Malika Pukhraj

Malika Pukhraj

ملکہ پکھراج

ٹھمری،غزل،بھجن اور راگ پہاڑی گانے میں ملکہ حاصل تھا

ہفتہ 4 فروری 2023

وقار اشرف
معروف غزل گائیکہ ملکہ پکھراج کو مداحوں سے بچھڑے 19 برس بیت گئے لیکن ان کی آواز کی چاشنی آج بھی برقرار ہے۔چالیس کی دہائی میں ان کا شمار برصغیر کے صف اول کے گانے والوں میں ہوتا تھا۔ٹھمری کے اَنگ میں وہ غزل گاتی تھیں۔انہوں نے اگرچہ کم گایا لیکن جو بھی گایا اسے امر کر دیا۔
1914ء کو جموں میں پیدا ہونے والی ملکہ پکھراج کا حقیقی نام حمیدہ تھا،تین سال کی عمر میں وہ اُستاد اللہ بخش کی شاگرد بن گئیں اور گائیکی کے رموز سیکھنے لگیں،پانچ سال کی عمر میں دہلی چلی گئیں اور استاد مومن خان،استاد مولا بخش تلونڈی اور استاد عاشق علی جیسے موسیقاروں سے موسیقی کی تربیت پائی۔
ٹھمری،غزل،بھجن اور راگ پہاڑی گانے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔

(جاری ہے)

پہاڑی راگوں کو بھی بہت کمال سے گاتی تھیں۔اردو اور فارسی زبان پر عبور اور ادب کا اعلیٰ ذوق بھی رکھتی تھیں۔پہلی بار ساڑھے آٹھ سال کی عمر میں فن کا مظاہرہ کیا تو مہاراجہ جموں نے انہیں دربار میں گانے کی پیش کش کر دی،ان کے والدین نے اجازت دے دی جس کے بعد ملکہ پکھراج نے ساڑھے آٹھ سال کی عمر میں چھ سو پچاس روپے ماہانہ پر مہاراجہ کے ہاں ملازمت کر لی۔

کچھ برس راجہ کے دربار میں گایا پھر لاہور چلی آئیں۔انہوں نے شبیر حسین شاہ سے شادی کی تھی جو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری افسر تھے اور پاکستان ٹیلی ویژن کا مشہور اردو ڈرامہ سیریل ”جھوک سیال“ بھی بنایا تھا، سید شبیر شاہ فن موسیقی کے بڑے قدر دان تھے اور اکثر موسیقی کی محفلیں سجایا کرتے تھے جن میں بڑے بڑے نامور گلوکار بھی حصہ لیا کرتے تھے۔
اس طرح ملکہ پکھراج کی کامیابی میں ان کے شوہر کی حوصلہ افزائی کا بھی بہت ہاتھ تھا۔
ملکہ پکھراج کے مقبول گیتوں میں لو پھر بسنت آئی،پیا باج پیالا پیا جائے نا‘علامہ اقبال کی غزل ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں،غالب اور فیض کی متعدد غزلیں شامل ہیں۔علامہ اقبال کی مسجد قرطبہ کو ملکہ پکھراج نے جس طرح پیش کیا اس نے نظم میں نئے زاویے پیدا کر دیئے۔
ان کی ایک نظم ”ہائے میری انگوٹھیاں“ بھی بہت مشہور ہوئی تھی جسے طاہرہ سید نے بھی گایا تھا۔حفیظ جالندھری کی بہت سی غزلیں اور نظمیں بھی گائیں لیکن حفیظ جالندھری کا کلام ”ابھی تو میں جوان ہوں“ گا کر بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔وہ جہاں بھی جاتیں ”ابھی تو میں جوان ہوں“ کی فرمائش ضرور ہوتی تھی۔ریڈیو پاکستان پر پروڈیوسر کالے خان نے زیادہ تر ان کے لئے دھنیں بنائیں۔
ان کی چھوٹی بیٹی مشہور گلوکارہ طاہرہ سید بھی والدہ کی طرح ڈوگری اور پہاڑی انداز کی گائیکی میں مہارت رکھتی ہیں۔دونوں نے اکٹھے بھی گایا تھا۔ریڈیو پاکستان کے آواز کے خزانے میں طاہرہ سید کے گائے ہوئے گانوں کے ریکارڈ محفوظ ہیں۔
ملکہ پکھراج کو 1980ء میں حکومت پاکستان نے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔وہ 4 فروری 2004ء کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئی تھیں لیکن ان کے گائے ہوئے گیتوں کا سحر آج بھی برقرار ہے۔انہوں نے اردو کے علاوہ پنجابی،ڈوگری،سندھی اور سرائیکی میں بھی نغمے گائے۔ان کی خود نوشت ”بے زبانی زباں نہ ہو جائے“ اردو کے علاوہ متعدد زبانوں میں شائع ہو چکی ہے۔

Browse More Articles of Music