قومی خزانے کو ایرانی تیل کی سمگلنگ کی روک تھام سے پہلے سال 750 ارب اور دوسرے سال 24 ارب روپے کا فائدہ پہنچا، پی آئی اے کی تنظیم نو ہو رہی ہے، گزشتہ دو سال سے ادارے کارکردگی میں بہتری آئی ، نئے روٹ شروع کئے گئے ہیں، وزارت خزانہ اور اس کے ادارے ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے لئے کوشاں ہیں، وصولیاں بہتر ہونے پر جی ایس ٹی کی شرح پر نظرثانی کی جائے گی

پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل خان کا قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران جواب

جمعہ 7 اگست 2015 15:03

اسلام آباد ۔ 7 اگست (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔07اگست۔2015ء) پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا ہے کہ قومی خزانے کو ایرانی تیل کی سمگلنگ کی روک تھام سے پہلے سال 750 ارب اور دوسرے سال 24 ارب روپے کا فائدہ پہنچا، پی آئی اے کی تنظیم نو ہو رہی ہے، گزشتہ دو سال سے اس کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے، نئے روٹ شروع کئے گئے ہیں، وزارت خزانہ اور اس کے ادارے ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے لئے کوشاں ہیں، وصولیاں بہتر ہونے پر جی ایس ٹی کی شرح پر نظرثانی کی جائے گی۔

جمعہ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران مزمل قریشی کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ پی ٹی سی ایل میں حکومت پاکستان کے 74 فیصد حصص ہیں، اتصالات نے 799 ملین ڈالر رقم ادا کرنی ہے، حکومت نے 60 فیصد زمینوں کو اتصالات پی ٹی سی ایل کے نام ٹرانسفر کر دیا ہے، اتصالات کا کہنا ہے کہ 100 فیصد زمین پی ٹی سی ایل کے نام منتقل ہوں گی تو معاملہ حل ہو گا اس حوالے سے ہماری اتصالات کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔

(جاری ہے)

میاں عبدالمنان کے ضمنی سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ وہ زمین ہم اتصالات کو نہیں دے رہے بلکہ پی ٹی سی ایل کو ٹرانسفر کرنی ہے، پی ٹی سی ایل پاکستانی کمپنی ہے۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ کے سوال کے جواب میں وزارت خزانہ کے پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد افضل خان نے کہا کہ ایران سے پاکستان میں سمگل ہونے والا 690 ملین کا تیل پکڑا گیا ہے، ایرانی تیل کی سمگلنگ ایک حقیقت ہے، سمگلنگ کی روک تھام کے اقدامات کے نتیجے میں ہماری حکومت کے پہلے سال 750 اور دوسرے سال 24 ارب روپے کا قومی خزانے کو فائدہ پہنچا ہے، ایف بی آر کو ہدایت کی جائے گی کہ اس ضمن میں نقصانات کا تخمینہ لگائے۔

سپیکر نے ریمارکس میں کہا کہ اس سے سندھ اور بلوچستان نہیں پورا ملک متاثر ہو رہا ہے۔

رانا محمد افضل خان نے بتایا کہ سمگلنگ کی روک تھام کے لئے چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں، اس حوالے سے بہت سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں، مزید اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ پروین مسعود بھٹی کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ سٹیل ملز کی نجکاری کے لئے فنانشنل ایڈوائزر مقرر کئے گئے ہیں جیسے ہی یہ مرحلہ مکمل ہو گا، ہم نجکاری بورڈ میں چلے جائیں گے۔

خواجہ سہیل منصور کے ضمنی سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ پی آئی اے کی ری سٹرکچرنگ ہو رہی ہے، گزشتہ دو سالوں سے اس کی سروسز میں بہتری آئی ہے، نئے روٹ شروع کئے گئے ہیں۔ عائشہ سید کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ چاروں وفاقی اکائیوں کے درمیان 82 فیصد آبادی کے فارمولے کے تحت تقسیم کئے جاتے ہیں، صرف پانچ فیصد صنعتی علاقوں اور ٹیکس ادا کرنے والے علاقوں کو فائدہ دیا جاتا ہے، این ایف سی ایوارڈ کا فارمولہ تمام صوبوں کی مشاورت سے طے کیا گیا ہے، تیل اور گیس پیدا کرنے والے صوبوں کو اضافی فوائد بھی دیئے جاتے ہیں۔

عبدالقہار خان کے ضمنی سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے لئے ضروری ہے کہ مردم شماری ہو، ایک لاکھ 65 ہزار وارڈوں میں مردم شماری کے لئے اڑھائی لاکھ سویلین اور دو لاکھ فوجی جوانوں کی ضرورت ہے، آپریشن ضرب عضب میں فوج کی مصروفیت کی وجہ سے مردم شماری ایک سال کے لئے ملتوی کی گئی ہے۔ نعیمہ کشور خان کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ اور اس کے ادارے ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لئے کوشاں ہیں، ریکوریاں بہتر ہونے پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح پر نظرثانی کی جائے گی، ڈائریکٹ ٹیسکوں کی شرح میں اضافہ اور ان ڈائریکٹ ٹئیکسوں کی شرح میں گزشتہ دو سالوں کے دوران کمی آئی ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ سیلز ٹیکس کی شرح کسی بھی صورت 127 فیصد سے زائد وصول نہیں کی جا سکتی، آئندہ چھ ماہ میں سیمنٹ اور چینی کی بوریوں پر بھی قیمتیں درج ہوں گی، ان امور پر تاجروں کے ساتھ بھی بات چیت کر کے مسائل حل کر رہے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ ہمارا مقصد صرف پیسے اکٹھے کرنا نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے پارلیمانی سیکرٹری خزانہ کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ اچھی تیاری کر کے آتے ہیں۔