Naseem Begum

Naseem Begum

نسیم بیگم

انہیں ملکہ ترنم کا نعم البدل تصور کیا جاتا تھا

جمعرات 29 ستمبر 2022

وقار اشرف
نامور گلوکارہ نسیم بیگم کو مداحوں سے بچھڑے 51 برس بیت گئے لیکن ان کی آواز کا سحر آج بھی برقرار ہے۔انہیں ملکہ ترنم نور جہاں کا نعم البدل بھی تصور کیا جاتا تھا۔انہوں نے 1960ء سے 1964ء تک بہترین خاتون گلوکارہ کے طور پر 4 نگار ایوارڈ حاصل کیے۔12 سالہ کیریئر کے دوران جتنے بھی گیت گائے وہ تقریباً سپرہٹ رہے۔
ان کی آواز ملکہ ترنم نور جہاں کے علاوہ سمن کلیان پور سے بھی ملتی تھی جس کا انہیں نقصان بھی ہوا کیونکہ ان کے اکثر گانوں کو لوگ ملکہ ترنم یا سمن گلیان پور کے گانے ہی سمجھتے رہے۔
1936ء کو امرتسر میں پیدا ہونے والی نسیم بیگم کا خاندان قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور منتقل ہو گیا تھا۔

(جاری ہے)

نوعمری ہی میں آغا حشر کی اہلیہ اور نامور مغنیہ مختار بیگم سے کلاسیکل موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔

1958ء میں ریڈیو پاکستان لاہور سے فنی سفر کا آغاز کیا پھر موسیقار شہریار نے فلم ”بے گناہ“ کے ایک نغمے ”نینوں میں جل بھر آئے روٹھ گیا میرا پیار“ سے فلم انڈسٹری میں متعارف کروایا۔وہ 1964ء میں اس وقت شہرت کی بلندیوں پر پہنچیں جب فلم ”حویلی“ کیلئے ایک گانا ”میرا بچھڑا بلم گھر آ گیا“ گایا۔نسیم بیگم نے ایس ایم یوسف کی 1960ء میں بننے والی فلم ”سہیلی“ کے سارے گیت گائے اور سب مقبول ہوئے جن میں ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے،کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا،ہم نے جو پھول چنے دل میں چبھے جاتے ہیں،مکھڑے پہ سہرا ڈالے آجا او آنے والے شامل تھے۔
1962ء میں فلم ”اولاد“ کے بھی سبھی گیت نسیم بیگم کو شہرت کی بلندیوں پر لے گئے جن میں تم ملے پیار ملا اب کوئی ارمان نہیں،نام لے لے کے تیرا ہم تو جیے جائیں گے،تم قوم کی ماں ہو سوچو ذرا اور عورت سے ہمیں یہ کہنا ہے شامل تھے۔اسی سال ریاض شاہد کی فلم ”شہید“ کے گانے بھی نسیم بیگم نے گائے اور بے حد مقبول ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو،نقاب جب اُٹھایا،شباب رنگ لایا،حبیبی ہیا ہیا،میری نظریں ہیں تلوار،جب سانولی شام ڈھلے اور رات کی شمع جلے شامل تھے۔
ریاض شاہد کی فلم ”زرقا“ میں نسیم بیگم کی آواز میں صرف ایک گیت ”میں پھول بیچنے آئی“ شامل تھا۔فلم ”باجی“ کے لئے نسیم بیگم نے دو گیت گائے لیکن ان کا گایا ہوا مشیر کاظمی کا ترانہ ”اے راہ حق کے شہیدو“ انتہائی پُر اثر ترانوں میں شامل ہے۔نسیم بیگم نے اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی فلموں کیلئے بھی کئی گیت گائے جن میں گڈی گڈا کے علاوہ کرتار سنگھ،تیس مار خان اور مکھڑا چن ورگا جیسی فلمیں شامل ہیں۔
”کرتار سنگھ“ میں انہوں نے وارث لدھیانوی کا لکھا شادی بیاہ کا گیت ”دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا،ویر میرا گھوڑی چڑھیا“ گایا جو آج بھی شادی بیاہ پر بے حد مقبول ہے۔
نسیم بیگم نے سلیم رضا‘منیر حسین‘مہدی حسن‘احمد رشدی اور مسعود رانا کے ساتھ متعدد ڈوئٹس گائے جو بے حد مقبول ہوئے۔نسیم بیگم کے مقبول نغمات کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سو بار چمن مہکا،اس بے وفا کا شہر ہے،چندا توری چاندنی میں،نگاہیں ہو گئیں پرنم،ہم بھول گئے ہر بات‘ہم نے جو پھول چنے‘آجاؤ آنے والے‘میری نظریں ہیں تلوار‘دیساں دا راجہ،میرا بچھڑا بلم گھر آ گیا‘رنگ محفل ہے اور نہ تنہائی‘میں پھول بیچنے آئی‘سانوں وی لے چل نال وے،چھپ گئے ستارے ندیا کنارے نمایاں ہیں۔
1955ء سے 1964ء تک نسیم بیگم کے عروج کا زمانہ تھا۔اگرچہ ان کی آواز میں اداسی،کرب اور تڑپ تھی لیکن شوخ گیت بھی بہت خوبصورتی سے گائے۔موسیقار صفدر حسین نے فلم ”گل بکاؤلی“ میں ان سے ایک کلاسیکل گیت ”چلے مور کی چال کرے سب دنیا کو پامال جوانی دیوانی“ گوایا جو اداکارہ جمیلہ رزاق پر فلمایا گیا تھا۔اسی فلم کا ایک ڈوئٹ ”جوانی مسکرائے گنگنائے گائے تیرے میرے پیار کے دن آئے“ نسیم بیگم اور زبیدہ خانم نے پشتو دھن پر گایا تھا۔
نسیم بیگم کے کئی گیت بھارت میں کاپی بھی کئے گئے۔انہوں نے مسلسل چار نگار ایوارڈ کے علاوہ پرائیڈ آف پرفارمنس بھی حاصل کیا تھا۔ان کی شادی لاہور کے معروف پبلشر دین محمد سے ہوئی تھی جن سے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔وہ 29 ستمبر 1971ء کو خالق حقیقی سے جا ملی تھیں۔

Browse More Articles of Music