Waris Ludhianvi

Waris Ludhianvi

وارث لدھیانوی

لازوال پنجابی گیتوں کے خالق

پیر 5 ستمبر 2022

وقار اشرف
نامور نغمہ نگار وارث لدھیانوی کی 30 ویں برسی 5 ستمبر کو منائی جا رہی ہے۔وہ 5 ستمبر 1992ء کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے مگر ان کے لکھے ہوئے گیت ان کی یاد دلاتے رہیں گے،انہوں نے پنجابی گیتوں کو عظمت بخشی۔11 اپریل 1928ء کو لدھیانہ میں پیدا ہونے والے وارث لدھیانوی کا اصل نام چوہدری محمد اسماعیل تھا۔
شاعری شروع کی تو ابتداء میں عاجز تخلص کیا کرتے تھے پھر اُستاد دامن کے شاگرد ہوئے تو وارث تخلص کر لیا اور استاد دامن کی شاگردی کے بعد اردو کی بجائے پنجابی شاعری پر توجہ مرکوز کر لی۔انہوں نے اُستاد دامن سے بہت کچھ سیکھا اور بارہا اس کا اعتراف بھی کیا کرتے تھے۔
وارث لدھیانوی کی بطور نغمہ نگار پہلی فلم ”شہری بابو“ تھی جس کا ایک گیت ”اِک منڈے دی چیز گواچی بھل کے چیتا آوے گا“ زبیدہ خانم کی آواز میں مشہور ہوا تھا لیکن ان کے لکھے ہوئے گیت ”دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا“ نے انہیں بہت زیادہ شہرت دی جو فلم ”کرتار سنگھ“ میں شامل تھا،یہ گیت آج بھی سپرہٹ گانوں میں شمار ہوتا ہے اور پنجاب میں شادی بیاہ کی کوئی تقریب اس گیت کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

وارث لدھیانوی نے جن فلموں کیلئے نغمات لکھے ان میں ماہی منڈا،جٹی،مکھڑا،ناجی،مٹی دیاں مورتاں،ہیر سیال،لچھی،یار دیس پنجاب دے،میلے سجناں دے،ضدی،خوشیا،نوکر ووہٹی دا،وحشی جٹ،الٹی میٹم،شیر خان،شعلے،انگارہ،جانباز،باجی،پگڑی سنبھال جٹا،رنگیلا،شعلے،مفرور،روٹی،حکومت،مکھڑا،دو رنگیلے اور دیگر فلمیں شامل تھیں۔ان کے لکھے ہوئے مقبول گیتوں میں دلا ٹھہر جا یار دا نظارہ لین دے (منیر حسین،زبیدہ خانم)،میرا دل چنا کچ دا کھڈونا (زبیدہ خانم)،سانوں وی لے چل نال وے باؤ سوہنی گڈی والیا (نسیم بیگم)،جھانجریا پہنا دو (ملکہ ترنم نور جہاں)،میں دل تیرے قدماں چے رکھیا،وے سب توں سوہنیاں ہائے وے من موہنیاں،دلاں دیاں میلیاں نے چن جیاں صورتاں،گوری گوری چاندنی،چنا تیری یاد وچ چن چن دے سامنے آ گیا،جھانجھر دی پانواں چھنکار،جے میں ہوندی ڈھولنا سونے دی تویتری،میں چڑھی چوبارے عشق دے،پانویں مینوں کملی کہہ لے پانویں کہہ لے جھلی،مینوں تیرے جیا سوہنا دلدار ملیا،پاگل نیں او جیڑے سچا پیار کسے نال کر دے نیں اور دیگر شامل ہیں۔

انہیں اپنا گیت ”پھکی پے گئی چناں تاریاں دی لوء توں اجے وی نہ آیوں سجناں“ ذاتی طور پر بہت پسند تھا۔انہوں نے بابا جی اے چشتی،ماسٹر عنایت حسین،رشید عطرے،صفدر حسین،طافو،طفیل،فاروقی اور نذیر علی جیسے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔وارث لدھیانوی نے تقریباً تیس برس سے زائد فلمی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ان کی گیت نگاری دیگر نغمہ نگاروں سے الگ تھی،ان کی زبان بہت سادہ اور پُر اثر تھی اسی لئے ان کے گیتوں نے بہت شہرت حاصل کی اور وہ زبان زد عام ہوئے۔
انہوں نے ایک جگہ رکنے کی بجائے خود کو وقت کے ساتھ تبدیل کیا اور زمانے کے ساتھ چلے یہی وجہ تھی کہ 50ء اور 60ء کی دہائی میں ان کی گیت نگاری کا انداز کچھ اور تھا لیکن 70ء اور 80ء کی دہائی میں ان کی نغمہ نگاری میں تبدیلی دیکھی گئی۔وہ گیت لکھنے سے پہلے فلم کے موسیقار سے بھی مشورہ لیتے اور سیچوایشن کے مطابق نغمات لکھا کرتے تھے۔اداکاروں اور اداکاراؤں سے بھی اس حوالے سے بات چیت کیا کرتے تھے۔

Browse More Articles of Music