Nadira

Nadira

نادرہ

حُسن‘اداکاری اور رقص کا امتزاج

جمعہ 6 اگست 2021

وقار اشرف
پاکستان میں کئی ہائی پروفائل شخصیات قتل ہو چکی ہیں جن کا معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا۔کئی فنکاروں کو بھی مختلف اوقات میں قتل کیا گیا جن میں اُردو اور پنجابی فلموں کی خوبصورت اداکارہ نادرہ بھی شامل ہیں جن کے قتل کو 26 برس بیت چکے ہیں۔بے شمار فلموں میں اداکاری اور رقص کے جوہر دکھانے والی نادرہ کو 6 اگست 1995ء کو گلبرگ لاہور میں گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
نادرہ نے سلطان راہی اور اظہار قاضی سمیت اپنے وقت کے کئی ہیروز کے ساتھ کام کیا مگر اسماعیل شاہ کے ساتھ ان کی جوڑی سب سے زیادہ پسند کی گئی تھی۔
نادرہ کا شمار فلم انڈسٹری کی خوبرو اداکاراؤں میں ہوتا تھا۔وہ اداکاری کے ساتھ ساتھ رقص پر بھی مہارت رکھتی تھیں اور 8 سال تک فلم انڈسٹری پر راج کرتی رہیں 1968ء کو لاہور میں پیدا ہونے والی نادرہ کا فلمی سفر صرف 8 برسوں پر محیط تھا جس میں انہوں نے درجنوں فلموں میں کام کیا اور ہر فلم میں ان کے رقص کی تعریف کی گئی،وہ ڈرامائی مناظر کو نہایت مہارت اور خوبصورتی سے عکس بند کرواتی تھیں۔

(جاری ہے)


نادرہ کو سب سے پہلے ہدایت کار یونس ملک نے 1986ء میں اپنی فلم ”آخری جنگ“ میں متعارف کرایا تھا مگر ریلیز پہلے ”نشان“ ہو گئی یوں ”نشان“ ان کی پہلی فلم بن گئی جس کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر الطاف حسین تھے۔اس فلم میں سنگیتا،شہباز اکمل،زمرد،بابرہ شریف،ظاہر شاہ،نصراللہ بٹ،افضال احمد اور عابد علی بھی ان کے ساتھ تھے۔”آخری جنگ“ میں انہوں نے سلطان راہی اور غلام محی الدین کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
”میری آواز“ میں اسماعیل شاہ ان کے ہیرو تھے جس میں ناہید اختر کی آواز میں دو گانے بھی نادرہ پر فلمائے گئے جو نادرہ اور اسماعیل شاہ کے بے مثال رقص کی وجہ سے کافی مقبول ہوئے تھے،یہ فلم 25 اکتوبر 1987ء کو ریلیز ہوئی جس کے بعد نادرہ نے کسی اُردو فلم میں کام نہیں کیا اور پنجابی فلموں تک محدود ہو گئیں۔
نادرہ نے اپنے حُسن اور رقص میں مہارت کے باعث بہت مختصر عرصہ میں ہی پاکستانی فلمی صنعت میں اپنے قدم جما لیے تھے،سلطان راہی، غلام محی الدین اور اسماعیل شاہ کے ساتھ سب سے زیادہ فلموں میں کام کیا تھا،ندیم بیگ کے ساتھ ایک فلم ”تیس مار خان“ میں جلوہ گر ہوئیں جس کے ہدایت کار اقبال کاشمیری اور موسیقار وجاہت عطرے تھے ،اس فلم کے دیگر فنکاروں میں شمیم آراء،عثمان پیرزادہ،رنگیلا اور بدر منیر شامل تھے،نادرہ کی یہ فلم بھی ہٹ ہوئی تھی۔
نادرہ نے اس وقت کی سپر اسٹارز صائمہ‘انجمن اور نیلی کی موجودگی میں اداکاری میں اپنا انداز اپنایا جس میں وہ کامیاب بھی رہیں۔
”زخمی عورت“ نادرہ کی پہلی ڈبل ورژن فلم تھی جس کے ہدایت کار اقبال کاشمیری اور موسیقار وجاہت عطرے تھے۔”راجا“ بھی نادرہ کی ڈبل ورژن فلم تھی جس میں ندیم،نیلی اور جاوید شیخ بھی ان کے ساتھ تھے،یہ درمیانے درجے کی فلم تھی مگر نادرہ کے مداح تو صرف نادرہ کا رقص اور خوبصورتی پر فدا تھے۔
نادرہ کی ایک فلم ”حُسن کا چور“ شان کے ساتھ تھی جس کے ہدایت کار الطاف حسین تھے،جاوید شیخ،فردوس جمال اور عابد علی بھی اس فلم میں تھے۔ہدایت کار الطاف حسین نے ان کے نام سے ہی ایک ڈبل ورژن فلم ”نادرہ“ بھی بنائی جس میں صائمہ،شان،ہمایوں قریشی اور عابد علی بھی شامل تھے۔نادرہ نے تقریباً 30 کے قریب پنجابی فلموں میں اداکاری کی،اس کے علاوہ تقریباً بارہ تیرہ فلمیں ڈبل ورژن میں تھیں،انہوں نے صرف ایک اردو فلم میں کام کیا جبکہ چار پشتو فلمیں بھی ان کے کریڈٹ پر تھیں۔
ایک فلم ”محبوبہ“ میں وہ انجمن اور ریما خان کے مقابلے پر تھیں،اس ڈبل ورژن فلم کے ہدایت کار حسنین جبکہ موسیقی ایم اشرف اور ایم ارشد کی تھی،شان اس فلم کے ہیرو تھے جو بیک وقت تین ہیروئنوں کے ساتھ کام کر رہے تھے۔
نادرہ کی پہلی پشتو فلم ”قانون زما پا لا سکے“ کے ہدایت کار عنایت اللہ خان تھے جس میں انہوں نے اسماعیل شاہ،آصف خان،بدر منیر، مسرت شاہین اور ہمایوں قریشی کے ساتھ اداکاری کی تھی۔
21 فروری 1992ء کو ریلیز ہونے والی یہ فلم بزنس کے اعتبار سے درمیانے درجے کی ثابت ہوئی۔نادرہ کی ایک اور فلم”جگا ڈاکو“ بھی بڑی کامیاب ہوئی جس کے ہدایت کار یونس ملک اور موسیقار وجاہت عطرے تھے ،اس فلم میں نادرہ کے ساتھ سلطان راہی،غلام محی الدین،افضال احمد،طارق شاہ اور ہمایوں قریشی بھی تھے،اس کے ساتھ ہی ایک ڈبل ورژن فلم ”عادل“ بھی ریلیز ہوئی جس کے پروڈیوسر شیخ محمد سعید اور ہدایت کار الطاف حسین تھے،اس فلم میں نادرہ کے ساتھ اسماعیل شاہ، کنول،طالش،غلام محی الدین،محمد قوی خان،ہمایوں قریشی،ادیب،جمیل بابر اور رنگیلا بھی تھے،یہ فلم اکتوبر 1993ء میں ریلیز ہوئی تھی۔

نادرہ کی دیگر مقبول فلموں میں لاہوری بدمعاش،گاڈ فادر،محمد خان،شیر جنگ،حفاظت،جنگ باز،وقت،یارانہ،ظلم دا سورج،دولت دے پجاری،جادوگرنی،لکھن،پتر شیراں دے،بادل،ناچے ناگن،میری آواز،کمانڈو ایکشن،مفرور،حکومت،تحفہ،برداشت،یارانہ،زبردست، مس اللہ رکھی،کرما،رکھوالا،میرا چیلنج،ناگن جوگی،زخمی عورت،مجرم،پتر جگے دا،مارشل،،حُسن کا چور،وطن کے رکھوالے،میری جنگ،شیرا فگن اور جوشیلے شامل ہیں۔
”لیلیٰ“ ان کی آخری فلم تھی جس کے پروڈیوسر اسماعیل چوہدری،ہدایت کار نذر السلام اور موسیقار وجاہت عطرے تھے جس میں اظہار قاضی،عابد علی،ہمایوں قریشی اور افضال احمد بھی نادرہ کے ساتھ تھے۔
نادرہ نے 1993ء میں سونے کے تاجر ملک اعجاز حسین سے شادی کی تھی جن سے ان کے دو بچے تھے،بڑی بیٹی رباب اور چھوٹا بیٹا حیدر علی۔شادی کے بعد انہوں نے شوبز کو خیر آباد کہہ دیا تھا لیکن ابھی کئی فلموں کی نمائش ہونا تھی کہ 6 اگست کو وہ اپنی فیملی کے ساتھ گلبرگ میں واقع ایک ریستوران میں ڈنر کرنے کے بعد اپنی گاڑی میں آکر بیٹھی ہی تھی کہ اچانک ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی،انہیں تین گولیاں لگیں اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گئیں جبکہ ان کی والدہ،شوہر اور دونوں بچے محفوظ تھے۔
کہا جاتا ہے کہ نادرہ نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر پراپرٹی کا کاروبار شروع کیا تھا جس پر دونوں کے درمیان کچھ اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔نادرہ کی موت سے فلم سازوں کے لاکھوں روپے ڈوب گئے کیونکہ کئی فلمیں سیٹ پر تھیں۔

Browse More Articles of Lollywood