آسٹریلیا میں پاکستان 5ویں بار ٹیسٹ سیریز میں شکار

Australia Won 2-0

142سالہ ٹیسٹ کرکٹ کا بدترین ریکارڈ گرین شرٹس کا کینگروز کے دیس میں لگاتار 14 مقابلوں میں شکست سے دوچار ہونا ہے

Arif Jameel عارف‌جمیل بدھ 4 دسمبر 2019

Australia Won 2-0
نومبر دسمبر2019ءمیں 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز پاکستان نے آسٹریلیا کی سر زمین پر اُنکے خلاف کھیلی۔ پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا آئی سی سی چیمپئن شپ کی6ویں کرکٹ سیریز تھی ۔ جبکہ پاکستان کی پہلی اور آسٹریلیا کی دوسری ۔اس سے پہلے آسٹریلیا انگلینڈ میں اُنکی ہوم گراﺅنڈ پر 5ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیل چکا تھا بلکہ آئی سی سی چیمپئین شپ کا آغاز ہی اس سیریز سے یکم اگست2019ءکو ہوا تھا۔

پہلا ٹیسٹ میچ 21نومبر2019ءکو برسبین میں اور دوسرا ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ ایڈیلیڈ میں پنک گیند سے 29نومبر کو کھیلا گیا۔ اس سیریز میں پاکستان کے کپتان تھے اظہر علی اور آسٹریلیا کے کپتان ٹم پین ۔آسٹریلیا کی ٹیم میں بال ٹیمپرنگ میں سزا یافتہ ڈیوڈ وارنر اور اسٹیو سمتھ بھی شامل تھے۔ اس سیریز کے آغاز سے چند روز پہلے پاکستان کیلئے یہ بھی خوشخبری آئی تھی کہ پاکستان میں10سال بعد ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی ممکن ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

سری لنکا کی ٹیم اس ماہ ِدسمبر2019ءمیں2 ٹیسٹ میچوں کی سیر یز کھیلنے پاکستان پہنچ رہی ہے۔ یہ ٹیسٹ سیریز بھی آئی سی سی چیمپئین شپ کا حصہ ہو گی۔ مختصر اہم تجزیہ: پاکستا ن اور آسٹریلیا کے درمیان اس سیریز سے پہلے64 ٹیسٹ میچ کھیلے جا چکے تھے جن میں سے آسٹریلیا 31اور پاکستان 15میچ جیت چکا تھا۔18میچ برابر رہے۔لہذا آسٹریلیا کا پلڑا پہلے ہی بھاری تھااور اپنی ہوم گراﺅنڈ پر ویسے ہی مضبوط حریف۔

جسکی جھلک اس ٹیسٹ سیریز سے چند روز پہلے ٹی20 سیریز میں پاکستان کی شکست سے دیکھی جا سکتی ہے۔لیکن ٹیسٹ میچ کھیلنے والی ٹیم ٹی 20کے کھلاڑیوں سے کچھ فرق تھی اور کپتان بھی تبدیل تھا لہذا اُمید تھی۔کس بات کی؟ برسبین کرکٹ گراﺅنڈ المشہور " دی گابا" اسٹیڈیم میں 21نومبر کو شروع ہوا ۔ پاکستان کے کپتان اظہر علی نے ٹاس جیتا اور پہلے بلے بازی کرنے کا فیصلہ کیا۔

دوسرا ٹیسٹ میچ 29نومبر کو جنوبی آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ کے مشہور کھیلوں کے گراﺅنڈ ایڈیلیڈاوول میںہوا جہاں ٹاس آسٹریلیا کے کپتان ٹم پین نے جیتا اور پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ آسٹریلیا کے ہوم گراﺅنڈ پر ٹاس جیت کر یا ہار کر پہلے بلے بازی کرنا یا دوسری صورت میں نہ کرنے کا فیصلہ دونوں صورتوں میںپاکستان کیلئے ناموافق ہی ہونا تھا۔

کیونکہ سوال وہی ماضی والا تھا کہ اُن ممالک کی تیز وکٹیں ۔وہاں کا موسم ،ہواکا رُخ ،شائقین اور پاکستان کی ٹیم اور وہ بھی اس دفعہ پاکستان الیکٹرونکس میڈیا کے تجزیہ کاروں کے پُرزور اصرار پر کہ نوجوان و نئے کھلاڑی،نیا کوچ اور نیا چیف سلیکٹر۔سب سے اہم محمد عامر کی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر منٹ میں کسی کی کمزوری؟بہت سے سوالات جن کے جوابات ماضی والے ہی ہیں پھر شور کیوں؟ اس سیریز کیلئے کرکٹ ٹیم تجزیہ کاروں کی فرمائش کے مطابق ہونے کے باوجود پاکستان کی بلے بازی ناکام ،باﺅلنگ ناکام ،فیلڈنگ میں کمزوریاں اور اُوپر سے ایک دفعہ پھر وہی " امپائرنگ" پر سوالات۔

پہلے ٹیسٹ میں آسٹریلیا کے باﺅلر پیٹ کمنز کی گیند پر پاکستان کے وکٹ کیپر محمد رضوان کو کیچ آﺅٹ قرار دے دیا گیا ۔ تھرڈ امپائر کے رِی ویو میں کمنز کا پاﺅں طے شُدہ حد سے متجاوز تھا لیکن پھر بھی آﺅٹ کا فیصلہ برقرار رکھا گیا گیا۔اس سیریز کے دوران آفیشل براڈ کاسٹر اور آسٹریلین نشریاتی ادارے چینل 7 نے برسبین ٹیسٹ کے دوسرے دن چائے کے وقفے کے بعد اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ میچ کے دوسرے دن پاکستانی باﺅلرز نے 2 سیشنز کے دوران 21نوبال کیں لیکن فیلڈ پر موجود دونوں امپائروں نے وہ نو بال کال نہیں کیں ۔

ادارے نے ثبوت کے لیئے و ہ فوٹیج بھی چلائیں۔ ایسا کیوں ہوا ؟اگر نوبال قرار دی جاتیں توآسٹریلیا کے اسکور میں 21 رنز کا اضافہ ہو نا تھا اور پاکستان کو اضافی3.3 اوورز کروانے پڑنے تھے۔ اس ٹیسٹ سیریز سے پہلے پاکستان باﺅلنگ اٹیک کی دھاک بیٹھائی گئی تھی ۔ مثلاً تمام بلے باز ذمہ داری اُٹھائیں : کپتان ٹم پین۔ جسکے بعد 2ٹیسٹ میچوں میں پاکستانی باﺅلرز صرف آسٹریلیا کے13کھلاڑی آﺅٹ کر سکے جبکہ اُنکے ایک ہی اہم باﺅلر مچل اسٹاک نے پاکستان کے14کھلاڑی آﺅٹ کیئے اور پا کستان 4اننگز میں آل آﺅٹ ہوا یعنی40 ۔

پہلے ٹیسٹ میچ میں 16 سالہ نوجوان فاسٹ باﺅلر نسیم شاہ کو ٹیسٹ کیپ دی گئی ۔جسکی والدہ اس سیریز سے چند روز پہلے وفات پا گئی تھیں اور وہ پاکستان نہ آسکا۔اچھی باﺅلنگ کی پہلی ٹیسٹ وکٹ بھی لی لیکن کوچ وقار یونس کی وہ رہنمائی نظر نہ آئی جسکی بدولت وہ وکٹیں لے سکتا۔اُلٹا اُسکی ایک نو بال کی وجہ سے تھرڈ امپائر نے ڈیویڈ وارنر کو ناٹ آﺅٹ قرار دے دیا۔

دوسرے ٹیسٹ میچ میں فاسٹ باﺅلر محمد عباس کو شامل کر نے پر بہت زور دیا گیا ۔ماضی کے تمام فاسٹ باﺅلرز و ہیڈ کوچ مکی آرتھراور الیکٹرونک میڈیا کے تجزیہ کار اُس کے حق میں کھڑے ہو گئے۔نتیجہ دوسرے ٹیسٹ میں 29اوورز میں100رنز دے ڈالے اور وکٹ۔ اوہ! یاسر شاہ سپین کے بادشاہ اس دفعہ وکٹیں لینے کے نہیں بلکہ سیریز میں 4 وکٹوں کے بدلے402رنز دینے کے نکلے۔

ایک اور نوجوان فاسٹ باﺅلر محمد موسیٰ کو دوسرے ٹیسٹ میچ میں ٹیسٹ کیپ دی گئی لیکن کوئی وکٹ نہیںملی۔اس کے علاوہ بھی جن باﺅلر ز کو آزمایا گیا اُن میں کیا تجربے کی کمی تھی یا باﺅلنگ کوچ وقار یونس نے اُن پر توجہ نہیں دی۔اہم سوال رہا؟ اس سیریز سے پہلے ہی باﺅلنگ کے بارے میں خدشات تھے لیکن بیٹنگ لائن کے متعلق رائے مُثبت تھی۔شان مسعود، کپتان اظہر علی ،حارث سہیل،اسد شفیق اور بابر اعظم۔

دوسرے ٹیسٹ میں امام الحق کو شامل کرنے سے بھی اُمید پیدا ہوگئی تھی۔لیکن دونوں ٹیسٹ میچوں میں باﺅلنگ کی طرح بیٹنگ لائن کا بھی ڈھرم تختہ ہو گیا۔سیریز میںنبابر اعظم نے ایک سنچری اور پہلی ٹیسٹ سنچری بنائی سپین باﺅلر یاسر شاہ نے۔ اگر یہ سنچریاںکسی کام نہ آئیں تو پھر مزید کیا رہ جاتا ہے۔ شاید اس ہی لیئے بابر اعظم نے سنچری بنانے کے بعد کہا تھا کہ آسٹریلیا میں رنز کرنا مشکل ہے۔

رہے کپتان اظہر علی تو اُنکا بیٹ رنز اُگلنا بھول گیا ۔گزشتہ 2سال میں 25ٹیسٹ اننگز میں صرف602 رنز ہی بنا سکے ۔ 13 دفعہ اننگز 10 رنز سے آگے نہ بڑھ پائی۔جن میں سے اس سیریز میں کُل62رنز بنائے اور 3اننگز میں 10سے کم رنز پر آﺅٹ ہوئے۔ پاکستان کے تجزیہ کاروں کی خواہش پر مشتمل زیادہ تر نوجوانوں کی پاکستان کرکٹ ٹیم آسٹریلیا میں دونوں سیریز ہار گئی۔

کپتان اظہر علی اور ٹیم انتظامیہ کے چہروں پر شرمندگی کے اثرات دیکھے جاسکتے تھے کیونکہ وہ محب الوطن پاکستان کی جیت کیلئے کھیلتے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کو اپنی پسند کی ٹیم میں تبدیلیاں بھی پسند نہ آئیں اور یہ کہنا اور لکھنا شروع کر دیا اُ سکو نہیںکھیلایا اور اُس کو کیوں کھیلایا؟ یعنی آسان الفاظ میں پاکستان کرکٹ کابیڑہ غرق بھی کروا دیا اور شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔

پاکستان کی آسٹریلیا میں: گزشتہ 24سال کی کارکردگی دیکھی جائے تو آسٹریلیا میں اُنکے خلاف پاکستان آخری ٹیسٹ میچ 30نومبرتا 4دسمبر1995ءمیںسڈنی کے مقام پر وسیم اکرم کی کپتانی میں74 رنز سے جیتا تھا۔لیکن پاکستان سیریز2۔1 سے ہار گیا تھا ۔ پھر اُسکے بعد 1999ءسے اس سیریز تک 5دفعہ مسلسل پاکستان وہاں شکست کا شکار ہوا ۔کپتان تھے وسیم اکرم۔انضمام الحق۔

