تیسرا ٹیسٹ آخری روز ، پاکستان کو جیت کیلئے 7وکٹیں اور سری لنکا کو 309رنز درکار

3rd Test Last Day

میزبان کپتان سنگاکارا کی دلیرانہ اننگز جاری ، پاکستانی باؤلرز پر بھاری ذمہ داری عائد دانش کنیریا کی طویل عرصے بعد کامیاب واپسی ،عمد ہ بولنگ کرکے ناقدین کے منہ بند کردئیے

جمعہ 24 جولائی 2009

3rd Test Last Day
اعجازوسیم باکھری : پاکستان اور سری لنکا کے مابین تین ٹیسٹ میچز کی سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میچ کا آج پانچواں اور آخری روز ہے ۔آخری ٹیسٹ میچ کا آخری روز دونوں ٹیموں کیلئے انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے کیونکہ میچ اس وقت دلچسپ موڑ پر آگیا ہے جہاں سری لنکا کو جیت کیلئے 309رنز درکارہیں جبکہ پاکستان فتح سے سات وکٹیں دور ہے۔میچ کے چوتھے روزسری لنکن کپتان کمارسنگاکارا نے عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ٹیم کو بھر پورسہارا فراہم کیا اور وہ اس وقت 50رنز کے ساتھ وکٹ پر موجودہیں جبکہ اُن کا ساتھ دینے کیلئے سمارا ویرا بھی ناٹ آؤٹ ہیں۔

میچ کی صورتحال کو اس حوالے سے دلچسپ کہاجارہا ہے کیونکہ چوتھے روز کھیل جب ختم ہوا تو سری لنکن بیٹسمینوں کی دلیری اور حکمت عملی واضع دکھائی دے رہی تھی کہ وہ آج میچ جیتنے کی کوشش کرینگے ،بالخصوص سنگاکارا انتہائی دلیرانہ بیٹنگ کررہے ہیں اور اُن کا شمار دنیا کے بہترین بیٹسمینوں میں ہوتا ہے لہذا وہ اپنے طور پر مکمل کوشش کرینگے کہ تیسرا ٹیسٹ بھی جیت کر پاکستان کو کلین سوئپ کیا جائے تاہم اگر پاکستان ابتدائی سیشن میں لنچ سے قبل دووکٹیں بھی حاصل کرلیتا ہے تو سری لنکن ٹیم دفاعی حکمت عملی پر چلی جائے گی اور وہ ٹیسٹ میچ ڈراکرنے کی کوشش کرینگے ۔

(جاری ہے)

یقیناً آج کولمبوٹیسٹ کے آخری روزکا کھیل قابل دید ہوگا اور حقیقی معنوں میں شائقین ٹیسٹ کرکٹ کا اصل روپ دیکھیں گے۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سری لنکن ٹیم ابتدائی سیشن میں لڑکھڑاکر آؤٹ ہوجائے کیونکہ کسی بھی ٹیسٹ میچ کے پانچویں روز بیٹنگ کرنا انتہائی مشکل کام ہوتاہے کیونکہ پانچویں روز وکٹ انتہائی خراب ہوکر باؤلرز کی سپورٹ کرتی ہے لیکن دنیائے کرکٹ میں کولمبو کا یہ ایس ایس جی واحد گراؤنڈ ہے جہاں ٹیسٹ میچ کے آخری روز باؤلرز کو مدد نہیں ملتی لیکن کل جب چوتھے روز کے کھیل کا اختتام ہوا تو وکٹ کافی خراب ہوچکی تھی اور سپنرز کو مدد رہی تھی تاہم پاکستانی سپنرز اس مدد سے کتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں یہ فیصلہ آج سامنے آجائے گا۔

تیسرے ٹیسٹ میچ میں غیرمتوقع طور پر پاکستانی بیٹسمینوں نے عمدہ کھیل پیش کرکے سری لنکا کو میچ جیتنے کیلئے 492رنز کا ہدف دیا ، شعیب ملک نے ایک طویل عرصے بعد ذمہ دارانہ اننگز کھیلی وہ 134رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے جبکہ کامران اکمل 74اور مصباح الحق نے 65رنز کی اننگز کھیلی اور عمرگل بھی مڈل آرڈرز کی عمدہ کارکردگی کے تسلسل برقراررکھتے ہوئے تین چھکوں کی مدد سے 46 رنزبنانے میں کامیاب رہے ۔

