Ruswai Ki Sameera "Sana Javed"

Ruswai Ki Sameera "Sana Javed"

رسوائی کی سمیرا”ثنا جاوید“

”میں محض گلیمرس اداکارہ نہیں“

جمعرات 20 فروری 2020

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اداکاری بڑا آسان فن ہے کیونکہ اب ٹیلی ویژن پر کنور آفتاب احمد،نثار حسین،ساحرہ کاظمی،محسن علی،شیریں عظیم اور انہی کے پائے کے پروڈیوسر ڈائریکٹر موجود نہیں۔جسے منظر کشی کی تھوڑی سی سوجھ بوجھ ہو وہ آدھے ادھورے اسکرپٹ پر لازوال پروڈکشن دے سکتاہے ۔مگر نہیں ،ہم ڈرامہ انڈسٹری کے تمام ہنرکاروں اور ڈائریکٹرز کو اس نظر سے نہیں دیکھ سکتے۔
ان میں چند ایک سہی مگر مکمل حد تک تخلیقی جوہر اور ویژن رکھنے والے ڈائریکٹرز بھی موجود ہیں۔اداکارہ وہدایت کارہ روبینہ اشرف،ایوب خاور،غفران امتیازی اور ساحرہ کاظمی کی تراشیدہ ہستی ہیں جنہوں نے امجد اسلام امجد،سلیم چستی،بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کے طویل دورانئے کے کھیلوں میں اداکاری کرکے بہت کچھ سیکھا ہے ۔

(جاری ہے)

گزشتہ دنوں انہوں نے رسوائی ،کے عنوان سے ایک سیریل پیش کیا جس کی مرکزی اداکارہ ثناء جاوید تھیں۔

جیسا کہ اب تک آپ جان چکے ہیں کہ یہ سیریل ریپ ہونے والی نوجوان لڑکی کی اندوہناک کہانی تھی ،جو چاہتی ہے کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے مگر خاندان اور سماجی دباؤ اسے ایسا کرنے سے روکتے ہیں یہ لڑکی جن عذابوں سے گزری وہ ہم نے سیریل میں دیکھ لیا اب آیئے اداکارہ ثنا جاوید سے ان کے کیریئر اور ڈراموں کی صورتحال پر گفتگو کرتے چلیں․․․
”سنا ہے کہ ڈرامہ مکمل ہوتے ہی آپ کو سروائیکل کی شکایت ہو گئی اور درد شقیقہ الگ ہوا۔
کیا یہ کردار کے اثرات تھے؟“
”بالکل کردار ہی کے اثرات تھے۔ میں ابھی فزیو تھراپی کردار ہی ہوں۔یہ سب Stressکی وجہ سے ہوا ۔سمیرا کا کردار ادا کرنا جان جوکھوں کا کام تھا۔“
”کردار تو پہلے زیر بحث آیا ہو گا پھر کیا اسے کرنا ضروری تھا؟“
”یہ کردار ایسا تھا کہ جس کی اداکار خواہش کرتے ہیں ۔سادہ سے رومانوی کردار تو کئی لڑکیاں لڑکے کر رہے ہیں مگر زیادتی کا شکار ہو کر تاثراتی اداکاری کرنا بہت مشکل تھا۔
ساری دنیا سے مجھے تعریفی اور تو صیفی پیغامات آئے۔میں نے حال ہی میں فیشن شوبھی کیا تا کہ میرے اندر اور باہر کا ماحول کچھ تو بدلے میں سمیرا کے کردار سے اب باہر آجاؤں۔میں نے شروع میں کوئی ایسا بڑا سیریل نہیں کیا۔فلم کی تو اس میں بھی کوئی پیچیدہ کردار نہیں تھا سمیرا کے کردار کو سمجھنے کے لئے ایکٹ کرنے کے لئے میری ڈائریکٹر روبینہ اشرف سے گفتگو ہوتی رہی ۔
انہوں نے مجھے مختلف موقعوں پر کیسے تاثرات دینے ہیں بتائے بلکہ سمجھائے۔ جب روبینہ کسی کو بلا رہی ہوں تو واقعی وہ کردار اور وہ کام نظر آتاہے۔ “
”روبینہ تو نامی گرامی شخصیت ہیں ان کے کچھ الفاظ تو بتائیے جو ڈرامے کے اختتام پر انہوں نے کہے ہوں؟“
”انہوں نے مجھے گلے لگایا پیار کیا اور کہا کہ ثنا تم نے جیسا کردیا ویسا ہی کرنا بنتاتھا اس سے اچھا نہیں ہو سکتا ۔

