٹوٹ چکے ہیں ۔
بڑے تھکے تھکے سے نظر آرہے تھے ،ان کی آنکھوں کے نیچے گہرے سیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے اور وہ بہت زیادہ نروس ہورہے تھے ۔
بالکل بھی نہیں لگتا تھا کہ یہ وہی شوخ وچنچل وحید مراد ہیں۔جولائی 1983ء کے شروع میں جب وہ سکون آور ادویات کا استعمال کرکے ڈرائیونگ کررہے تھے تو ان کی گاڑی ایک درخت سے جا ٹکرائی جس میں جان تو بچ گئی مگر ان کا چہرہ شدید زخمی ہو گیا تھا بعد میں ان کے چہر پر ان زخموں کے پکے نشان بن گئے تھے۔23نومبر1983ء کی صبح وحید مراد دیر تک نہ جاگے تو دروازہ توڑ کر کمرہ کھولا گیا اور انہیں مردہ حالت میں فرش پر پڑے پایا گیا۔کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا یا ان کی موت کی وجہ خود کشی تھی کیونکہ ان کے پان میں”کچھ“ملایا گیا تھا۔وحید مراد کو گلبرگ لاہور کے قبرستان میں ان کے والد کی قبر کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔

Browse More Articles of Lollywood