Syed Shaukat Hussain Rizvi

Syed Shaukat Hussain Rizvi

سید شوکت حسین رضوی

بچھڑے 21برس بیت گئے

بدھ 19 اگست 2020

پاکستان فلم انڈسٹری کے معروف فلمساز،ہدایتکار اور سٹوڈیو اونر سید شوکت حسین رضوی کی 21ویں برسی 19اگست کو منائی جائے گی۔وہ طویل علالت کے بعد 19اگست 1999ء کو 85 سال کی عمر میں راہی ملک عدم ہو گئے تھے اور شاہ نور اسٹوڈیو کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔1914ء کو اُتر پردیش کے علاقے اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والے سید شوکت حسین رضوی نے فنی کیریئر کا آغاز کلکتہ میں اسٹنٹ پراجیکشنسٹ کی حیثیت سے کیا پھر ایڈیٹنگ میں مکمل دسترس حاصل کی،اس وقت کے نامور پروڈیوسر سیٹھ دل سکھ پنچولی انہیں کلکتہ سے لاہور لے آئے اور یہاں انہوں نے کئی فلموں کی ایڈیٹنگ کی جن میں گل بکاؤلی (1939) اور خزانچی ( 1941) شامل ہیں،اس کے بعد دل سکھ پنچولی نے انہیں اپنی فلم ”خاندان“ (1942) کی ہدایات کے فرائض سونپے جس نے ہندوستان بھر میں تہلکہ مچا دیا،اس فلم میں نور جہاں نے شائقین کے ساتھ ساتھ شوکت حسین رضوی کا دل بھی جیت لیا۔

(جاری ہے)

”خاندان“کی کامیابی کے بعد شوکت حسین رضوی اور نور جہاں ممبئی چلے گئے اور اسی سال دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے،ان کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے اکبر حسین رضوی،اصغر حسین رضوی اور ظل ہما۔
سید شوکت حسین رضوی اور نور جہاں نے کئی فلمیں بنائیں جن میں زینت اور جگنو بھی شامل ہیں۔1944ء میں بننے والی فلم ”دوست’“ میں شوکت حسین رضوی نے معاون اداکار کے طور پر کام بھی کیا اور وہ نور جہاں کے بھائی بنے تھے اس فلم کی ہدایات بھی شوکت حسین رضوی نے دی تھی۔
تقسیم ہند کے بعد شوکت حسین رضوی اور نور جہاں تینوں بچوں سمیت پاکستان چلے آئے اور لاہور میں قیام پذیر ہوئے جہاں انہیں پہلے شیش محل نامی ایک وسیع وعریض عمارت اور پھر سیٹھ دل سکھ پنچولی کا فلم اسٹوڈیو الاٹ ہوا جسے سید شوکت حسین رضوی نے شاہ نور اسٹوڈیو کا نام دیا۔
شوکت حسین رضوی بڑے وجیہہ نوجوان تھے،سعادت حسن منٹو نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ وہ (شوکت رضوی) ایک دراز قد اور دلکش نوجوان ہے جو انتہائی خوش لباس ہے۔
شوکت حسین رضوی کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی فلمی صنعت کی نشوونما میں بھی اہم کردار ادا کیا۔فلم ”جگنو“ میں دلیپ کمار کا بطور ہیرو انتخاب بھی ان کی فراست کا بین ثبوت تھا کہ انہوں نے ایک ناکام اداکار کو نور جہاں کے مقابل کاسٹ کیا کیونکہ دلیپ کمار سے پہلے انہوں نے جتنے اداکاروں کو کاسٹ کیا وہ شوکت رضوی کی توقعات پر پورا نہیں اُترے تھے لیکن دلیپ کمار نے پہلے ہی شاٹ میں زبردست اعتماد کا مظاہرہ کیا اور مکالموں کی ادائیگی کے خوب صورت انداز سے شوکت رضوی اور سیٹ پر موجود تمام لوگوں کو حیران کر دیا،اس موقع پر پرتھوی راج کپور بھی موجود تھے انہوں نے وہیں شوکت رضوی سے کہا تھا ”یاد رکھنا یہ لڑکا ایشیا کا سب سے بڑا اداکار ثابت ہو گا۔
“1988ء میں جب دلیپ کمار پہلی بار پاکستان کے دورے پر آئے تو خصوصی طور پر شوکت حسین رضوی سے ملاقات کی تھی۔
پاکستان میں ان کی پہلی فلم ”چن وے“ تھی جس پر بطور ہدایتکار نور جہاں کا نام دیا گیا تھا یوں نور جہاں کو پاکستان کی پہلی ہدایتکار خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ”چن وے“ کے بعد شوکت حسین رضوی نے گل نار،جان بہار،عاشق اور بہورانی کی ہدایات دیں۔
”چن وے“ 1951ء میں ریلیز ہوئی تھی جس کے پروڈیوسر اور معاون ہدایتکار شوکت حسین رضوی تھے،اس فلم نے بے مثال کامیابی حاصل کی،اس کے بعد معروف ڈرامہ نویس امتیاز علی تاج نے شوکت رضوی کی فلم ”گلنار“ کی ہدایات دیں۔اس دوران ان کے اپنی اہلیہ نور جہاں سے شدید اختلافات پیدا ہو گئے اور دونوں میں علیحدگی ہو گئی،نور جہاں کو اپنی بیٹی ظل ہما اپنے پاس رکھنے کے لئے شاہ نور اسٹوڈیو کے حصے سے دستبردار ہونا پڑا جس سے شوکت رضوی کے کیریئر کو شدید دھچکا لگا کیونکہ وہ نور جہاں کے شوہر کی حیثیت سے بھی اہم مقام حاصل کر چکے تھے،اس کے بعد انہوں نے اس وقت کی معروف اداکارہ یاسمین رضوی سے شادی کرلی جن سے ان کے دو بیٹے شہنشاہ حسین رضوی اور علی مجتبیٰ رضوی پیدا ہوئے۔

یہ شادی کامیاب ثابت ہوئی جس سے شوکت رضوی اور یاسمین رضوی دونوں کو فائدہ ہوا۔نور جہاں سے طلاق کے بعد انہوں نے صرف تین اردو جان بہار،عاشق اور دلہن رانی بنائیں۔جان بہار کا ایک گیت گوانے کے لئے انہوں نے اپنی سابقہ اہلیہ نور جہاں سے کہا تو انہوں نے حامی بھر لی،یہ گیت مسرت نذیر پر پکچرائز ہوا جس نے شائقین فلم کو مسحور کر دیا۔دلہن رانی کے فلاپ ہونے کے بعد شوکت حسین رضوی کو مایوسیوں نے آن گھیرا اور انہوں نے فلموں سے ریٹائرمنٹ لے لی جس کے بعد ان کے چاروں بیٹوں نے شاہ نور اسٹوڈیو کا انتظام سنبھال لیا،آج اس تاریخی اسٹوڈیو کی حالت دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔

Browse More Articles of Lollywood