Sahir Ludhianvi

Sahir Ludhianvi

ساحر لدھیانوی

رومانوی گانوں میں بھی اردگرد پھیلے دُکھوں کی عکاسی کی

منگل 25 اکتوبر 2022

وقار اشرف
لازوال نغموں کے خالق ساحر لدھیانوی کو مداحوں سے بچھڑے 42 برس بیت گئے مگر ان کی شاعری آج بھی انہیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔انہوں نے لاتعداد غزلیں اور فلمی گیت لکھے،استحصال زدہ طبقے سے ہمدردی نے انہیں اشتراکیت کا ہمنوا بنایا،ناانصافیوں اور ناہمواریوں نے ان کے سیاسی و سماجی شعور کو پختگی بخشی،انہوں نے رومانوی گانوں میں بھی اپنے اردگرد پھیلے دُکھوں اور تکلیفوں کی عکاسی کرنے کی کوشش کی۔

ساحر لدھیانوی نے 1940ء،1950ء اور 1960ء کی دہائی میں نوجوانوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ان کے لکھے ہوئے مقبول گیتوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی،نیلے گگن کے تلے،چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو،میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی،میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں،دامن میں داغ لگا بیٹھے،ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں،میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا،کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے،میں پل دو پل کا شاعر ہوں،گاتا جائے بنجارا اور رات بھی ہے کچھ بھیگی بھیگی جیسے مقبول گیت شامل ہیں۔

(جاری ہے)


8 مارچ 1921ء کو لدھیانہ میں پیدا ہونے والے ساحر کا اصل نام عبدالحئی تھا لیکن ساحر لدھیانوی کے نام سے شہرت حاصل کی،1943ء میں وہ لاہور آ بسے اور 1945ء میں پہلا شعری مجموعہ ”تلخیاں“ مکمل کیا،1949ء میں لاہور سے دہلی منتقل ہو گئے۔ان کی پہلی فلم ”آزادی کی راہ“ تھی لیکن اصل شہرت موسیقار ایس ڈی برمن کے ساتھ 1950ء میں بننے والی فلم ”نوجوان“ میں ان کے لکھے ہوئے نغموں سے ملی۔
ایس ڈی برمن اور ساحر نے یکے بعد دیگرے کئی فلموں میں ایک ساتھ کام کیا جن میں بازی،جال،ٹیکسی ڈرائیور،ہاؤس نمبر 44،منیم جی اور پیاسا شامل ہیں۔
ساحر لدھیانوی نے زندگی بھر شادی نہیں کی تھی،ان کا کہنا تھا کہ کچھ لڑکیاں مجھ تک دیر سے پہنچیں اور کچھ لڑکیوں تک میں دیر سے پہنچا۔امرتا پریتم نے انہیں ٹوٹ کر چاہا مگر ساحر انہیں نہیں ملا۔ساحر نے کبھی لفظوں میں امرتا کے لئے عشق کا اظہار نہیں کیا تھا مگر اُن کی شاعری امرتا کے گرد گھومتی ہے،امرتا کی حالت یہ تھی کہ وہ ساحر کے پیئے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑوں کو جمع کرکے خود پیتی تھیں،امرتا نے اپنے جذبات کا اظہار اپنی سوانح حیات ”رسیدی ٹکٹ“ میں بھی برملا کیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ گرودت کی ”پیاسا“ اور یش راج کی ”کبھی کبھی“ کی کہانی ساحر کی اپنی زندگی سے ماخوذ تھی۔ساحر نے فنی زندگی میں دو بار فلم فیئر ایوارڈ جیتے جس میں پہلا 1964ء میں فلم ”تاج محل“ کے گیت ”جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا“ اور دوسرا ”کبھی کبھی“ کی شاعری پر 1977ء میں اپنے نام کیا۔وہ 25 اکتوبر 1980ء کو دنیا سے کوچ کر گئے تھے۔

Browse More Articles of Music