Ustad Amanat Ali Khan

Ustad Amanat Ali Khan

استاد امانت علی خان

بچھڑے 46 برس بیت گئے

جمعرات 17 ستمبر 2020

وقار اشرف
سروں کے بے تاج بادشاہ اور پٹیالہ گھرانے کے نامور گائیک اُستاد امانت علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 46برس بیت گئے مگر ان کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت آج بھی مداحوں کے کانوں میں رس گھولتے ہیں اور دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔ 1922ء کو متحدہ ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہونے والے اُستاد امانت علی خان نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد اختر حسین خان سے حاصل کی،پٹیالہ گھرانے کے اہم ترین فنکاروں میں ان کے علاوہ اُستاد فتح علی خان،اُستاد حامد علی خان،اسد امانت علی خان اور شفقت امانت علی خان شامل ہیں۔
وہ علی بخش جرنیل کے پوتے تھے جو پٹیالہ گھرانے کے بانی کہلاتے ہیں۔
موسیقی کی باقاعدہ تعلیم کے بعد امانت علی خان اپنے بھائی اُستاد فتح علی خان کے ساتھ مل کر گایا کرتے تھے اور جلد ہی یہ جوڑی مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئی بعد ازاں ریڈیو پاکستان میں قبولیت کی سند پائی۔

(جاری ہے)

اُستاد امانت علی خان نے کم عمری میں ہی دادرا،ٹھمری ،کافی اور غزل گائیکی میں مہارت حاصل کرلی تھی،غزل گائیکی میں اپنے منفرد انداز کے باعث انہوں نے ہم عصر گلوکاروں استاد مہدی حسن خان،استاد غلام علی اور اعجاز حضروی میں اپنا ایک الگ مقام اور شناخت بنائی۔


امانت علی خان نے چھوٹی عمر سے ہی محفلوں میں گانا شروع کر دیا تھا اور ریاست پٹیالہ کے راجہ کے دربار سے وابستہ ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لتا منگیشکر کے پہلے استاد تھے جب وہ 1945ء میں ممبئی آئیں اور ہندوستانی کلاسیکی موسیقی سیکھنا شروع کی۔ قیام پاکستان کے بعد استاد امانت علی خان اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ مستقل طور پر لاہور شفٹ ہوگئے اور منٹوپارک کے قریبی علاقے کریم پارک میں رہائش پذیر ہوئے ،ان کے گائے ہوئے چند مشہور گیتوں میں ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے،چاند میری زمیں پھول میرا وطن، موسم بدلا رُت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے اور یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے بھی شامل ہیں۔
امانت علی خان کے گائے ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں کلاسیکی اور نیم کلاسیکی گیت آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔
پاکستان آنے کے فوری بعد استاد امانت علی خان نے ریڈیو پر گانا شروع کیا پھر پٹیالہ گھرانے کے نمائندے کی حیثیت سے جنوبی ایشیا کا دورہ کیا،انہیں راگ،ٹھمری اور غزل گانے میں مہارت حاصل تھی۔ جب امانت علی خان اور ان کے بھائی فتح علی خان نے اپنا کیریئر شروع کیا تو اس وقت کلاسیکی موسیقی عروج پر تھی،امانت علی خان کی غیر معمولی گائیکی کی وجہ سے فوری طور پر ان کا نوٹس لیا گیا اور ان کے گانے کے انداز کو اہل موسیقی نے بہت پسند کیا۔
50ء اور 60 ء کی دہائی میں انہوں نے بہت شہرت حاصل کی،حیدر علی آتش کی غزل ”یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے“ گا کر انہوں نے غزل گائیکی کو ایک نیا اسلوب دیا۔
ابن انشا کی غزل بھی اس حقیقت کا بین ثبوت ہے اور شاید ابن انشا نے بھی سوچا نہ ہو گا کہ امانت علی خان جب ان کی یہ غزل گائیں گے تو امانت علی خان کے ساتھ وہ خود بھی امر ہو جائیں گے بالکل اسی طرح ظہیر کاشمیری کی غزل ”موسم بدلا رُت گد رائی اہل جنوں بے باک ہوئے“جس مہارت اور جذبے سے امانت علی خان نے گائی وہ انہی کا خاصہ ہے اس غزل کے بعد ظہیر کاشمیری کو بھی بے پناہ شہرت حاصل ہوئی تھی۔
ادا جعفری کی غزل ”ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے“ کو بھی انہوں نے گا کر امر کر دیا۔ اُستاد امانت علی خان نے ملی نغمات گا کر بھی شہرت حاصل کی ان نغمات میں ”چاند میری زمیں پھول میرا وطن“ اور ”اے وطن پیارے وطن“ شامل ہیں۔ یہ نامور گلوکار 17 ستمبر 1974ء کو لاہور میں صرف 52سال کی عمر میں راہی ملک عدم ہو گئے تھے لیکن ان کا فن ہمیشہ زندہ رہے گا۔ وہ ایک جملہ اکثر نجی محافل میں کہا کرتے تھے کہ ہمیں رضا کا رانہ طور پر اپنی عمریں کم کر لینی چاہئیں تاکہ تھوڑی تھوڑی آسودگی سب کے حصے میں آجائے۔ ان کی طویل فنی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

Browse More Articles of Music