محمد یوسف۔مصباح الحق اور اظہر علی۔دلچسپ یہی نہیں کہ اس دفعہ پاکستان آسٹریلیا کے ہاتھوں وائٹ واش ہوابلکہ گزشتہ4سیریز میں بھی پاکستان کے بڑے کھلاڑیوں کی کپتانی میں بڑی ٹیمیں وہاں سے وائٹ واش ہو کر آئیں۔ لہذا ماضی کی 4سیریز کو ملا کر 142 سالہ ٹیسٹ کرکٹ کا بدترین ریکارڈ گرین شرٹس کا کینگروز کے دیس میں لگاتار 14 مقابلوں میں شکست سے دوچار ہونا ہے۔

پہلی4سیریز3ٹیسٹ میچوں کی تھیں لہذا12اور یہ 2ٹیسٹ کُل 14۔ پھر یہ شور کیوں ؟ نوجوان کھلاڑیوں کی دل شکنی کیوں؟ پہلے ٹیسٹ میچ: کا آغازپاکستان کی بیٹنگ سے ہوا۔ اوپنر شان مسعود اور کپتان اظہر علی نے آسٹریلیا کے اٹیک باﺅلرز کومحتاظ انداز سے کھیلنے کی کوشش کی اور 75اسکور تک کوئی کھلاڑی آﺅٹ نہیں ہوا ۔اُمیدنظر آئی کہ مقابلہ ہو گا ۔لیکن اوپنر شان مسعود 27 رنز بنا کر آﺅٹ اور مزید ایک اسکور کے اضافے کے بعد اوپنر کپتان اظہر علی بھی39رنز بنا کر آﺅٹ ہو گئے۔

آﺅٹ ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور آسٹریلین باﺅلرز جان گئے کہ قابو آگئے ہیں ۔پھر صرف اسد شفیق 76رنز کی انفرادی اننگز کھیل کر آسٹریلین باﺅلنگ کے سامنے مزاحمت کرتے ہو ئے نظر آئے باقی باری لینے آتے اور پویلین لوٹ جاتے ۔ وکٹ کیپر محمد رضوان نے37رنز بنائے۔ پہلے دن کا اختتام کا وقت تھا اورپاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم 240رنز پر آل آﺅٹ ۔اسٹارک اور کمنزبالترتیب 4اور3 وکٹیں لیکر آسٹریلیا کے نمایاں باﺅلر رہے۔

اب تھی بیٹنگ آسٹر یلیا کی اور دوڑیں پاکستان کیں۔باﺅلنگ اٹیک ناکام بلکہ باﺅلنگ ہی ناکام ۔ پہلی وکٹ 222کے مجموعی اسکور پر اوپنر جو برنز کی گری جو نروس 97 پر آﺅٹ ہو ئے ۔ آسٹریلیا کی ٹیم 580 رنز پر آل آﺅٹ ہو گئی اور انفرادی طور پر ایشز کے ناکام ترین بلے باز ڈیویڈ وارنر نے اپنی22ویں سنچری کرتے ہوئے 154رنز بنائے۔ وارنر کی بال ٹیمپرنگ اسکینڈل میں ایک سالہ پابندی کے بعدیہ اُنکی پہلی سنچری تھی۔

مارنس لبوشین اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری بناکر185رنز پر آﺅٹ ہوئے۔میتھیو ویڈ بھی 60 رنز بناکر مجموعی اسکور کے اضافے میں حصہ دار رہے۔ پاکستان کے لیگ سپنر یاسر شاہ نے205 رنز دے کر4،حارث سہیل ،شاہین آفریدی نے2 ،عمران خان نے ایک اور ٹیسٹ کیپ حاصل کرنے وال نسیم شاہ نے اپنے پہلے ٹیسٹ میں ایک وکٹ حاصل کی۔ پاکستان بلے بازوں کی اولین کوشش تھی کہ پہلے 340 رنز کی برتری سے جان چُھڑائیں جو کافی زیادہ تھی۔

پہلی اننگز سے دوسری اننگز میں پاکستان کی بلے بازی کچھ بہتر نظر آئی جسکی اہم وجہ بابر اعظم کی سنچری تھی لیکن ساتھ ہی آﺅٹ ہو جانا ٹیم کیلئے فائدہ مند ثابت نہ ہوا۔ وکٹ کیپر محمد رضوان نروس 95کا شکار ہو ئے۔ اوپنر شان مسعود اور یاسر شاہ نے بھی42،42رنز بنائے ۔ آسٹریلیا کی طرف سے اُنکی اٹیک باﺅلنگ کامیاب رہی ۔اسٹارک 3 ،کمنز2،ہیزل وُڈ 4 اور لیون ایک کھلاڑی آﺅٹ کر کے پاکستان کی ٹیم کو335کے مجموعی اسکور پر آﺅٹ کر نے میں کامیاب ہو گئے اور پاکستان کو اننگز اور5رنز سے شکست ہو گئی۔

مین آف دی میچ ہوئے ایم۔لبوشین۔ پنک بال ڈے اینڈ نائٹ دوسرا ٹیسٹ میچ: آسٹریلیا کی پہلی باری سے شروع ہوا اور پھر اُنکو دوسری باری کھیلنے کی ضرورت نہ پڑی ۔کیوں؟اوپنر برنز کو تو پاکستانی فاسٹ باﺅلر شاہین آفریدی نے4رنز پر آﺅٹ کر دیا لیکن پھراُس کے بعد اوپنر ڈیویڈ وارنر اور ون ڈاﺅن آنے والے مارنس لبوشین نے 361رنز کی شراکت دار اننگز کھیل کر پاکستان ٹیم،باﺅلنگ و فیلڈنگ کے چھکے چُھڑا دیئے۔

162کے انفرادی اسکور پرلبوشین تو آﺅٹ ہو گئے اور اُسکے بعد آنے والے آسٹریلیا کے نامور بلے باز سٹیون سمتھ بھی36رنز بنا کروکٹ کیپر محمد رضوان کے ہاتھوں کیچ آﺅٹ ہو گئے لیکن آﺅٹ نہ ہوئے تو وہ تھے وارنر ۔ ایک موقع پر آسٹریلیا کے کپتان ٹم پین نے اننگز ڈکلیئر کرنے کا ارادہ کیا تو وارنر نے اُن سے آسٹریلیا کے لیجنڈڈان بریڈ مین اور مارک ٹیلر کا اسکور عبور کرنے کیلئے وقت مانگا جو3منٹ ملا اور وارنر نے وہ کر دکھایا جو خود اُنکے گمان میں بھی نہیں تھا ناقابل ِشکست 335کا انفرادی اسکور (ٹریپل سنچری) اور اپنی زندگی کا سب سے زیادہ اسکور۔

اُنھوں نے وقت دینے پر کپتان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اُنھیں یقین نہیں آرہا کہ وہ عظیم بلے باز ڈان بریڈ مین کا ریکارڈ توڑ چکے ہیں۔ کپتان ٹم پین نے 589 پر 3کھلاڑی آﺅٹ اننگز ڈکلیئر کر دی اور وہ 3کھلاڑی بھی شاہین آفریدی نے آﺅٹ کیئے۔ حیران کُن یہ تھا کہ ابھی تین دن سے زائد پڑے ہوئے تھے تو کپتان ٹم پین نے وارنز کو ویسٹ انڈیز کے مایہ ناز بلے بازبرائن لار کا400 رنز کا عالمی ریکارڈ توڑنے کیوں نہیں دیا ؟ پاکستان بیٹنگ حسب ِمعمول ناکام ۔