تیسرے ٹیسٹ میں پاکستانی بیٹسمینوں نے جس عمدگی سے بیٹنگ کی اگر پہلے دوٹیسٹ میچز میں اس کارکردگی کے مقابلے میں صرف25فیصد بھی اچھی کارکردگی پیش کی جاتی تو پاکستان آج سیریز میں خسارے میں نہ ہوتا تاہم یہ کرکٹ ہے اور یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ممکن ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستانی ٹیم ہمیشہ اہم مرحلے پر لڑکھڑا جاتی ہے جہاں ہمیشہ غیرمتوقع شکست ہماری منتظرہوتی ہے ،ٹیم مینجمنٹ کو چاہئے کہ وہ کارکردگی میں تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے کوئی نئی اور موٴثر حکمت عملی ترتیب دیں کیونکہ اس سیریز کے بعد پاکستان نے چیمپنئزٹرافی کھیلنی ہے اور اُس کے بعد نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کا دورہ کرنا ہے لہذا ٹیم کو ورلڈکپ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنی عالمی چیمپئن کی حیثیت کا دفاع کرنا چاہئے کیونکہ ورلڈکپ جیتنے کے بعد ورلڈچیمپئن کی حیثیت کا بھرم برقرار رکھنا سب سے مشکل ہوتا ہے۔

تیسرے ٹیسٹ میں جہاں پاکستانی بیٹسمینوں نے عمدہ بیٹنگ کی اور لمبا سکور کرکے ٹیم کو بہتر ین پوزیشن میں لاکھڑا کیا اُسی طرح باؤلرز نے بھی بیٹسمینوں کی محنت کوضائع نہیں ہونے دیا۔بالخصوص اس ٹیسٹ میں دانش کنیریا کی کارکردگی کی جتنابھی تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ وہ مسلسل دو ٹیسٹ میچزمیں جن میں پاکستان بری طرح ہار گیا باہر بیٹھے رہے اور موقع کی انتظار میں تھے اور ٹیم مینجمنٹ انہیں نظرانداز کرتی رہی لیکن جونہی اُسے آخری ٹیسٹ میں موقع دیا گیا اُس نے پہلی اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کیں اور دوسری اننگز میں وہ اب تک دو اہم کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھا چکا ہے اور آج آخری روز بھی کپتان یونس خان سب سے زیادہ دانش کنیریا پر انحصارکررہے ہیں کیونکہ وہ سری لنکن بیٹسمینوں مسلسل پریشان کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں اور پہلی اننگز کی طرح دوسری میں بھی دانش کنیریا حریف بلے بازوں کیلئے خطرناک ثابت ہونگے۔

دانش کی عمدہ کارکردگی کا یہاں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُس نے پہلی بار پانچ وکٹیں حاصل کرنے کے عوض سو سے کم رنز دئیے ورنہ دانش کے بارے میں یہ بات حرف عام ہے کہ وہ پہلے سو رنز دیتے ہیں بعد میں وکٹ لیتے ہیں شاید اسی وجہ سے اُسے پہلے دو ٹیسٹ میں شامل نہیں کیا گیا لیکن تیسرے ٹیسٹ میں نہ صرف دانش نے وکٹیں لیں بلکہ سکور بھی کم دئیے ،یقینی طور پر دانش کی اس کارکردگی سے ناقدین اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے ہونگے۔

دانش نے قومی ٹیم تک رسائی کیلئے انتھک محنت کی اور وہ ہمیشہ خود کو منوانے کیلئے ”مزیداچھا“کرنے کی جستجو کرتے ہوئے نظر آئے۔کینریا کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے پہلے ہی اوورز سے حریف بلے باز پر اٹیک کرتے ہیں اور وکٹ حاصل کرنے کیلئے بیٹسمین کو دو چار آسان گیند یں پھینک کر اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں،لیکن پاکستان میں بنائی جانیوالی مردہ وکٹو ں پر انہیں وکٹ کے حصول کیلئے سخت جدوجہد کرناپڑتی ہے۔

بعض دفعہ وہ کسی بے ڈھنگی سی بال پر چھکا بھی کھا لیتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ اس کا سامنا کرتے وقت بڑے سے بڑا بیٹسمین بھی آنکھیں کھول کرکھڑا ہوتا ہے کیونکہ وہ کسی بھی وقت فلپر یا سلائیڈر جیسا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ذرا بھر بھی نہیں ہچکچاتے۔ کبھی تو اس قدر وہ بیٹسمین کے گرد گھیرا تنگ کردیتے ہیں کہ بلے بازاس قدربو کھلاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے کہ وہ خود کنیریا کی جانب کیچ دے بیٹھتا ہے۔

انہیں خوبیوں کے بلے بوتے پر وہ پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کا مستقل حصہ ہیں اور اب تک وہ 220سے زائد وکٹیں حاصل کرچکے ہیں ، دانش کی بدقسمتی کہ گزشتہ دو برس میں پاکستان کو زیادہ ٹیسٹ میچ نہیں ملے تاہم مستقبل میں پاکستان کے پاس بڑی سیریز ہیں جہاں دانش اپنی اسی کارکردگی کی بنا پر پاکستان کوفتوحات دلا سکتا ہے۔

مزید مضامین :