علی ظفر نے تنظیموں کی جانب سے صدر اور وزیراعظم کو لکھے گئے خط کو گلوکار کو بدنام کرنے کی مہم قرار دیدیا

بدقسمتی ہے خواتین کے حقوق کے لیے لڑنے والی تنظیمیں دوسروں کے حقوق غضب کررہی ہیں اور بدنام کرنے کی مہم کا حصہ بن رہی ہیں، وکیل کا بیان

جمعہ 21 اگست 2020 16:30

علی ظفر نے تنظیموں کی جانب سے صدر اور وزیراعظم کو لکھے گئے خط کو گلوکار کو بدنام کرنے کی مہم قرار دیدیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اگست2020ء) پاکستانی گلوکار و اداکار علی ظفرکی وکیل نے خواتین کے حقوق سے متعلق آواز اٹھانے والی مختلف تنظیموں کی جانب سے صدر مملکت اور وزیراعظم کو لکھے گئے خط کو گلوکار کو بدنام کرنے کی مہم قرار دے دیا۔تفصیلات کے مطابق رواں برس 14 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 184 ملکی اور غیر ملکی شخصیات کے لیے سول ایوارڈز کا اعلان کیا تھا جنہیں 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر منعقد کی جانے والے تقریب میں ایوارڈز سے نوازا جائے گا۔

صدر پاکستان نے اس سال جن شخصیات کو سول ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ان میں گلوکار علی ظفر بھی شامل ہیں۔علی ظفر نے حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی کے لیے نامزدگی پر خوشی کا اظہار بھی کیا تھا اور نامزدگی کو بہت بڑا اعزاز قرار دیا تھا۔

(جاری ہے)

جس کے چند روز بعد اداکارہ عفت عمر نے سول ایوارڈز کی نامزدگی سے متعلق ایک تنقیدی ٹوئٹ کی تھی لیکن کسی کا نام نہیں لیا تھا۔

عفت عمر نے لکھا تھا کہ صرف پاکستان میں یہ ممکن ہے کہ حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر ہراسانی میں ملوث شخص کو ایوارڈ دیاجائے۔جس کے بعد 19 اگست کو عورت مارچ، عورت آزادی مارچ، ویمن ایکشن فورم اور تحریک نسواں کی جانب سے صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں علی ظفر کو سول ایوارڈ دینے سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا تھا کہ صدارتی دفتر کی جانب سے علی ظفر کو تمغہ حسن کارکردگی دینے کے فیصلے پر ہمیں شدید تشویش ہے کیونکہ علی ظفر پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد ہیں اور اس حوالے سے مقدمات تاحال جاری ہیں۔خط میں کہا گیا تھا کہ ہم اس تمغے کی میراث کو داغدار ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔جس کے بعد گلوکار کی وکیل بیرسٹر عنبرین قریشی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں عورت مارچ کی جانب سے علی ظفر کو تمغہ حسن کارکردگی دینے کے خلاف صدر مملکت کو لکھے گئے خط کا ردعمل جاری کیا۔

ردعمل میں کہا گیا کہ یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ خواتین کے حقوق کے لیے لڑنے والی تنظیمیں دوسروں کے حقوق غضب کررہی ہیں اور بدنام کرنے کی مہم کا حصہ بن رہی ہیں۔علی ظفر کی لیگل کاؤنسل نے کہا کہ میشا شفیع کی جانب سے جنسی ہراسانی کی شکایت پنجاب محتسب کے بعد گورنر پنجاب اور یہاں تک کہ لاہور ہائی کورٹ بھی خارج کرچکی ہے اور سپریم کورٹ نے اب تک لاہور کی عدالت عالیہ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی اجازت نہیں دی۔

علاوہ ازیں میشا شفیع کی جانب سے ہتک عزت کا نام نہاد کیس بھی عدالت نے علی ظفر کے کیس کے فیصلے تک روک دیا ہے جس میں انہوں نے میشا شفیع کے خلاف ایک ارب ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا لہذا ان کے خلاف زیر التوا کیسز کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ردعمل میں کہا گیا کہ وہ تنظیم جو انصاف کے عالمی قانون کہ ' قصوروار ثابت ہونے تک ہر شخص بے گناہ ہوتا ہے ' کی حامی ہے وہ صدر پاکستان کو لکھے گئے خط میں کیس کے حقائق کو غلط انداز میں پیش کررہی ہے۔

مزید کہا گیا کہ علی ظفر کی جانب سے میشا شفیع کے خلاف زیر التوا مقدمات کو نوعیت سول اور مجرمانہ ہے، ان میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی ای) کے سائبر کرائم سیل میں گلوکار کے خلاف مذموم مہم کا حصہ بننے والوں کے خلاف بھی کیسز دائر ہیں اس حوالے سے ایف آئی اے سائبر کرائم میں الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے تحت ایک تفتیش زیر التوا ہے۔ردعمل میں کہا گیا کہ حقوق نسواں کی تنظیم کا بیان بھی اسی زمرے میں آتا ہے جو حکومت پاکستان کی جانب سے علی ظفر کی قابل ذکر کامیابیوں پر انہیں تمغہ حسن کارکردگی کے لیے نامزد کرنے کے دوران گلوکار کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا بیانیہ ہے جس میں ' زیر التوا مقدمات ' کا جھوٹ شامل ہے۔

ان کی وکیل نے کہا کہ معزز عدالت نے میشا شفیع کی جانب سے عدالت میں پیش نہ ہونے پر جرمانہ بھی عائد کیا تھا اور علی ظفر کی حمایت میں 9 عینی شاہدین کے ان کے خلاف بیانات قلمبند کے بعد عدالت میں ان کے پیش ہونے کا انتظار ہے۔ردعمل میں اس بات پر زور دیا گیا کہ میڈیا اور دیگر افراد حقائق کا جائزہ لیے بغیر دھوکا دہی اور بدنام کرنے سے متعلق بیانیے پر مبنی غیر ذمہ دار بیانات کا شکار نہ بنیں۔
وقت اشاعت : 21/08/2020 - 16:30:21

Rlated Stars :

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :