Gaaye Gi Duniya Geet Mere

Gaaye Gi Duniya Geet Mere

گائے گی دنیا گیت میرے

ملکہ ترنم نور جہاں کی یاد دلوں میں آج بھی زندہ ہے

بدھ 23 دسمبر 2020

 وقار اشرف
ملکہ ترنم نور جہاں کو مداحوں سے بچھڑے 20 برس بیت گئے مگر ان کی سریلی آواز آج بھی ان کے گیت سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتی ہے۔بابا بلھے شاہ کی نگری قصور میں آنکھ کھولنے والی اللہ وسائی نے نور جہاں کے نام سے اداکاری اور گلوکاری دونوں میدانوں میں شہرت پائی،اپنے طویل کیریئر کے دوران اُردو،پنجابی،فارسی،بنگالی،پشتو،سندھی اور ہندی میں تقریباً 20 ہزار سے زائد گیت گائے جنہوں نے ہر طرف دھوم مچا دی۔
تقریباً 40 فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور تمغہ امتیاز و پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت کئی قومی و بین الاقوامی ایوارڈز بھی اپنے نام کیے۔65ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران اپنے نغموں سے عوام اور فوجی جوانوں کا خون گرمائے رکھا جن میں اے وطن کے سجیلے جوانوں،رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو،میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیا رکھاں،میرا ماہی چھیل چھبیلا کر نیل نی جرنیل نی،اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے جیسے ترانے شامل تھے۔

(جاری ہے)


21 ستمبر 1926ء کو قصور میں پیدا ہونے والی اللہ وسائی کو چار سال کی عمر میں موسیقی کی تعلیم کے لئے خاندانی استاد غلام محمد کے سپرد کر دیا گیا تھا۔سات برس کی عمر میں انہیں موسیقی کی اتنی سمجھ آچکی تھی کہ اپنی بڑی بہن عیدن اور حیدر باندی کے ساتھ سٹیج پر گانے لگیں،ابتدا میں وہ مختار بیگم،اختری بائی فیض آباد اور دوسری گلوکاراؤں کے مقبول گیت گایا گاتی تھیں۔
آٹھ نو برس کی عمر میں ان کا خاندان لاہور منتقل ہو گیا جہاں انہوں نے سٹیج پر پرفارم کرنا بھی شروع کر دیا یہیں انہیں موسیقار جی اے چشتی ملے جنہوں نے نور جہاں کی آواز کو مزید سنوارا۔لاہور میں کامیابی کے بعد یہ بہنیں اپنے بھائی محمد شفیع کے ساتھ کلکتہ چلی گئیں جہاں اس وقت مختار بیگم کا ہر طرف طوطی بول رہا تھا،مختار بیگم کو ان بہنوں کی آواز بہت پسند آئی اور ان کی سفارش پر ہی انہیں کے ڈی مہرا کی فلم کمپنی میں ملازمت مل گئی،اسی کمپنی نے اللہ وسائی کا نام بے بی نور جہاں رکھا جبکہ عیدن اور حیدر بائی اپنے اصلی نام کے ساتھ ہی گاتی رہیں۔
تینوں بہنوں نے جس پہلی فلم میں کام کیا اس کا نام ”شیلا عرف پنڈ دی کڑی“ تھا،اس فلم میں مرکزی کردار پشپا رانی اور اُستاد مبارک علی خان نے ادا کیے تھے۔
نور جہاں نے اس فلم میں ایک گانے ”لنگھ آجا پتن چناں دا او یار“ پر پرفارم کیا تھا۔اس کے بعد انہیں فلموں میں ثانوی نوعیت کے کردار ملتے رہے،چند فلموں میں گائیکی کا موقع بھی ملا جن میں مصر کا ستارہ ،مسٹر اینڈ مسز بمبئی،ناری راج،ہیر سیال اور سسی پنوں شامل تھیں۔
لیکن جس فلم سے نور جہاں کو پہچان ملی وہ دل سکھ ایم پنچولی کی فلم ”گل بکاؤلی“ تھی،اس فلم کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر تھے جبکہ نغمہ نگار ولی صاحب تھے۔اس فلم کے لئے جب نور جہاں نے اپنا پہلا نغمہ صدا بند کروایا تو ہر طرف اس گانے کی دھوم مچ گئی جس کے بول تھے ”شالا جوانیاں مانیں“۔1939ء میں یہ فلم نمائش کے لئے پیش کی گئی۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے نور جہاں کے نغمات اور اداکاری سے سجی مزید فلمیں نمائش کے لئے پیش ہونے لگیں جن میں ”یملا جٹ“ اور ”چودھری“شامل تھیں۔
”خزانچی“ کے ایڈیٹر شوکت حسین رضوی تھے جن کے کام سے خوش ہو کر سیٹھ دل سکھ ایم پنچولی نے انہیں اردوسوشل فلم ”خاندان“ بنانے کے لئے کہا جس میں مرکزی کردار کے لئے نور جہاں کا انتخاب کیا گیا،اس فلم کی موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے ترتیب دی تھی جبکہ اس کے نغمات ڈی این مدھوک نے لکھے تھے اور انہیں اس کے لئے خصوصی طور پر بلایا گیا تھا۔
ماسٹر غلام حیدر نے ”گل بکاؤلی“ کے کامیاب تجربے کو مد نظر رکھتے ہوئے’خاندان“ کے زیادہ تر گانوں کو نور جہاں کی آواز سے آراستہ کیا، اسی فلم کی عکس بندی کے دوران نور جہاں اور شوکت حسین رضوی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔
شوکت رضوی اور نور جہاں کی شادی کے بعد دونوں کے لئے کامیابی کی راہیں واہو گئیں۔”خاندان“ کے بعد اگلے دو تین برسوں میں نور جہاں کی بطور اداکارہ و گلوکارہ کئی فلمیں نمائش کے لئے پیش ہوئیں جن میں نوکر،دہائی،نادان،دوست اور لال حویلی شامل تھیں۔نور جہاں نے 1932ء سے 1947ء تک 127 گانے گائے جبکہ 69 فلموں میں اداکاری کی۔انہوں نے 12 خاموش فلموں بھی کام کیا۔
نور جہاں نے جن فلموں میں کام کیا۔ ان میں سے 55 فلمیں بمبئی،8 کلکتہ،5 لاہور اور 1 فلم رنگون برما میں بنی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے ہمراہ بمبئی سے لاہور منتقل ہو گئیں،انہوں نے بطور اداکارہ گلنار،چن وے،دوپٹہ ،پاٹے خان،لخت جگر،انتظار،نیندکوئل،چھو منتر،انار کلی اور مرزا غالب جیسی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے 1951ء میں فلم”چن وے“ سے پاکستان کی فلم صنعت میں نئی جان ڈال دی۔چن وے نور جہاں کی پاکستان میں بطور ہیروئن پہلی فلم تھی اور اس کی موسیقی فیروز نظامی کی تھی۔لاہور میں یہ فلم ریجنٹ سینما پر 18 ہفتے تک بزنس کرتی رہی۔”چن وے“ کی ہدایات بھی نور جہاں نے دی تھیں۔بعد ازاں انہوں نے اداکاری کو خیر آباد کہہ کر خود کو گلوکاری تک محدود کر لیا تھا۔

