فلم ’’زندگی تماشا‘‘ کی نمائش روکنا احسن اقدام ہے ،ارکان سندھ اسمبلی ٹی ایل پی

مذہبی حلقوں میں بہت تشویش پائی جاتی تھی،فلم کی نمائش سے امن و امان کی صورت حال بگڑنے کے خدشات تھے ،مفتی قاسم فخری ،یونس سومرو ،ثروت فاطمہ پاکستان اور بیرون ملک رہنے والے ہر اس شخص کا شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے اس اہم معاملے میںاپنا کردار ادا کیا،علامہ رضی حسینی ،مفتی مبارک عباسی

جمعرات 23 جنوری 2020 00:08

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 جنوری2020ء) تحریک لبیک یارسول اللہ پاکستان (ٹی ایل پی) کے ارکان سندھ اسمبلی نے حکومت کی جانب سے متنازع فلم ’’زندگی تماشا‘‘ کی نمائش ملتوی کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فلم کے بارے میں مذہبی حلقوں میں بہت تشویش پائی جاتی تھی ۔فلم کی نمائش سے امن و امان کی صورت حال بگڑنے کے خدشات تھے ۔

ٹی ایل پی پاکستان اور بیرون ملک رہنے والے ہر اس شخص کا شکریہ ادا کرتی ہے جس نے اس اہم معاملے میں اسلام کا ساتھ دیتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا۔بدھ کو جاری بیان میں سندھ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر مفتی قاسم فخری ،یونس سومرو ،ثروت فاطمہ ،کراچی کے امیر علامہ رضی حسینی اور علماء بورڈ کے چیئرمین مفتی مبارک عباسی نے کہا کہ ٹی ایل پی پاکستان فلم سینسر بورڈ کو خراج تحسین پیش کرتی ہے جس نے ایک بہت حساس مذہبی معاملے کو سنجیدہ لیتے ہوئے ایکشن لیا۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہا کہ فلم ’’زندگی تماشا ‘‘کچھ ایسے ہی اصولوں پر بنائی گئی تھی کہ جس کے دیکھنے سے معاذاللہ مذہب اور مذہبی افراد سے نفرت جنم لے حالانکہ مذہبی طبقہ پاکستان کی ایک زندہ جاوید حقیقت ہے جس سے قرآن پاک کے حفظ اور قرآن و حدیث کے علوم حاصل کئے جاتے ہیں۔ فلم زندگی تماشا کی نمائش میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ سرمد کھوسٹ نے بتایا کہ انہوں نے اپنی فلم سنسر بورڈ سے کلئیر کروالی ہے حالانکہ *دی موشن پکچرز آرڈیننس 1979* جو کہ 3 ستمبر 1979 کو جاری کیا گیا اس آرڈیننس کے باب 2 کی شق نمبر 6 میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ کسی بھی ایسی فلم کو تشہیر کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا جاسکتا کہ جس کی عکاسی (کوئی ایک حصہ یا مکمل حصہ یا فلم) اسلام کی شان و شوکت کے خلاف ہوں یا پاکستان کے دفاع کے بارے میں متعصبانہ رائے ہموار کرے۔

ٹی ایل پی کے رہنماؤں نے کہا کہ ایسی صورت میں ایک اہم ترین سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا واقعی اس فلم نے سرٹیفیکٹ حاصل کیا ہی اگر ہاں تو اس فلم میں موجود اسلام مخالف مواد کس نے کلیئر کیا اور اگر نہیں تو آئین پاکستان کے اس قانون کے تحت یہ فلم تو بنیادی طور پر ہی غیر قانونی ہے جس پر ذمہ داران کے خلاف سخت ایکشن اور قانونی کارروائی کی ضرورت ہے۔

انہوںنے کہا کہ آج کل میڈیا کا دور ہے اور ہر شخص اس نیٹ ورک سے وابستہ ہے لہذا آنے والے وقت میں اگر کوئی اسلامی اقدار یا مذہبی معاملات پر کام کرنا چاہتا ہے کہ جس سے نوجوان نسل اسلام کا تشخص سمجھے اور جو معاشرے میں اصلاح کے پاسبان ہوں جس کی ایک مثال ترک ڈرامہ سیریل ارطغل غازی ہے تو اسکے لئے کوئی ایسا بورڈ تشکیل دیا جائے جس میں علمائے کرام موجود ہوں کیوں کہ ہر شعبے میں انکے ماہرین سے مشاورت کی جاتی ہے جبکہ مذہبی معاملات انتہائی حساس ہوتے ہیں ایسے معاملات میں اگر ڈراموں یا فلموں کی ترویج کے حوالے سے کام کرنے کی ضرورت پیش آئے بھی تو تمام مسالک کے علما موجود ہیں ان کی خدمات حاصل کی جائیں اور تاریخ اسلام کے روشن باب کے حوالے سے موجودہ دور کی طاقت یعنی میڈیا کو اچھے انداز میں استعمال کرکے انکو واضح کیا جائے تاکہ میڈیا کے ذریعے لوگوں میں اسلام اور پاکستان سے محبت بڑھے ناکہ وہ ایسے اداکاروں کے پیروکار بنیں جن کے کردار پر کلام کرنے پر بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔

انہوںنے کہا کہ فلم سینسر بورڈ نے بروقت کارروائی کی اور فلم کی رونمائی کو روکتے ہوئے اپنے نوٹیفکیشن میں بڑے واضح انداز میں کہا ہے کہ اس فلم کے بارے میں مذہبی حلقوں میں بہت تشویش پائی جاتی ہے اور فلم کی رونمائی ملک میں امن وامان کی صورتحال کی خرابی کا باعث بن سکتی ہے۔تحریک لبیک پاکستان ملک اور بیرون ملک رہنے والے ہر اس شخص کا شکریہ ادا کرتی ہے جس نے اس اہم معاملے میں اسلام کا ساتھ دیتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا۔
وقت اشاعت : 23/01/2020 - 00:08:07

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :