Villain Ban Kar Ziada Shohrat Mile

Villain Ban Kar Ziada  Shohrat Mile

ولن بن کر زیادہ شہرت ملی

ٹی وی کے سپر اسٹا ر احسن خان کہتے ہیں کہ مجھے روایتی ہیرو سے زیادہ ولن کے کردار میں پذیرائی ملی میں خود ہیرو کا کردار کرتے کرتے بور ہوگیا تھا

پیر 15 جنوری 2018

ہما میر حسن:
ٹی وی ورلڈ کے کامیاب اداکار احسن خان 9 اکتوبر 1981 کو انگلینڈ میں پیدا ہوئے وہ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان آگئے اور یہاں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے انگریزی ادب میں ماسٹر کیا احسن پہلی بار 1996 میں فلمساز سید نور کی فلم”گھونگٹ“میں دکھائی دئیے اس کے بعد نکاح۔بلی،،گھر کب آئے گے میں جلوہ افروز ہوئے یہ وہ دور تھا جب پاکستان فلم انڈسٹری تیزی سے اپنے زوال کی جانب گامزن تھی لہٰذا اپنے کیرئیر کو بچانے کے بڑی سکرین کے سپر سٹارز کو مجبوراً چھوٹی سکرین کا سہارا لینا پڑا فلم کے جن فنکاروں نے ٹیلی ویژن میں آنے کے بعد نئی زندگی پائی ان میں سے ایک نام احسن خان بھی ہے تب محمد جاوید فاضل میں احسن کو ٹی وی میں متعارف کریا اس کے بعد احسن نے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا اور آج وہ ٹیلی ویژن کے سپر سٹار تسلیم کیے جاتے ہیں خوبرہ اور جواں عزم کے ساتھ نت نئے کردار نبھاتے ہوئے اس فنکار نے شہرت کی کئی منزلیں طے کیں ان کے کریڈٹ پر بے شمار ہٹ سیریل سوپ اور ٹیلی فلمز جن میں زندگی، چنگاری، برسوں بعد،شبرارتی،دیاساتھ چند لمحوں کا،کاغذ کا پھول،داستاں،پارسا،پانی جیسا، مٹھی بھر آسمان،میری لاڈلی،گوہر نایاب،مجھے خدا پر یقین ہے،میں چاند سی،عینی کی آئے گی بارات،میرے قاتل میرے دلدار،موسم، مراسم،تمہارے سوا،اڈاری اور سایہ دیوار بھی نہیں،سمیت متعدد سیریلز شامل ہیں گذشتہ برس احسن خان نے ٹی وی کے مقبول اداکاروں ہمایوں سعید،اور فیصل قریشی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے چار اعزازات اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے متعدد اعزازات بے تحاشا شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کے باوجود احسن کے رکھ رکھاؤ اور طرز زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا وہ بہت مہذب اور شائستہ شخصیت کے مالک ہیں وہ بطورمیزبان بھی کام کرچکے ہیں انہوں نے اپنے ہمسائے میں رہنے والی ایک لڑکی فاطمہ خان سے شادی کی ان کے تین بچے ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں احسن کی نجی زندگی اور کیرئیر کے حوالے گفتگو ہوئی جو نذر قارئین ہے۔

(جاری ہے)


سوال:بچپن کے حوالے سے کچھ بتائیں؟
احسن خان:میرا بچپن بہت سہانا تھا میں دوسرے بچوں کی طرح اتنا شرارتی نہیں تھا(قہقہ لگاتے ہوئے)ایک بار مجھے بلاوجہ مار پڑگئی ہوا کچھ یوں کے میرا ایک جڑواں بھائی بھی ہے ایک بار اس نے کسی لڑکی کو چھیڑا لیکن پٹائی میری ہوگئی میں بتاتا رہا کہ وہ میں نہیں تھا لیکن کسی نے میری نے ایک نہ سنی میں شروع سے چاہتا تھا کہ کچھ منفرد کروں تاکہ لوگ مجھے جان جائیں۔