پہلی اننگز 302پر آل ٹیم آﺅٹ ۔بابر اعظم نروس 97پر کیچ آﺅٹ اور پاکستان کے سپین باﺅلر یاسر شاہ کی ٹیسٹ کرکٹ کی پہلی سنچری اور113کے انفرادی اسکور پر وہ بھی کیچ آﺅٹ ۔مچل اسٹارک نے6کھلاڑی آﺅٹ کیئے۔فالو آن توآغاز سے ہی یقینی نظر آرہا تھا اور وہ ہو گیا۔ آسٹریلیا کے پاس برتری ابھی287رنز کی تھی اور پاکستان کے پاس اننگز کی شکست سے بچنے کیلئے وقت۔

تیسرے دن کا کھیل جاری تھا اور دن کے اختتام پر پاکستان ایک دفعہ پھر باﺅلنگ کے بعد پہلی اور پھر دوسری اننگز میں بھی بلے بازی میںناکام ہو تاہوا نظر آیا3وکٹوں پر 39رنز۔ چوتھا دن شروع ہوا تو صر ف اوپنر شان مسعود اور مڈل آرڈر بلے باز اسد شفیق آسٹریلین باﺅلنگ کے سامنے مزاحمت کرتے ہوئے نظر آئے اور بالترتیب68 اور57رنز بنا کر آﺅٹ ہوئے۔لیکن اننگز کی شکست سے بچنے کیلئے یہ بھی کوئی قابل ِتعریف اننگز نہیں تھی۔

لہذابعد میں آنے والے کھلاڑی بھی آﺅٹ ہو تے چلے گئے اور پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کپتان اظہر علی کی قیادت میں 239کے مجموعی اسکور پر ڈھیر ہو گئی۔ پاکستان کو دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی ایک اننگز اور48رنز سے شکست ہوئی اور آسٹریلیا نے پاکستان کے خلاف ٹی20 سیریز کے بعد ٹیسٹ سیریز بھی وائٹ واش کر لی۔ دوسری اننگز میںآسٹریلیا کی طرف سے باﺅلر این ایم لیون نے5 وکٹیں حاصل کیں ۔

مین آف دی میچ ہوئے ڈیویڈ وارنر اور سیریز میں بھی سب زیادہ رنز489 بنانے پر مین آف دی سیریز ہوئے ڈیویڈ وارنر۔پاکستان کی طرف سے فاسٹ باﺅلر محمد موسیٰ نے ٹیسٹ کیپ حاصل کی۔ اہم خبریں: ﴿ آسٹریلیا نے اس سیریز تک 6پنک بال کرکٹ ٹیسٹ میچ کھیلے جو تما م ہی آسٹریلیا نے اپنی ہوم گراﺅنڈ پر جیتے۔ ﴿ آسٹریلیا کے کپتان ٹین پین نے پہلے ٹیسٹ میچ میں اسکور تو13بنائے لیکن بحیثیت وکٹ کیپر میچ میں7کیچ پکڑے۔

﴿ آسٹریلیا کے کپتان ٹین پین کی دوسرے ٹیسٹ میچ میں بیٹنگ نہیں آئی لیکن بحیثیت وکٹ کیپر میچ میں 6 کیچ پکڑے۔ ﴿ اس سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں آسٹریلیا کے سابق کپتان اسٹیون سمتھ نے اپنے 70 ویںٹیسٹ میچ کی126 ویں اننگز میں تیز ترین 7000ہزار رنز مکمل کر کے73سالہ پرانا انگلینڈ کے والی ہیمنڈ کا 131اننگز کاریکارڈ توڑ دیا۔یاد رہے ڈان بریڈ مین نے 80 اننگز میں کیرئیر کے6ہزار996 رنز سے اسکور کیئے تھے۔ آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئین شپ کے ٹیبل پر اس سیریز میں آسٹریلیا کو 120پوائنٹس ملے جسکے بعد اب تک آسٹریلیا نے کُل 7 ٹیسٹ میچ کھیل کر176 پوائنٹس حاصل کر لیئے ہیں اور پاکستان صفر۔ "آگے کھیلتے ہیں دیکھتے ہیں اور ملتے ہیں "۔

مزید مضامین :