پراپیگنڈہ وار اور ہماری فلم انڈسٹری

بدھ 3 اکتوبر 2018 13:38

پراپیگنڈہ وار اور ہماری فلم انڈسٹری

تحریر:ابوعلیحہ

خالد حسینی, افغانی نژاد امریکی ناول نگار ہیں۔ بہت کمال کے لکھاری ہیں۔ انہوں نے افغانستان کے طالبان دور کے حالات پر ایک متاثر کن ناول Kite Runner لکھا۔ یہ وہ دور تھا جب امریکہ افغانستان میں فوج کشی کی وجہ سے سنجیدہ امریکی و یورپی حلقوں میں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ خالد حسینی کے ناول کو سی آئی اے نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔

یہ ناول ایک برس تک بیسٹ سیلر رہا۔ اس پر ہالی ووڈ نے فلم بنائی جسے مبینہ طور پر سی آئی اے نے فنڈ کیا۔ ناول پڑھنے اور فلم دیکھنےکے بعد طالبان کا جو برا امیج بنتا ہے، وہ ویسا ہی ہے جیسا امریکہ چاہتا تھا۔

فاکس ٹیلیویژن کی مشہور سیریز The Americans ، اسی کی دہائی میں روس امریکہ سرد جنگ کے گرد گھومتی ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ روس اپنے دو کے جی بی ایجنٹس کی شادی کروا کر انہیں امریکہ میں بطور سلیپر ایجنٹ بھیجتا ہے۔

(جاری ہے)

دونوں ایجنٹس سالوں سےمقیم ہیں۔ اس دوران ان کے دوبچے بھی ہوچکے ہیں۔ جو دل سے امریکی ہیں۔ میاں بیوی ایجنٹس امریکہ میں روسی مفادات کے لئے جاسوسی کرتے ہوئے کئی خطرناک مشنز کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی دوران ان کی بڑی بیٹی جان جاتی ہے کہ اس کے والدین روسی ایجنٹس ہیں جبکہ ماسکو سے یہ حکم بھی آجاتا ہے کہ بیٹی بالغ ہوگئی ہے اسے بھی اب روسی ایجنٹ بنادیا جائے۔

ماں باپ اور بیٹی کی باہمی کشمکش اور ماسکو کی جانب سے دونوں کی قربانیوں کے باوجود بیٹی کو ایجنٹ بنانے کا دباو اتنے شاہکار انداز میں فلمایا گیا ہے کہ آپ کو روس سے نفرت اور اس فیملی سے ہمدردی ہونے لگتی ہے۔

اگر آپ افغان یا روسی ہیں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں رہائش پذیر ہیں تو آپ کائٹ رنر اور امریکنز سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتے۔

یہ پراپیگنڈے کا وہ طریقہ ہے جو مخالف قوم کے دل میں گھر کرتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے پاکستان میں پراپیگنڈے سے نمٹنے کے لئے جس قسم کی فلمیں بنائی جارہی ہیں، انہیں دیکھ کر مخالف قوم سے ہمدردی اور اپنے فلم میکر پر ہنسی آنے لگتی ہے۔ بلال لاشاری کی فلم "وار" اس ضمن میں اب تک کی سب سے بہترین فلم گردانی جاتی ہے۔ اس میں بھی ہدایتکار نے را ایجنٹ سے زیادہ قبائلی پشتون اور کرپٹ سیستدانوں پر فوکس رکھا۔

  وار کی تقلید میں ایسی لاتعداد فلمیں بنائی گئیں جن میں دشمن ملک ایجنٹوں کو گالیاں دے کر یا دھواں دھار فائرنگ کے ذریعے مار کر ہم نے اپنی بھڑاس نکالی۔ پڑوسی ملک بھارت میں بھی اسی قسم کی فضول فلموں کی بہتات ہے۔ سیف علی خان "گھس کر ماریں گے" کہتا ہے تو اس کی فلم بھارت میں بھی بمشکل چند کروڑ کما پاتی ہے۔ سلمان خان ایک پاکستانی بچی کو لے کر سرحد پار کرتا ہے تو "بجرنگی بھائی جان" پانچ سو کروڑ ورلڈ وائیڈ بزنس کرلیتی ہے۔



پراپیگنڈے کا توڑ پراپیگنڈے سے ہی ممکن ہے۔ مگر جنگی جنون ابھارنے اور مخالفین کو برائیوں کا مجموعہ ثابت کرکے ہم فقط اپنے اندر کا غبار نکالتے ہیں۔ مخالفین کو قائل نہیں کررہے۔ بھارت آج تک ایک بھی ایسی فلم نہیں بنا پایا جسے دیکھ کر ہم پاکستانیوں کو اپنی ریاست بری اور بھارت اچھا لگنے لگے۔ ان کے ہاں جنگی جنون کو بنائے رکھنا شاید ان کے سیاستدانوں کی مجبوری ہے۔

لیکن ہم چاہیں تو ایسی فلم، ڈرامہ بنا سکتے ہیں جسے دیکھ کر بھارتیوں کو بھی پتا لگے کہ مقبوضہ کشمیر اور بلوچستان وغیرہ میں ان کی سپائی ایجنسی "را" ، ان کے ٹیکس کے پیسوں سے کتنا مکروہ کھیل ، کھیل رہی ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کےمظالم پر آپ ان کی بنائی ہوئی فلم "حیدر" دیکھ لیں۔ آپ کے آنسو نہیں تھمیں گے۔ ہماری بنائی ہوئی فلم " آزادی" دیکھ لیں۔

آپ کے قہقہے نہیں رکیں گے۔

وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کل ایک تقریب کے دوران ملک بھر میں ملٹی پلیس سینیماز کی تعداد 132 سے بڑھا کر 1000 تک کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ملٹی پلیکس سینیماز کی تعداد 144 ہے، کاش وفاقی وزیر اپنے اعداد وشمار کسی فلم ڈسٹری بیوٹر سے لینے کی زحمت گوارا کرلیتے۔ سینما کی تعداد بڑھانے سے بہتر ہوگا فلموں کے موضوعات اور اچھے سکرپٹس پر حکومتی سرمایہ کاری یا بینکوں کے ذریعے قرضہ دینے کی باقاعدہ پالیسی بنائی جائے جیسا کہ پڑوسی ملک بھارت اور دیگر ممالک میں رائج ہے۔



ہمارے ہاں اچھے موضوعات پر اور غیر ملکی پراپیگنڈہ کا توڑ کرنے والے سکرپٹس کی کمی نہیں ہے۔ بس ریاست کی جانب سے ان فلم میکرز کی حوصلہ افزائی درکار ہے ہے جو ایسے موضوعات پر لکھنے اور فلم بنانے کی ہمت رکھتے ہیں۔

وقت اشاعت : 03/10/2018 - 13:38:13

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :