Ahmad Rahi

Ahmad Rahi

احمد راہی

انمول گیتوں کی خوشبو فضا میں آج بھی بکھری ہے

جمعہ 2 ستمبر 2022

وقار اشرف
معروف نغمہ نگار،شاعر اور مکالمہ نویس احمد راہی کو مداحوں سے بچھڑے 20 برس بیت گئے لیکن ان کے لکھے ہوئے نغمات آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔احمد راہی 2 ستمبر 2002ء کو 78 سال کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔انہوں نے 200 سے زائد اردو اور پنجابی فلموں کیلئے ایک ہزار کے قریب نغمے تخلیق کئے،ان کے گیتوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان میں پنجاب کا رومان زندہ ہے۔

12 نومبر 1923ء کو امرتسر میں پیدا ہونے والے احمد راہی کا اصل نام غلام احمد تھا۔ایم اے او کالج میں سیف الدین سیف ان کے کلاس فیلو تھے جن سے ان کی دوستی ہو گئی اور سیف الدین سیف کی صحبت نے غلام احمد کو بھی شاعر بنا دیا اور انہوں نے اپنے نام کے ساتھ غلام ہٹا کر احمد کے ساتھ راہی کا اضافہ کر لیا۔

(جاری ہے)

دونوں نے شاعری کا آغاز پنجابی شاعری سے کیا،سیف الدین سیف شاعری میں احمد راہی کے اُستاد تھے۔


تقسیم کے بعد احمد راہی نے ترقی پسند ادبی مجلے ”سویرا“ کی ادارت سنبھالی جہاں 1951ء سے 1953ء تک خدمات انجام دیں پھر فلمی دنیا کا رخ کر لیا اور فلمی کیریئر کا آغاز تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کے پس منظر میں بننے والی پنجابی فلم ”بیلی“ سے کیا جس کی کہانی سعادت حسن منٹو نے لکھی تھی جبکہ مسعود پرویز نے اسے ڈائریکٹ کیا تھا،اس کے بعد پرواز،مجرم،پتن،ماہی منڈا،یکے والی اور سردار جیسی فلموں کے علاوہ مسعود پرویز اور خواجہ خورشید انور کی مشہور پنجابی فلم ”ہیر رانجھا“ کے بھی نغمات لکھے جن میں سن ونجھلی دی مٹھڑی تان وے اور ونجھلی والڑیا توں تے موہ لئی اے مٹیار بے حد مقبول ہوئے تھے۔
ان کے لکھے ہوئے دیگر مقبول نغموں میں میری چُنی دیاں ریشمی تنداں،چوڑے والی بانہہ نہ مروڑ،نہ عشق نوں لیکاں لائیں،برے نصیب میرے،نِکے ہوندیاں دا پیار،سُنجے دل والے بوہے اجے میں نہیوں ڈھوئے،آندا تیرے لئی ریشمی رومال،جدوں تیری دُنیا توں پیار ٹر جائے گا،رناں والیاں دے پکن پروٹھے،کوئی نواں لارا لا کے مینوں رول جا،اینی گل دس دیو نکے نکے تاریو اور دیگر شامل ہیں۔

احمد راہی لگ بھگ چالیس سال تک فلمی دنیا سے وابستہ رہے،آخری گانا 1998ء میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ”نکی جئی ہاں“ کیلئے لکھا جس پر انہیں نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔”یکے والی“ اور ”چھومنتر“ کے گیتوں نے احمد راہی کی کایا پلٹ دی۔”چھومنتر“ کا ایک گیت ”برے نصیب میرے“ اُس زمانے میں گلی گلی کوچے کوچے میں مشہور ہوا تھا۔پنجابی ادب میں احمد راہی کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی نظموں کا مجموعہ ”ترنجن“ 1952ء میں شائع ہوا جس میں تقسیم ہند کے وقت ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا تھا۔
”ترنجن“ کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا تھا۔ان کے دیگر شعری مجموعوں میں نمی نمی دا اور رُت آئے رُت جائے شامل ہیں۔احمد راہی نے تقریباً ایک درجن اردو فلموں کیلئے بھی خوبصورت نغمے تحریر کئے۔ہدایت کار ایس سلیمان کی فلم ”باجی“ کے گیتوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے،ملکہ ترنم نور جہاں اور نسیم بیگم کی آواز میں گائے ہوئے یہ گیت آج بھی سننے والوں کو سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔
رومانوی داستانوں ہیر رانجھا،مرزا صاحباں اور سسی پنوں کے نغموں کے علاوہ ان کے اسکرپٹ بھی احمد راہی نے لکھے تھے۔موسیقار خواجہ خورشید انور کے ساتھ انہوں نے انتہائی معیاری کام کیا۔ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی،نگار اور بولان ایوارڈز سے بھی نوازا گیا تھا۔

Browse More Articles of Music