Pakistani Parda Simin Un Par Hamesha Nazaan Rahay Ga

Pakistani Parda Simin Un Par Hamesha Nazaan Rahay Ga

پاکستانی پردئہ سیمیں ان پر ہمیشہ نازاں رہے گا

پاکستان فلم انڈسٹری کے لچنڈ فنکاروں میں وحید مراد کا نام خاص اہمیت کا حامل ہے ۔وہ 1938ء میں کراچی کے ایک متمول گھرانے میں نثار مُراد کے ہاں پیدا ہوئے

پیر 26 نومبر 2018

غزالی (گوجرہ)
پاکستان فلم انڈسٹری کے لچنڈ فنکاروں میں وحید مراد کا نام خاص اہمیت کا حامل ہے ۔وہ 1938ء میں کراچی کے ایک متمول گھرانے میں نثار مُراد کے ہاں پیدا ہوئے جن کا نام فلم انڈسٹری کے تقسیم کاروں میں احترام کے ساتھ لیا جاتا تھا۔وحید مُراد نے اپنے باپ کے کہنے پر ہی فلم انڈسٹری میں قدم رکھا ،نثار مُراد وحید مُراد کو ساتھ اپنے دفتر لے کر جاتے تا کہ اپنے شعبے سے کچھ آگہی ہو۔


لیکن وحیدمُراد کی تقسیم کاری سے عدم دلچسپی کی وجہ سے پھر انہیں فلم سازی کی طرف راغب کیا گیا۔وحید مُراد نے بطور فلم ساز 13فلمیں بنائیں جو تمام سُپرہٹ ثابت ہوئیں جن میں ”انسان بدلتا ہے “بطور فلم ساز پہلی فلم تھی ۔بطور ہیروان کی پہلی فلم ”اولاد “تھی جس کے ہدایت کار ایس ایم یوسف تھے جو 1962ء میں ریلیز ہوئی لیکن ”ہیرااور پتھر “سے انہیں چاکلیٹی ہیرو کی شہرت حاصل ہوئی جو وحید مراد کی ذاتی فلم تھی اور 1964ء میں ریلیز ہوئی تھی ،اس میں زیبا وحید مراد کے مدِ مقابل تھیں ۔

(جاری ہے)

اس کے بعد ایسے باکمال اداکار نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
وحید مراد ایم اے انگلش تھے اور اس زمانے میں لوگ پڑھے لکھے بہت کم تھے اور وہ بھی فلم انڈسٹری میں ۔اس عظیم فنکار نے انڈسٹری کی ہر بڑی ہیروئن کے ساتھ کام کیا جن میں شمیم آراء ،رانی ،شبنم ،آسیہ ،ممتاز ،کو یتا،سنگیتا ،زیبا،دیبا،عالیہ ،بابرہ شریف ،نشواور نیلو کانام قابل ذکرہے ۔

وحید مُراد کا ہےئر سٹائل اپنے دور کے نوجوانوں میں بہت مقبول ہوا،ان کی فلمیں دیکھنے والوں میں زیادہ ترنوجوان نسل اور خواتین ہوتی تھیں ۔اتوار کے پہلے شو میں کالج اور یونیورسٹی کے طلباوطالبات کا رش سینماہال میں دیدنی ہوتا تھا۔ان کی شوخ وچنچل اداکاری پر بوڑھے بچے جوان اور خواتین سب رشک کرتے تھے ۔احمد رُشدی کی آواز وحید مراد پر پکچر ائز گیتوں پر زیادہ پرٹیکٹ تھی ۔
تمام مزاحیہ اداکاروں نے بھی وحید مراد کے ساتھ اداکاری کے جو ہر دکھائے جن میں نرالا ،لہری ،ننھا ،رنگیلا،منور ظریف ،خالد سلیم موٹا اور خلیفہ نذیرنمایاں ہیں ،کہیں کہیں وحید مراد خود بھی مزاحیہ اداکاری اچھے انداز سے کر لیتے تھے ۔
وحید مراد کا شمار چاکلیٹی ہیرو کے ساتھ ساتھ تجربہ کار ،باصلاحیت اور مقبول ترین فنکاروں میں ہوتا تھا، لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے سٹوڈیو کے باہر گھنٹوں کھڑے رہتے تھے اور ان کی مقبولیت میں آخر تک کوئی فرق نہیں پڑا۔
وہ شوخ وچنچل اداکاری میں اپنی مثال آپ تھے ۔سٹوڈنٹ کے کردار سے لے کر ایک بوڑھے تک کے کردار انہوں نے بڑے اچھے طریقے سے نبھائے۔
والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے وہ ماں باپ کے لاڈلے بھی تھے ۔ان کی شادی سلمی مُراد سے ہوئی جن سے ان کے دو بچے عادل مراد اور عالیہ مراد ہیں۔وحید مُراداپنے عروج کے دور میں ایک دفعہ کراچی میں اپنے بچوں کے سکول گئے تو ا س مقبول فنکار کی آمد پر سکول کے باہر اتنارش لگ گیا کہ تین گھنٹے تک وہاں ٹریفک جام رہی اور پولیس بُلانا پڑی ،بعد میں سکول کے پرنسپل نے وحید مُراد کے بچوں سے کہہ دیا تھا کہ آئندہ سے اپنے باپ کو سکول آنے کا نہیں کہنا۔

