Punjabi Filmoon K Namwar Adakar Iqbal Hassan

Punjabi Filmoon K Namwar Adakar Iqbal Hassan

پنجابی فلموں کے نامور اداکار اقبال حسن

اپنے دور کی ہر ہیروئن کے ہیرو بنے

ہفتہ 7 دسمبر 2019

غزالی
قیام پاکستان کے بعد ہماری فلم انڈسٹری کو سنبھالا دینے کے لئے کئی سینئر اداکاروں نے اپنی فنی خدمات پیش کیں۔اس دور میں درپن،سنتوش،سدھیر،اکمل،علاؤ الدین ،ساون ،یوسف خان،مظہر شاہ، عنایت حسین بھٹی اور کئی دیگر اداکاروں کا فلم انڈسٹری میں طوطی بولتا تھا۔اُسی دور میں اقبال حسن نے بھی فلم انڈسٹری میں قدم رکھا ،وہ1940ء میں موچی گیٹ لاہور میں پیدا ہوئے اور اپنی فنی زندگی کا آغاز ایک اسٹیج ڈرامہ”پگ“سے کیا تھا۔
اقبال حسن کو متعارف کروانے کا سہرا اسٹیج ،ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے معروف فنکار نذیر حسینی کے سر ہے۔اقبال حسن نے اسٹیج ڈرامے ”پگ“میں ایسا جاندار رول کیا کہ وہ ڈرامہ کامیاب ہو گیا اور اقبال حسن کے فن اور شوق کو جلا بخشی جس کے بعد وہ مزید کامیابیاں سمیٹنے کے لئے کمر بستہ ہو گئے اور انہیں فلموں میں بھی چھوٹے موٹے کردار ملنا شروع ہو گئے۔

(جاری ہے)


اس فنکار نے اپنی سر توڑ کوشش اور محنت سے اپنا نام بنایا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہیں فلموں میں سائیڈ رول ملنا شروع ہو گئے ،جن فلموں میں اقبال حسن کو سائیڈ رول ملے اُن میں مرزا جٹ ،دل دا جانی،سرحد ،اعلان،پنجاب دا شیر کے ساتھ ساتھ کئی اور فلمیں بھی شامل ہیں۔ جب اقبال حسن کی شہرت کا ڈنکا ہر طرف بجنا شروع ہو گیا تو ہدایت کا رریاض احمد نے اپنی لوک داستان پر مبنی فلم”سسی پنوں“ میں انہیں ہیرو کے طور پر کاسٹ کر لیا جس میں اقبال حسن کے مد مقابل اس دور کی معروف اداکارہ نغمہ بیگم نے ہیروئن کا کردار ادا کیا۔
”سسی پنوں“اقبال حسن کی کامیاب فلم ثابت ہوئی جس کے بعد پھر اقبال حسن نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
یوں وہ پنجابی فلموں کے ایک کامیاب اداکار بن کر سامنے آئے۔اقبال حسن کے بڑے بھائی شہزاد سلیم حسن بھی فلم انڈسٹری سے منسلک تھے، وہ ہدایت کار نذیر کے اسسٹنٹ تھے اور معروف فلمی کہانی نویس آغا حسن امتثال اقبال حسن کے بہنوئی تھے۔لیکن اقبال حسن نے اپنی محنت کے بل بوتے پر فلمی دنیا میں اپنا نام پیدا کیا اور کسی کی سفارش کا سہارا نہیں لیا۔
اقبال حسن کو فلموں میں کام کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا ،وہ سکول سے گھر آنے کے بعد آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر مکالمے بولا کرتے تھے اور فائیٹ کے لئے چار پائی پر چھلانگیں بھی لگاتے تھے۔اقبال حسن کی مردانہ وجاہت کمال کی تھی،وہ جسمانی لحاظ سے پورے پنجابی گھبرو لگتے تھے۔
وہ فلموں میں ہاتھوں اور لاٹھیوں سے لڑنے کے بعد اسلحہ کی مختلف اقسام سے لڑتے ہوئے بھی پردہ سیمیں پر نظر آئے ،انہوں نے پنجابی فلموں کے ہر ہدایت کار کے ساتھ کام کیا۔
1980ء کے بعد اقبال حسن کی آنے والی زیادہ فلموں کے ہدایت کار یونس ملک تھے۔اقبال حسن فلم کے ہر سین کو ڈوب کر پکچرائز کراتے تھے اور ہدایت کار کو ان سے سین او کے کروانے کے لئے زیادہ محنت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔اقبال حسن نے نجمہ ،نغمہ ،نیلو ،آسیہ،زمرد،فردوس،انجمن،عالیہ ،شیریں ،رانی،ممتاز سمیت اپنے دور کی ہر ممتاز اداکارہ کے ساتھ ہیرو کے طور پر کام کیا۔
اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں انہوں نے سلطان راہی اور مصطفی قریشی کے ساتھ بھی بہت زیادہ کام کیا۔1982ء میں بننے والی فلم”شیر خان“میں اقبال حسن نے سلطان راہی کے با پ کا کردار ادا کیا تھا،مذکورہ فلم میں اقبال حسن کو پہلی بار داڑھی میں پردئہ سکرین پر دکھایا گیا۔”شیر خان“نے پورے سرکٹ میں کامیابی کے ایسے جھنڈے گاڑھے کہ اقبال حسن کو آنے والی زیادہ فلموں میں داڑھی والے رول ملنا شروع ہو گئے کیونکہ داڑھی والے روپ میں ان کی مقبولیت میں خوب اضافہ ہوا۔