سوال:آپ نے جن دنوں شوبز جوائن کیا ان دنوں بہت مشکل حالات تھے کیا سوچ کر اس طرف آئے؟
احسن خان:میں فلم سٹار بننا چاہتا تھا اس وقت فلم انڈسٹری عروج پر تھی اور لوگوں میں فلم سٹار بننے کا ”کریز“تھامیں بھی شہرت اور مقبولیت حاصل کرنا چاہتا تھا خوش قسمتی سے مجھے اچھے موقع ملے میری کئی فلمیں اس دور میں پلاٹینم جوبلی کی مگر شاید مجھے وہ کامیابی راس نہ آئی فلموں کی کامیابی کے بعد مجھے وہ مقام نہ مل سکا جس کا میں نے خواب دیکھا تھا ویسے بھی فلم انڈسٹری میں پروفیشنلزم ختم ہوتا جارہا تھا ان حالات میں ،میں خود بھی بددل ہوگیا لیکن ہمت نہ ہاری اور ٹی وی پر کام شروع کردیا جہاں کامیابی نصیب ہوئی۔

سوال:اگرفلموں میں کام کررہے ہوتے تو کیا اتنی ہی شہرت اور کامیابی حاصل کرلیتے؟
احسن خان:سلور سکرین کی بات ہی اور ہے مگر ہمارے ہاں اس کا ”چارم“ختم ہوچکا ہے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے تباہ کرچکے ہیں ورنہ دنیا بھر میں آج بھی سینما کو بہت اہمیت اور مقبولیت حاصل ہے اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ٹی وی جو مقبولیت دیتا ہے وہ فلم نہیں دئے سکتی ٹی وی گھر گھر دیکھا جاتا ہے اور اس میں کام کرنے والے بہت جلد اپنی پہچان بنا لیتے ہیں ویسے بھی اب سال میں ایک دو ہی اچھی فلمیں بنتی ہے لہٰذا لوگوں کی تمام دلچسپیاں ٹی وی سکرین تک محدود ہوچکی ہے ٹی وی پر کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو لاکھوں کروڑوں لوگ دیکھ رہے ہیں اور آپ کے کام پر تنقید یا تعریف کررہے ہیں اس لئے یہ بہت ہی مضبوط پہچان ہیں ٹی وی پر کا م کرکے میں نے جو مقبولیت حاصل کی وہ فلم سے نہیں مل سکتی تھی۔

سوال:آپ نے متعدد ڈراموں میں بحیثیت ہیرو شہرت کمائی پھر ”اڈاری“میں منفی کردار کیسے سائن کرلیا؟
احسن خان:شوبز میں صرف ہیرو بننے سے کام نہیں چلتا منفرد کرداروں کے لئے جان مارنی پڑتی ہے کبھی ولن بھی بننا پڑتا ہے میرے خیال میں ایک اداکار کو محض اپنی خوبصورتی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے کرداروں کو خوبصورتی سے نبھا کر اپنا آپ منوانا چاہیے ویسے بھی میں رومینٹک ہیرو کاکردار کرتے کرتے بور ہوگیا تھا اور چاہتا تھا کچھ منفرد کروں میں نے ڈرامہ سیریل”اڈاری“کا سکرپٹ پڑھنے کے بعد سوچا کہ یہ کردار کرنے کے بعد لوگ مجھے برا کہیں گے اور شاید نفرت بھی کرنے لگیں لیکن پھرسوچا اگر ایسے مسائل حل کرنے کے لیے ہم آگے نہیں بڑھیں گے تو پھر ہمیں شکایت کرنے کا حق بھی نہیں ہے ڈرامہ سیریل پانی جیسا پیار میں بھی میرا منفی کردار تھا جو بہت مقبول ہوا البتہ میرے قریبی لوگوں اور مداحوں نے کہا مجھے ایسے کردار نہیں کرنے چاہیئں وہ مجھے ایسے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتے ویسے بحیثیت فنکار ذاتی طور پر میں اس حق میں ہوں کہ مجھے ہر طرح کے کردار کرنے چاہئیں کیونکہ فنکار کا کام معاشرے کے حقیقی کردار وں کو سامنے لانا ہے اور منفی کردار بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔

سوال:آپ نے ٹی وی کو کئی سپر ہٹ سیریل دئیے پرفارمنس کے اعتبار سے آپ کو سب سے اچھا سیریل کون سا لگا؟
احسن خان:سب میرے پسندیدہ سیریلز ہیں لیکن سب سے زیادہ مجھے”اڈاری“پسند ہے جس پر مجھے شائقین کی بڑی تعداد نے سراہا۔
سوال:آپ کے نزدیک ٹی وی اور فلم کے کام میں کیا فرق ہے؟
احسن خان:ٹی وی زندگی کے قریب ہے اس میں ہمیں اپنی زندگی کا عکس نظر آتا ہے ڈرامہ بناتے ہوئے ہم اس کے تمام پہلوؤں پر نظر رکھتے ہیں کہ کہیں بھی کچھ ایسا نہ ہو جسے لوگوں کے ذہن تسلیم نہ کریں اور وہ انہیں بناوٹی محسوس ہو جبکہ فلم میں نمائشی لوازمات ہوتے ہیں اور اس میں جان بوجھ کر مصالحہ ڈالا جاتا ہے بہت سی بناوٹی اور غیر منطقی باتیں ہوتی ہے مگر وہ فلم میں بری نہیں لگتیں بلکہ لوگ انہیں پسند کرتے ہیں میں جب فلم کررہا تھا تو بھی میں اس دنیا کا حصہ بن چکا تھا اور سمجھتا تھا ک لوگ اسے دیکھ کر خوش ہوں گے ٹی وی پر کام کیا تو ایسا لگا کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں لوگوں کو اس میں اپنا عکس نظر آئے گا یا نہیں؟اور یہ کام روح کی گہرائی اور اپنے اندر کی سچائی کے ساتھ ہوتا ہے آپ کو صرف اپنا مال نہیں بیچنا بلکہ اسے ایک آئینے کی طرح سامنے لانا ہوتا ہے اس لئے ٹی وی کے کام میں مجھے زیادہ مقصدیت نظر آئی کبھی کسی کردار کو کرتے ہوئے یہ نہیں لگا کہ جو کچھ میں کررہا ہوں وہ ہماری زندگی میں نہیں ہوتا۔

سوال:آپ تمام کامیابیوں کا سہرا کس کے سر سجائیں گے تقدیر حالات اتفاق یا آپ کی محنت؟
احسن خان:میں نے یہ مقام برسوں کی محنت کے بعد حاصل کیا اس کے علاوہ قسمت نے بھی ساتھ دیا ورنہ آگے بڑھنا مشکل ہوجاتا میں نے بچپن میں صرف یہی خواب دیکھا تھا کہ ایک دن اداکار بنوں گا اس خواب کی تعبیر کے لئے بہت کوشش کی تب اس مقام تک پہنچا ہوں میری تمام کامیابیاں قسمت اور محنت کی مرہون منت ہیں۔

سوال:ہمارے ہاں فلموں میں ناچ گانے کے بغیر فلموں کا تصور نہیں کیا جاتا آپ رقص کے کتنے شوقین ہیں؟
احسن خان:فلموں میں گانے پکچرائز کروانے کا اپنا مزہ ہے اور مجھے رقص ویسے بھی اچھا لگتا تھا فلموں میں رقص لازمی عنصر ہے اس سے پرہیز نہیں کیا جاسکتا اس لئے مجھے یہ کبھی برا نہیں لگا فلموں کے علاوہ سٹیج پرفارمنس کا رجحان بھی بڑھتا جارہا ہے میں ساتھی اداکارمہوش حیات کے ساتھ سٹیج پرفارمنس بہت انجوائے کرتا ہوں مزے کی بات ہے کہ میں سٹیج پر جانے سے پہلے بہت نروس ہوتا ہوں مگر جب پرفارمنس دیتا ہوں تو جیسے مجھے کرنٹ لگ جاتا ہے مہوش بھی اکثر کہتی ہے کہ تمہیں سٹیج پر جاکر کرنٹ لگ جاتا ہے۔

سوال:آپ کا مہوش حیات کے ساتھ سکینڈل بہت مشہور ہوا حقیقت کیا ہے؟
احسن خان:(قہقہہ لگاتے ہوئے)مہوش حیات میری بہت اچھی دوست اور بہترین ساتھی اداکارہ ہیں اس کے ساتھ میرے افئیر کی باتیں نے بنیاد ہیں جیسے آجکل میں نیلم منیر کے ساتھ کام کررہا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرا اس کے ساتھ افئیر ہے مہوش کے ساتھ میں نے پہلی بار میرے قاتل میرے دلدار میں ایک ساتھ کام کیا تھا اس سے پہلے میں مہوش کو نہیں جانتا تھا لیکن انڈسٹری میں ان کا نام ضرور سنا تھا مگر ہماری جان پہچان اس ڈرامے کے دوران ہوئی ۔
اس ڈرامے میں ہماری آن سکرین کمیسٹری بہت پسند کی گئی اور پھر ہمیں ایک ساتھ مزید پراجیکٹس میں کاسٹ کیا گیاجب ہماری ایک ساتھ جوڑی مشہور ہوئی تو اسے غلط رنگ دے دیا گیا حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں مہوش کے ساتھ کام کرتے ہوئے میں بہت انجوائے کرتا ہوں میرا خیال ہے کہ سٹیج ڈرامہ اور فلم میں کام کرتے ہوئے ساتھی اداکار کے ساتھ آپ کی ذہنی ہم آہنگی بہت ضروری ہے اگر آپ اچھا کام کررہے ہیں اور ساتھی اداکارآپ کے ساتھ تعاون نہیں کررہا ہو تو دونوں کو نقصان ہوتا ہے۔

سوال:بہت سے فنکار بالی ووڈ میں کام کرنے کو غنیمت سمجھتے ہیں کیا آپ بھی بالی ووڈ میں کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
احسن خان:(ہنستے ہوئے)میں بالی ووڈ کی بجائے ہالی ووڈ کو ترجیح دوں گا مجھے بالی ووڈ سے متعدد آفرز آئی لیکن میں نے انکار کردیا میں اپنے کیرئیر پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا ہوں ویسے بھی بھارت میں ڈرامہ ریلیز ہونے پر ہماری مارکیٹ ویلو بڑھ گئی ہے اور وہاں فلمی شائقین بھی ہمیں بڑے پردے پر دیکھنا چاہتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اگر دوسرے ملک جاکر کام کروں تو کوئی اچھا کام کروں وہی گھسے پٹے کردار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

سوال:عموماً اداکار جب اسلامی شوز کرتے ہیں تو انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے آپ کو کیسا فیڈ بیک ملا؟
احسن خان:مجھے اسلامی شوز کی آفر ہوئی تو میں نے انہیں صاف انکار کردیا کہ میں یہ نہیں کرسکتا مگر پروڈیوسر نے شو کی تفصیل بتائی تو میں نے حامی بھرلی اسلامی شو میں کام کرنا میرے لئے بہت شاندار رہا میری اسلامی معلومات میں بہت اضافہ ہوا میرا خیال ہے کہ ہم جب سکرین پر تفریح کی آڑ میں کوئی سنجیدہ پیغام دے سکتے ہیں تو اسلامی معلومات کیوں نہیں بتا سکتے؟مجھے ناظرین کی جانب سے بہت اچھا رسپانس ملا جو میں بھول نہیں سکتا میں چاہتا ہوں کہ فنکار فلموں میں ڈانس کرتے ہیں اور اداکاری بھی مگر آرٹسٹ انسان بھی ہے ہماری بنیاد تو اسلام ہی ہے میں نے پروگرام میں نعت بھی پڑھی تھی جسے بہت سراہا گیا تھا۔

سوال:آپ کے سینکڑوں پرستار ہیں کبھی کسی نے واقعی پریشان کردیا ہو؟
احسن خان:میں جانتا ہوں کہ اس فیلڈ کے تقاضے کیا ہے؟کسی فنکار کے پرستار ہونا اچھی بات ہے مگر اپنی چاہت میں کسی کے لیے مشکل پیدا نہیں کرنی چاہیے ویسے تو پرستاروں کی جانب سے فون کالز اور گفٹ معمول کی بات ہے مگر ایک بار میں واقعی گھبراگیا تھا ہوا کچھ یوں کہ میری بہن کو ایک لڑکی کا فون آیا کہ میں احسن خان کو بہت پسند کرتی ہوں اور میں ان کے لئے گھر سے بھاگ آئی ہوں اور میں فلا جگہ پہنچ چکی ہوں مجھے ان سے ملوادیں میری بہن لڑکی کی باتیں سن کر بہت پریشان ہوئی اس کے بعد وہ خود ہمارے گھر آگئی دوسری جانب میرے اسسٹنٹ کو لڑکی کے ماموں کا فون آگیا کہ ہماری لڑکی واپس کرو اب یہ ہمارے لئے اور بھی پریشانی کی بات تھی بہر حال ہم نے دیکھ بھال کر لڑکی کو اس کے ماموں تک پہنچادیا وہ لڑکی جاتے ہوئے میرے لئے ڈائری چھوڑ گئی جس میں عشقیہ شعار اور میری تصویریں تھیں مجھے بہت حیرت ہوئی کہ کوئی اس حد تک بھی جاسکتا ہے بہر حال یہ واقعہ آج تک مجھے یاد ہے۔

Browse More Articles of Lollywood