علی سدپارہ، جان سنوری کا کیمرہ، گارمین ڈیوائس اور فون مل گیا

ان آلات کی مدد سے یہ پتا چلایا جاسکے گا کہ علی سدپارہ، انکے ساتھی کے ٹو سر کرنے نے کے بعد واپسی پر لاپتہ ہوئے یا انھیں چڑھائی سے قبل ہی یہ حادثہ پیش آ گیا تھا

Zeeshan Mehtab ذیشان مہتاب جمعرات 29 جولائی 2021 17:28

علی سدپارہ، جان سنوری کا کیمرہ، گارمین ڈیوائس اور فون مل گیا
لاہور (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار ۔ 29 جولائی 2021ء ) دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو سردیوں میں سر کرنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہونیوالے پاکستانی کوہ پیما علی سد پارہ کے ساتھی جان سنوری کا کیمرہ، گارمین ڈیوائس اور فون مل گیا ہے، ان آلات کی مدد سے یہ پتا چلایا جا سکے گا کہ علی سدپارہ اور ان کے ساتھی کے ٹو سر کرنے نے کے بعد واپسی پر لاپتہ ہوئے یا انھیں چڑھائی سے قبل ہی یہ حادثہ پیش آ گیا تھا۔

واضح رہے کہ ساجد سدپارہ اپنے والد علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کی تلاش اور انھیں واپس لانے کے مقصد سے دوبارہ کے ٹو گئے اور ان کے ہمراہ کینیڈین فوٹو گرافر اور فلم میکر ایلیا سیکلی اور نیپال کے پسنگ کاجی شرپا بھی ہیں۔ بی بی سی اردو کے مطابق ایلیا سیکلی، جان سنوری کا کیمرہ، گارمین ڈیوائس اور فون تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

(جاری ہے)

ساجد، ایلیا اور پسنگ کاجی شرپا بیس کیمپ کی جانب رواں ہیں اور ایلیا کے ٹریکر کے مطابق وہ دن ایک بجے کیمپ ٹو تک پہنچ چکے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل ساجد کو ہوان پابلو موہر کی گارمین ڈیوائس بھی مل گئی تھی۔ اس سے قبل ساجد سدپارہ نے برف میں جمی اپنے والد کی لاش کو ’بوٹل نیک‘ کے خطرناک مقام سے نکال کر کیمپ فور پر محفوظ کر دیا۔ کے ٹو بیس کیمپ پر موجود ذرائع کے مطابق ساجد نے لاش کو کیمپ فور پر محفوظ کرنے کے بعد اپنی والدہ کی خواہش کے مطابق فاتحہ اور قرآن خوانی بھی کی اور اس مقام پر نشانی کے لیے پاکستانی پرچم بھی گاڑا۔

علی سدپارہ کی لاش کو بوٹل نیک سے نکال کر کیمپ فور تک لانے کے خطرناک کام میں ارجنٹائن کے ایک کوہ پیما نے بھی ساجد کی مدد کی۔ منگل کو کے ٹو کے سمٹ پر روانہ ہونے سے قبل ساجد نے علی سدپارہ کے ساتھ لاپتہ ہونے والے تیسرے کوہ پیما ہوان پابلو موہر کی لاش کو بھی راستے سے ہٹا کر محفوظ کر دیا تھا۔ ساجد سدپارہ اپنے والد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو موہر کی لاشوں کی تلاش اور انھیں واپس لانے کے مقصد سے دوبارہ کے ٹو پر پہنچے ہیں اور بدھ کی صبح تقریباً 8 بجے انھوں نے دوسری مرتبہ کے ٹو کا سمٹ بھی کر لیا ہے۔

فی الحال ساجد نے ان لاشوں کو محفوظ کر دیا ہے تاہم انھیں کے ٹو سے نیچے لانے سے متعلق فیصلہ ہلاک ہونے والے کوہ پیماؤں کے اہلِ خانہ اور ماہرین کی رائے کے مطابق بعد میں کیا جائے گا۔ ساجد سدپارہ بیس کیمپ کی جانب چل پڑے ہیں اور لاشوں کو نیچے لانے کے لیے نئی ٹیم بن رہی ہے مگر اس کا فیصلہ موسم پر اور اس بات پر ہے کہ آیا مزید جانوں کو خطرے میں نہ ڈالتے ہوئے یہ لاشیں نیچے لانا ممکن ہے یا نہیں۔

بدھ کی صبح کے ٹو کی چوٹی سے بھییجے گئے پیغام میں ساجد سدپارہ کا کہنا تھا کہ فی الحال لاشوں کو نیچے لیجانا ممکن نہیں لگ رہا لہذا 'میں اپنی ٹیم کے ساتھ انھیں ٹیکنیکل مقام سے دوسری جگہ محفوظ کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ وہ آنے جانے والوں کو نظر نہ آ سکیں'۔ آڈیو پیغام میں ساجد سدپارہ نے یہ بھی بتایا کہ انھیں پابلو موہر کی جیب سے صرف گارمین ڈیوائس ملی ہے مگر وہ دوبارہ نیچے جا کر ان کا گو پرو، سیٹیلائٹ اور موبائل ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔

یاد رہے کہ علی سدپارہ کی لاش پیر کے روز کے ٹو پہاڑ کے ’بوٹل نیک‘ کے قریب ملی تھی۔ گلگت بلتستان کے وزیر اطلاعات فتح اللہ خان نے تینوں کوہ پیماؤں کی لاشیں ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان لاشوں کو فوج کے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے منتقل کیا جائے گا۔ پہلے علی سد پارہ اور جان سنوری کی لاشیں ملنے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں لیکن کے ٹو پر مہمات کا انتظام کرنے والی کمپنیوں اور ہون پابلو موہر کے مینیجر فیڈریکو شیچ نے ان کی لاش ملنے کی بھی تصدیق کی تھی۔

بتایا گیا ہے کہ محمد علی سد پارہ کی لاش کے ٹو کے ’بوٹل نیک‘ سے 300 میٹر نیچے جبکہ پہلی لاش ’بوٹل نیک‘ سے 400 میٹر نیچے ملی ہے (کے ٹو کے کیمپ فور سے اوپر ڈیتھ زون میں8200 سے 8400 میٹر کے درمیان ایک راک اینڈ آئس گلی موجود ہے، کیونکہ اس کی شکل بوتل کی گردن کی طرح دکھتی ہے لہذا اسے بوٹل نیک کہتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے کےٹو سر کرنے کی کوشش کرنے والے کوہ پیماؤں کو ہر حال میں گزرنا پڑتا ہے، اس کا کوئی متبادل راستہ موجود نہیں ہے اور یہ کے ٹو کا مشکل ترین حصہ ہے)۔

یاد رہے کہ پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو موہر کو 5 فروری کو 8000 میٹر سے زیادہ بلندی پر کے ٹو کی چوٹی کے قریب آخری مرتبہ علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے دیکھا تھا جو آکسیجن ریگولیٹر کی خرابی کی وجہ سے مہم ادھوری چھوڑ کر واپس آنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ علی سدپارہ اور ساجد سدپارہ اس مہم میں بطور ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر شریک تھے۔

تقریباً دو ہفتے تک زمینی اور فضائی ذرائع کا استعمال کرنے کے بعد حکام نے 18 فروری کو علی سدپارہ سمیت لاپتہ ہونیوالے تینوں کوہ پیماؤں کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی تلاش کے لیے جاری کارروائی ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ ساجد سد پارہ کی ریسکیو مہم کے انتظامات کرنیوالی کمپنی جیسمن ٹورز کے بانی اور پاکستان میں ہیڈ آف ریسکیو مشن فار پاٹو (پاکستان ٹور آپریڑ ایسوسی ایشن) اصغر علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تین لاشیں ملنے کی تصدیق کی تھی۔

ان کے مطابق یہ تینوں لاشیں لاپتہ کوہ پیماؤں علی سدپارہ، جان سنوری اور جان پابلو موہر کی ہی ہیں۔ ان کے مطابق آرمی کی طرف سے ان کے لئیزن آفیسر جن کا بذریعہ ریڈیو ساجد سدپارہ سے رابطہ ہے، تصدیق کی ہے کہ یہ لاشیں علی سدپارہ، جان سنوری اور ہوان پابلو موہر کی ہیں۔ اس سے پہلے کے ٹو پر مہمات کا انتظام کرنیوالی کمپنی مہاشا برم ایکسپیڈیشن کے مالک محمد علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے علی سدپارہ کی لاش ملنے کی تصدیق کی تھی۔

مہاشا برم ایکسپیڈیشن کے مالک محمد علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی ٹیم میں شامل رسیاں لگانے والے شرپاؤں کو ’بوٹل نیک‘ کے قریب دو لاشیں ملی ہیں جن میں سے ایک کی شناخت کر لی گئی ہے اور وہ محمد علی سد پارہ کی لاش ہے جبکہ دوسری لاش کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔محمد علی کے مطابق ان کی مختلف ممالک کے 19 کوہ پیماؤں پر مشتمل ٹیم کے ٹو کی جانب رواں دواں تھی اور اس دوران سات شرپا (جن میں ان کی ٹیم کے چار شرپا) بھی شامل ہیں، سب سے پہلے رسیاں فکس کرنے اوپر جا رہے تھے۔

جب یہ 7 افراد سمٹ کی جانب رسی فکس کرنے گئے تو کیمپ فور سے آگے بوٹل نیک کے قریب پہنچنے پر انھیں پہلے ایک لاش ملی اور گھنٹے بعد تقریباً 100 میٹر اوپر جا کر دوسری لاش ملی، کچھ دیر بعد انھوں نے بتایا کہ تیسری لاش بھی مل گئی ہے۔
وقت اشاعت : 29/07/2021 - 17:28:56

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :