شہنشاہِ غز ل مہدی حسن کی پہلی برسی کل منائی جائے گی

بدھ 12 جون 2013 14:02

کراچی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔آئی این پی۔ 12جون 2013ء) عالمی شہرت یافتہ غزل گائیک اور شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن کی پہلی برسی کل جمعرات کو منائی جائے گی۔ وہ 1927ء میں بھارتی ریاست راجستھان کے ایک گاوٴں لْونا میں پیدا ہوئے۔1947 میں بیس سالہ مہدی حسن اہلِ خانہ کے ساتھ ہجرتِ کر کے پاکستان آ گئے اور محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔

اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے انھوں نے مکینک کے کام میں مہارت حاصل کی اور پہلے موٹر اور اسکے بعد ٹریکٹر کے مکینک بن گئے، لیکن اس کے باوجود وہ موسیقی کے خیال سے غافل نہیں رہے اور ہر حال میں اپنا ریاض جاری رکھا۔ 1950 کی دہائی اْن کے لیے مبارک ثابت ہوئی جب اْن کا تعارف ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی سے ہوا۔

(جاری ہے)

جوہر شناس نے موتی کی صحیح پہچان کی تھی چنانچہ دھرپد، خیال، ٹھْمری اور دادرے کی تنگنائے سے نکل کر یہ جوہر قابل غزل کی پْرفضا وادی میں آنکلا جہاں اسکی صلاحیتوں کو جِلا ملی اور سن ساٹھ کی دہائی میں اسکی گائی ہوئی فیص احمد فیض کی غزل ’گلوں میں رنگ بھرے‘ ہر گلی کوچے میں گونجنے لگی۔

فلمی موسیقار اب جمگھٹا بنا کر اسکے گرد جمع ہوگئے اور 60 اور 70 کی دہائیوں میں مہدی حسن پاکستان کے معروف ترین فلمی گائیک بن گئے. سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لیکر ندیم اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لب ہلائے۔مہدی حسن کے نو بیٹے اور پانچ بیٹیاں۔ اپنے بیٹوں آصف اور کامران کے علاوہ انھوں نے پوتوں کو بھی موسیقی کی تعلیم دی اور آخری عمر میں انھوں نے پڑدادا بننے کا اعزاز بھی حاصل کرلیا اور اپنے پڑپوتوں کے سر پہ بھی دستِ شفقت رکھا۔

ان کے شاگردوں میں سب سے پہلے پرویز مہدی نے نام پیدا کیا اور تمام عمر اپنے اْستاد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔ بعد میں غلام عباس، سلامت علی، آصف جاوید اور طلعت عزیز جیسے ہونہار شاگردوں نے اْن کی طرز گائیکی کو زندہ رکھا۔ملکہ ترنم نور جہاں کا کہنا تھا کہ ایسی آواز صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتی ہے، حالانکہ یہ بات خود مادام کی شخصیت پر بھی اتنی ہی صادق آتی ہے۔ دنیائے غزل کا یہ عظیم شاہکار بالآخر طویل علالت کے بعد 13 جون 2012 ء کو کراچی میں دار فانی سے کوچ کرگیا۔
وقت اشاعت : 12/06/2013 - 14:02:26

Rlated Stars :