اقبال حسن کو بھولے بھالے کردار کرنے پر بھی عوام الناس سے بہت زیادہ پذیرائی ملی۔”دنیا پیسے دی“اور بھولا سجن“میں انہوں نے بھولے بھالے کردار میں حقیقت کا ایسارنگ بھرا کہ فلم بین اُس کردار کو دیکھ کر عش عش کر اٹھے۔پنجابی فلموں میں بے مثال اور لا زوال اداکاری کرنے والے اقبال حسن نے ایکشن فلموں میں جنگجو کے ایسے زبردست کردار ادا کیے کہ فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا۔
اقبال حسن نے بدمعاش،شریف،سیدھا سادہ،مولوی،عالم دین،طالب علم،تاجر،پولیس افسر اور سیٹھ جیسے سبھی کرداروں میں جان ڈال دی۔پاکستان فلم انڈسٹری کے اس معروف اور ہر دلعزیز فنکار نے سینکڑوں فلموں میں کام کیا ان کی کامیاب فلموں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں ہیرا پھن ،سسی پنوں،دھی رانی،ہیرا موتی،شیر خان،پتر دا پار ،چن وریام ،تیری غیرت ،میری عزت ،یار دیس پنجاب دے،دیس میرا جی واراں دا،جھورا،کوٹھے ٹپنی،جوان تے میدان،لا وارث حق مہر،سر دار ،جیرا سائیں،طوفان ،دادا اُستاد، یا رتے پیار،وحشی گجر ،نگری داتا دی ،بڈھا شیر ،دنیا پیسے دی،بھولا سجن ،سوہنا،ڈنکا ،سجاول ،طوفان تے طوفان ،عشق میراناں،دھرتی لہومنگدی،آخری قربانی،پتر شا ہیے دا،اکبر امر انتھونی،مرزا جٹ ،جٹ گجرتے نت ،جیرا شیر،ملے گا ظلم دا بدلہ ،جگاتے ریشماں ،مولا جٹ تے نوری نت ،خردماغ ،دوبیگھا زمین ،چن سورما،جیمز بانڈ دے پتر،اج دے نواب اور دیگر شامل ہیں۔

اقبال حسن خوش گلو بھی تھے اور نجی محفلوں میں آواز کا جادو بھی جگاتے تھے۔ان کے چھوٹے دو بھائی تنظیم حسن اور سلیم حسن بھی اداکار ہیں۔تنظیم حسن دو تین فلموں میں ہیرو بھی آئے اور انہیں بڑے کردار بھی ملتے رہے لیکن سلیم حسن ساری زندگی چھوٹے موٹے کردار ہی کرتے رہے۔اقبال حسن کی اداکاری یوسف خان سے خاص مخالفت بھی رہی اور فلم انڈسٹری کے”بڑے“ان دونوں کی صلح کروانے کے لئے ہمیشہ پیش پیش رہے۔
ماہ نومبر کی ستم ظریفی دیکھئے کہ14نومبر1984ء کو داتا صاحب کے عرس کے موقع پر اسلم پرویز اور اقبال حسن دیگر فنکاروں کے ساتھ ہدایت کار حیدر چودھری کی فلم”جھورا“کے آخری سینز کی شوٹنگ ّجو لاہور سے باہر تھی)سے واپس آرہے تھے کہ ان کی کار سے ایک مسافر وین ٹکرا گئی اور اقبال حسن موقع پر ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔
اقبال حسن ہماری فلم انڈسٹری کا سرمایہ تھے ،وہ اپنی موت سے پہلے بیک وقت چالیس فلموں میں کام کررہے تھے ۔
ان کے جنازے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد اتنی تھی کہ اس زمانے میں بہاولپور روڈ(لاہور)پر تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ٹریفک کو مشکلات کا سامنا رہا ۔انہیں میانی صاحب قبر ستان میں سپرد خاک کیا گیا۔اُن کی نماز جنازہ شیعہ عالم دین حافظ مخدوم زادہ شمشاد حسین پانی پتی نے پڑھائی۔اقبال حسن کے لواحقین میں اُن کی بیوہ ،دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔اندرون اور بیرون ممالک اُن کے پر ستاروں کی تعداد،لاکھوں میں ہے،ان کی رحلت کے وقت تین دن تک تمام فلم سٹوڈیوز سوگ میں بند رہے تھے۔

Browse More Articles of Lollywood