”کوئی یادگار واقعہ خاص کر جب گینگسٹر آپ کو سڑک پر پھینک جاتے ہیں؟“
”آپ نے اسکرین پر ایک سیکنڈ کا وہ شاٹ دیکھا جب کہ مجھے خاصی دیر تک کیڑے مکوڑوں اور مکھیوں کے درمیان خون میں لت پت اور بے سدھ نظر آنے کے لئے ریت پر لیٹناپڑا۔ میں نے اسی نا قابل بیان کیفیت کو محسوس کیا اور درد سے کراہنے لگی جب تک یہ منظر شوٹ نہیں ہو گیا میں نے اٹھنے کی جلدی نہیں کی۔
یہ قسط آن ایئر گئی تو انٹرنیٹ پر میرے لئے ہمدردی کے پیغامات آنے لگے ۔لوگ فیس بک اور انسٹا گرام پر سمیرا کے ساتھ ہمدردی کے کلمات کہہ رہے تھے ۔میرا خیال تھا کہ وہ مجھ پر تنقید کریں گے اور اس درد ناک اور اذیت ناک منظر کو قبول نہیں کریں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔لوگ مجھ سے ہمدردی کر رہے تھے ۔ہر قسط کے بعد میں نے ٹوئٹر دیکھا،انسٹا گرام دیکھا لوگوں کی عمومی رائے یہی تھی کہ ظلم کا شکار ہونے والی خواتین کو خاموش ہو کر نہیں بیٹھنا چاہئے اور ہمت سے کام لے کر رپورٹ کرنی چاہئے تاکہ مجرم عبرت پکڑ سکیں۔

”یہ حسن اتفاق ہی ہو گا کہ دوسرے مقبول چینل پر عمران عباس کے مقابل بھی آپ کام کررہی ہیں یہ سیریل’ڈر خدا سے “کار سپانس کیسا رہا جو اسی وقت آن ایئر جا رہا تھا؟“
”ڈر خدا سے اور مقبول ہوتا اگر اس کا وقت تبدیل ہوجاتا۔اداکاروں کے ساتھ یہ مسئلہ رہتاہے سیریل کب ان ایئر جائے گا اور دوسرا سیریل کب نہیں آن ایئر جائے ۔یہ انتظامی معاملات چینل والوں کو دیکھنا ہوتے ہیں مگر متاثر ہم اداکار ہوتے ہیں۔
مگر شاید اب ناظرین بھی سمجھ چکے ہیں کہ ہم صرف اداکاری کر رہے ہیں۔کہاں بہتر اور کہاں بہتر نہیں پر فارم کر رہے لہٰذا وہ چینل بدل لیتے ہیں۔مگر ایک سہولت تو ڈرامے کے ناظرین کے پاس ہے ناں،ڈرامے تو اب دوبارہ اور سہہ بارہ بھی پیش ہوتے ہیں اسی لئے مجھے ریٹنگ کا مسئلہ مصنوعی سا لگتاہے ۔کوئی رات میں دیکھتاہے تو کوئی اگلے دن صبح ،مگر ڈرامہ دیکھا تو جا رہا ہے ۔
موضوعات بھی اب بہتر ہونے لگے ہیں۔میں بھی Contentپر توجہ دینے لگی ہوں ماضی میں نو آموز تھی۔گلیمرس کردار ادا کرنا ضرورت بھی تھا اور شوق بھی تھا۔مگر اب نہیں اب میں چاہتی ہوں کہ مرکزی کردار ہو اور اگر کوئی سماجی مسئلہ سلجھتا محسوس ہوتو پھر وہی کردار قبول کروں۔
”خانی میں بھی آپ نے سنجیدہ اور رومان سے بھر پور کردار ادا کیا تھا۔ایک سائیکل والا سین دیکھ کر ہم سمجھ ہی نہ پائے کہ آگے گھمبیر مسئلہ اٹھنے والا ہے ؟“
”جی بالکل لوگ اسے شروع میں رومانو کہانی سمجھے مگر یہ قتل کی وار دات اور پھر پولیس کی محکمہ جاتی کارروائی کے بعد انتقام میں ڈھلی اور پھر وعدہ معافی کے بعد ایک بار پھر رومینس میں بدل گئی ۔
اس کے لئے مجھے اسٹائل ایوارڈ میں بہترین اداکارہ کے لئے نامزدہ بھی کیا گیا۔اور پتا نہیں دل کو ایک آسرا سا ضرور ہے کہ اس برس بھی رسوائی ،کے لئے میری نامزدگی ہو گی۔“
”آپ نے فلمی صنعت میں بھی قدم رکھا اسے کیسا پایا اور کیا تو قعات ہیں؟“
”ہماری ڈرامہ اور فلم انڈسٹری علیحدہ علیحدہ نہیں ہیں وہی لوگ ڈرامہ بنا رہے ہیں جو فلم بھی بنا چکے یا بنائیں گے ۔
اس لئے اچھی تو قعات ہیں کہ خواتین کے مسائل سے متعلق جب بھی کوئی کردار میرے حساب کا ہوا تو لوگ مجھے بلائیں گے ۔اگلے سال کے لئے ایک فلم ابھی پائپ لائن میں تو ہے ۔چلتے چلتے میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ اب میں محض گلیمرس اداکارہ نہیں کہ جو بے جان اسکرپٹ میں مال مصالحہ کہلاتی ہے ۔مجھ سے کام لیا جائے۔مجھے کردار دئیے جائیں پھر دیکھیں میری پرفارمنس کو۔“

Browse More Articles of Television