تھیٹر یا ڈرامہ ہماری تہذیب کا حصہ نہیں ہے، شاعری ہمارے لئے اظہار کا قومی طریقہ ہے، اداکارطلعت حسین

کسی بھی سماج کا عروج و زوال دیکھنا ہوتو اس کا ٹی وی ڈرامہ ضرور دیکھیں اس سے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ وہاں کا سماج کس طرف جارہا ہے،نورالہدی شاہ

ہفتہ 24 نومبر 2018 22:12

تھیٹر یا ڈرامہ ہماری تہذیب کا حصہ نہیں ہے، شاعری ہمارے لئے اظہار کا قومی طریقہ ہے، اداکارطلعت حسین
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 نومبر2018ء) بین الاقوامی شہرت یافتہ معروف اداکار طلعت حسین نے کہا ہے کہ تھیٹر یا ڈرامہ ہماری تہذیب کا حصہ نہیں ہے، شاعری ہمارے لئے اظہار کا قومی طریقہ ہے، یہ بات انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے تیسرے دن منعقدہ پانچویں اجلاس ’’پاکستان میں ٹی وی اور تھیٹر کی صورتحال‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہی، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے اجلاس کی نظامت کے فرائض انجام دیئے، اس موقع پر بھارت سے آئی ہوئیں تھیٹر کی معروف ادکارہ نادرہ ظہیر ببر، حسینہ معین، نورالہدیٰ شاہ، ایوب خاور، اقبال لطیف، زین احمد اور ساجد حسن نے بھی اظہارِ خیال کیا، طلعت حسین نے کہاکہ مجھے چونکہ ڈرامے کا شوق تھا اس لئے میں برطانیہ چلا گیا اور وہی رہتے ہوئے اپنی پڑھائی بھی مکمل کی اور تھیٹر کے اسرارورموزبھی سیکھے، انہوں نے کہاکہ ڈرامہ چونکہ ہماری صنف ہی نہیں تھی لہٰذا اس کا ترقی کرنا بھی مشکل ہے، حسینہ معین نے کہاکہ تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں اسی طرح ہمارے معاشرے میں برائیاں اور اچھائیاں دونوں ہیں، مجھے ہنستے ہوئے لوگ اور معاشرہ اچھا لگتا ہے، میں نے لوگوں کو ہنسانا سکھایا ہے، حالاں کہ لوگ اس وقت بھی رو رہے تھے اور اب بھی رو رہے ہیں میری کوشش ہوتی تھی کہ میں معاشرے کی اچھی سے اچھی تصویر دکھائوں تاکہ اسے دیکھ کر کوئی خود کو بھی اچھا اور خوبصورت بنالے، انہوں نے کہاکہ جو لٹریچر ہم نے شروع میں پڑھا اس میں عورت کو معصوم دکھایا گیا تھا وہ سوتن کے لئے کھانا بھی بناتی تھی اور شوہر سے مار بھی کھاتی تھی، مگر میں سمجھتی ہوں کہ عورت اگر خود چاہے تو وہ مضبوط ہوسکتی ہے، انہوں نے کہاکہ میں اچھے خواب دیکھتی ہوں اور یہ سوچتی ہوں کہ ان خوابوں کو پورا بھی ہونا چاہئے، اختر وقار عظیم نے کہاکہ میرا ڈرامے سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں رہا مگر انتظامی حوالے سے میں کافی حد تک ان معاملات میں شریک رہا ہوں، انہوں نے کہاکہ ڈرامہ پاکستان میں آگے چلے گے اور مزید بہتر انداز میں آگے کی طرف بڑھے گا کیونکہ اس وقت ڈرامہ اچھا لکھا جارہا ہے، اقبال لطیف نے کہاکہ تھیٹر جو اسٹیج پر ہوا کرتا تھا وہ اب آٹھ سے نو کے درمیان نیوز چینل پر چلا گیا ہے اور ڈرامہ فلم کی شکل اختیار کرگیا ہے، آج کل ٹی وی ڈرامے فلم کی طرز پر بن رہے ہیں اور ایک ہی کیمرے پر کام ہورہا ہے ہم اسے ڈرامہ نہیں مانتے، ایوب خاور نے کہاکہ ڈرامہ بنانے والے سیٹھ ریٹنگ کے چکر میں رائٹر سے خود فرمائش کرتے ہیں کہ اس موضوع پر لکھو اور اس طرح کے مکالمے لکھو تاکہ ہماری ریٹنگ بڑھے، انہوں نے کہاکہ بعض اینکرز طلعت حسین سے بھی بڑے ایکٹر ثابت ہوتے ہیں، ان کے سامنے جو حصہ لینے والے سیاست کار ہوتے ہیں وہ سیاست کارکم اور اداکار کم ہوتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ اینکر، سیاستدان اور چینل مالکان کی ملی بھگت ہوتی ہے، نور الہدیٰ شاہ نے کہاکہ کسی بھی سماج کا عروج و زوال دیکھنا ہوتو اس کا ٹی وی ڈرامہ ضرور دیکھیں اس سے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ وہاں کا سماج کس طرف جارہا ہے، پاکستانی چینلز پر جو کچھ نظر آرہا ہے اس پر کئی اعتراضات بھی ہورہے ہیں، کراچی میڈیا کا مرکز ہے، اس وقت جو نئے لوگ ڈراموں کے لئے