1952ء میں نور جہاں کی فلم”دوپٹہ“نمائش کے لئے پیش کی گئی جس کے ہدایت کار سبطین فضلی اور پیش کار اسلم لودھی تھے،اس فلم نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے خصوصاً نور جہاں کا گایا ہوا یہ گانا”سب جگ سوئے ہم جاگیں تاروں سے کریں باتیں“بہت مقبول ہوا تھا۔1957ء میں فلم ”انتظار“ پر انہیں صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔
سید شوکت حسین رضوی سے نور جہاں کی ایک بیٹی اور دو بیٹے اکبر رضوی،اصغر رضوی اور ظل ہما تھے۔
شوکت رضوی سے طلاق کے بعد نور جہاں نے اعجاز درانی سے شادی کی مگر یہ بھی اختلافات کی وجہ سے نہ چل سکی۔ایک اندازے کے مطابق انہوں نے 995 فلموں کے لئے نغمات ریکارڈ کروائے۔نور جہاں کے بارے میں لکھے گئے اکثر مضامین میں بتایا جاتا ہے کہ نور جہاں کو ملکہ ترنم کا خطاب 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان نے دیا تھا جبکہ زخمی کانپوری کے مطابق نور جہاں کو یہ خطاب ان کے مداحوں نے فلم انتظار کے گیتوں پر دیا تھا۔بطور گلوکارہ ان کی آخری فلم ”’گبھرو پنجاب دا“ 2000 میں ریلیز ہوئی تھی۔نور جہاں 23 دسمبر 2000ء کو 74 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئیں اور کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں،ان کے جنازے میں لگ بھگ چار لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی تھی۔

Browse More Articles of Music