وحید مُراد نے فلم انڈسٹری کے ہر قابل ہدایت کار کے ساتھ کام کیا جن میں ایس ایم یوسف ‘قدیر غوری ‘پرویز ملک‘شباب کیرانوی‘اقبال یوسف ‘حسن طارق ‘ایم اے رشید ‘نذر الاسلام ‘اسلم ڈار ‘ظفر شباب ‘شمیم آرا‘جاوید سجاد ‘اقبال اختر ودیگر شامل ہیں ۔وہ وقت کے بہت پابند تھے اور ہر فلم کے سیٹ پر نہ صرف خود وقت پر پہنچتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی وقت کی پابندی کی تلقین کیا کرتے تھے ۔
اس لاثانی اور بے مثال فنکار نے کل 130فلموں میں فن کے جو ہر دکھائے،10پنجابی فلموں میں مستانہ ماہی ‘عشق میرا ناں ‘سیونی میرا ماہی‘ جوگی ‘سجن کملا‘عورت راج ‘اَکھ لڑی بدوبدی‘انوکھا داج ‘پرواہ نئیں اور دوہٹی جی جبکہ ایک پشتو فلم ”پختون پہ ولایت کنبر “شامل تھیں ۔
وحید مُراد بلاشبہ ہماری فلم انڈسٹری کا اثاثہ تھے اور پاکستان فلم انڈسٹری کو ایسے عظیم فنکار پر ہمیشہ فخر رہے گا اور ان کاکام ہمیشہ یاد رکھا جائے گاکیونکہ انہوں نے فلمی دُنیا میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔
ان کی مقبول فلموں میں کنیز ‘انسانیت ‘دیور بھابی ‘دل میرادھڑکن تیری‘عندلیب ‘انجمن ‘ناگ منی ‘بہاروپھول برساؤ ‘تم سلامت رہو ‘لیلیٰ مجنوں ‘دیدار‘شمع ،دلربا،راستے کا پتھر ‘جب جب پھول کھلے ‘ثریا بھو پالی شبانہ ‘پر ستش ‘اپنے ہوئے پرائے ‘سہیلی ‘پر کھ ‘شیشے کا گھر ‘وعدے کی زنجیر ‘راجہ کی آئے گی بارات ‘بندھن ‘بدنام ‘گھیراؤ‘آہٹ ‘مانگ میری بھر دو ‘شیشے کا گھر اور دیگر شامل ہیں ۔

اس خوبروفنکار کی صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی فنکارانہ خدمات کے اعتراف میں انہیں بے شمار ایوارڈملے جن میں نکار ایوارڈ ‘رومان ایوارڈ‘ نور جہاں ایوارڈ ‘چترالی ایوارڈ (ڈھاکہ )‘گریجوایٹ ایوارڈ ‘سندھ عوامی ایوارڈ ‘مصور ایوارڈ اور ریاض شاہد ایوارڈ نمایاں ہیں ۔ندیم ‘شاہد ‘محمد علی ‘سدھیر ‘حبیب ‘طالش‘سلطان راہی ‘سنتوش ‘مصطفی قریشی ‘یوسف خان ‘آصف خان ‘غلام محی الدین سمیت فلم انڈسٹری کے ہر مقبول فنکار کے ساتھ انہوں نے کام کیا ۔

”مقدر “،” زلزلہ “اور ہیرو‘ان کی آخری فلمیں تھیں جوان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئیں ۔وحید مُراد کے پرستار ”وحید کلب “کے نام سے ایک تنظیم چلارہے ہیں جوان کی زندگی میں ہی تشکیل دی گئی تھی ۔کروڑوں دلوں پرراج کرنے والے برصغیر پاک وہند کے نامور فنکار 23نومبر 1983ء کو کراچی میں 45سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے تھے اور انہیں لاہور میں سپرد خاک کیا گیا تھا ۔
ان کے پرستار ”وحیدی کلب “کے بینر تلے ان کی برسی پر ہر سال ایک بڑی تقریب کا انعقاد کرتے ہیں جس میں ملک بھر سے باکمال فنکار کے پرستاروں کو مدعو کیا جا تا ہے۔

Browse More Articles of Lollywood