کام کررہے ہیں میں نے ان سے بہت کچھ سیکھ رہی ہوں اور بعض اوقات ان نئے کام کرنے والوں کے پاس ایسے ایسے آئیڈیاز آتے ہیں کہ میں خود بھی حیران رہ جاتی ہوں اور میں ان سے پوچھتی ہوں کہ تم نے اس طرح کیسے سوچا، انہوں نے کہاکہ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ میں اب ڈراموں میں آنے والے نئے بچوں کی انگلی پکڑ کر چل رہی ہوں، وہ ڈرامہ زیادہ پسند کیا جارہا ہے جو لوگوں کی ناتمام خواہشات پر ماتم کرے، وہ ماتم آپ کو روتی دھوتی لڑکیوں کی صورت میں نظر آتا ہوگا، معاشرے میں ایک سوچ اور آئی ہے ڈرامہ بنانے والے چاہے جو لوگ بھی ہوں اب ان کے ساتھ نئے لوگ اور مڈل کلاس کی لڑکیاں بطور رائٹر کام کررہی ہیں، اب ان کو جو بھی مارکیٹنگ ٹیم کہتی ہے کہ یہ لکھیں یہ بِکے گاتو وہ اس پر عمل کررہی ہیں جبکہ ہم جب لکھتے تھے تو ہمارے حصے میں انقلاب آتا تھا اور جب اب لکھ رہے ہیں ان کے حصے میں مال، خالد احمد نے کہاکہ تھیٹر کم ہورہا ہے مگر تسلسل کم نہیں ہورہا چند لوگوں کی کوششوں کی وجہ سے تھیٹر ہورہا ہے مگر کوئی انسٹیٹیوشن کی صورت نظر نہیں آتی، کراچی جیسے دو کروڑ سے زائد آبادی والے بڑے شہر میں تھیٹر کے لئے آرٹس کونسل کراچی میں صرف دو ہال ہیں، ادب کے لوگوں کا اسٹیج والوں سے کوئی رابطہ نہیں رہا اب تھیٹر پر اسکرپٹ بھی نہیں ہوتا، پرفارمنگ آرٹ کی ہمارے ہاں اب ایک ہی روایت ہے اور وہ ہے مشاعرہ، شاعر آتے ہیں اور پرفارم کرکے چلے جاتے ہیں، انہوں نے کہاکہ ڈھاکہ شہر کے اندر آج بھی 800رجسٹرڈ گروپس ہیں جبکہ ہمارے ملک میں تھیٹر کی روایت جڑ نہیں پکڑ پائی، گزشتہ چند سالوں میں الیکٹرانک چینل بہت آگئے ہیں مگر ٹیکنالوجی کے بل پر ٹی وی چینلز تو ملٹی پلائی ہوگئے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ فنکار اور ادیب بھی ملٹی پلائی ہوجائیں گے، زین احمد نے کہاکہ تھیٹر کے حوالے سے صورتحال حوصلہ افزاء نہیں ہے تھیٹر کرنے والے کو آج بھی یہ نہیں پتہ کہ جو کچھ اس نے تھیٹر کے لئے خرچ کیا ہے وہ اسے مل بھی پائے گا یا نہیں، ٹکٹ خریدنے کا رجحان آج بھی بہت کم ہے، لوگ اب بھی پاس مانگتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ جن سے پاس مانگا جارہا ہے اُن کے گھر کے چولہے بھی جلنے ہیں اور وہ اسی صورت میں ہوگا جب وہ ٹکٹ خرید کر تھیٹر دیکھیں گے، انہوں نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں تھیٹر صرف لاہور، کراچی اور اسلام آباد تک محدود رہ گیا ہے کیونکہ تھیٹر کو ہم نے پھیلایا ہی نہیں، اس موقع پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ جو اجلاس میں نظامت کے طور پر گفتگو میں شریک رہے انہوں نے کہاکہ آرٹس کونسل کراچی میں دو ہال بنالئے گئے ہیں مگر دو کروڑ کی آبادی والے شہر میں کوئی اور تھیٹر نہیں ہیں ہم نے دیگر شہروں کے فنکاروں اور ادیبوں کو کہا ہے کہ وہ ہمارے آرٹس کونسل کراچی سے رجوع کرے ہم انہیں ہر طرح کا تعاون فراہم کریں گے، محمد احمد شاہ نے مزید کہاکہ حسینہ معین اور نورالہدیٰ شاہ جیسے لکھنے والوں نے خواتین کو اِن پاور کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، آج کی خواتین اور بچیاں اب پہلے جیسی کمزور نہیں رہیں بلکہ ان میں بہادری موجود ہے، انہوں نے کہاکہ حسینہ معین نے جو کچھ لکھا کمال لکھا اور یہ آرٹس کونسل کراچی کی خازن بھی ہیں،انہوں نے مزید کہاکہ ایک بہت بڑی شخصیت آرٹس کونسل کراچی تشریف لائے تھے اور انہوں نے یہ بات کہی کہ میں طلعت حسین اور حسینہ معین کی وجہ سے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کو جانتا ہوں، اس موقع پر محمد احمد شاہ نے اعلان کرتے ہوئے کہاکہ 26تا28نومبر 2018ء آرٹس کونسل کراچی میں بھارت سے آئی ہوئی اداکارہ نادرہ ظہیر ببر کا تھیٹر بھی پیش کیا جائے گا۔

وقت اشاعت : 24/11/2018 - 22:12:55

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :