”بھارت کا مسنح شدہ چہرہ پھر سامنے آگیا “

Baharat Ka Masakh Shuda Chehra Samne Aa Giya

پاکستانی کرکٹرز کو آئی پی ایل میں حصہ لینے سے روک دیا ،بقیہ رقم اداکرنے سے انکار ٹورنامنٹ میں شامل کیا جائے یا پیسے دئیے جائیں ،سلمان ،کامران ،عمرگل،مصباح،حفیظ،آفریدی اور شعیب ملک کا مطالبہ

منگل 7 اپریل 2009

Baharat Ka Masakh Shuda Chehra Samne Aa Giya
اعجازو سیم باکھری : اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ روح زمین پر اگر سلطنت پاکستان کا کوئی دشمن ہے تو وہ ہندوستان ہے ۔پاکستان اور ہندوستان کی دشمنی کئی دہائیوں سے چلی آرہی ہے اور روز محشر تک اس دشمنی کاسلسلہ اپنی پوری آب و تاب سے جاری رہے گا۔جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بات چیت یا مذاکرات سے پاک بھارت تعلقات بہتر ہوجائیں گے اوردونوں ممالک کے آپس میں اختلافات ختم ہوجائیں گے تووہ غلطی پر ہیں ،مستقبل میں حالات چاہے کیسے بھی ہوجائیں مگر پاک بھارت دشمنی کبھی بھی دوستی میں نہیں بدل سکتی ۔

گوکہ چند لوگ ایک دوسرے کو اپنادوست سمجھ لیں لیکن پاکستانی عوام کبھی بھارت کو اپنا دوست نہیں سمجھتی اور نہ ہی مستقبل میں بھارت پر اعتبار کرنے پر سوچا جاسکتا ہے۔حالانکہ ہم دونوں ہمسائے ملک ہیں اور ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمیں ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کیلئے ویزے کا بھی سہار انہیں لینا چاہیے اگر ایسا ممکن ہو جائے تو پھر 1947ء میں د ی گئی قربانیاں بے معنی ہوجائیں گی کیونکہ 14اگست1947ء میں ہونیوالی تقسیم کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت دو الگ الگ ملک ہیں جوکبھی بھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اور انہیں علیحدہ علیحدہ رہنا چاہیے۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ بھارت سے ہماری رقابت چلتی آرہی ہے اور اس رقابت نے اسی انداز میں چلنا ہے کیونکہ ہم پاکستانی پھر بھی بعض چیزیں فراموش کرکے بھارتیوں پر اعتبار کربیٹھتے ہیں اور اُن کے ساتھ وہ سلوک نہیں برتتے جو وہ ہم سے کرتے ہیں ،شاید مسلمان ہونے کی وجہ سے ہمارے اندر منافقت کی مقدارتھوڑی کم ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ بھارت کی جانب سے ہمیں پہلے ہٹ کیا جاتاہے بعد میں ہم جواب دیتے ہیں۔

ممبئی حملوں کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اس حد تک متاثر ہو ئے کہ دونوں ملک جنگ کے قریب آگئے تھے اور تاحال دونوں ممالک کی افواج بارڈرز پر موجود ہے اور فوجی اڈوں پر ہنگامی صورتحال نافذ ہے ممکن ہے کہ کچھ عرصے بعد دونوں ملکوں کی فوجیں امن کی پوزیشن پرواپس چلیں جائیں لیکن حالات میں بہتری اور رویوں میں تبدیل کے اثار دور دورتک نظر نہیں آتے ۔

ممبئی حملوں کے بعد جہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان حکومتی سطح پر کھچاؤپیدا ہوا وہیں دونوں ممالک کے کرکٹ تعلقات کو بھی شدید نقصان پہنچا جس سے دونوں کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔سکیورٹی خدشات کی وجہ سے غیر ملکی کھلاڑیوں نے بھارت جاکر آئی پی ایل کھیلنے سے انکار کیا تو بھارتی حکومت اور آئی پی ایل نے اس کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا کہ پاکستان کے لوگ ہمارے ہاں آکر دہشت گردی کرتے ہیں جس کی وجہ سے غیر ملکی کرکٹر بھارت آکر کھیلنے پر راضی نہیں ہوئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتظامیہ کو آئی پی ایل بھارت سے جنوبی افریقہ منتقل کرنا پڑی۔

بھارت میں سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر حکومت پاکستان نے بھی اپنے کھلاڑیوں کو بھارت جاکر کھیلنے سے منع کیا مگر خوش قسمتی سے آئی پی ایل بھارت کی بجائے جنوبی افریقہ شفٹ ہوئی تو خیال کیا جارہا تھا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو ٹورنامنٹ میں شرکت کا موقع مل جائے گا ،اس کے پیش نظر حکومت پاکستان اور پی سی بی نے اپنے کرکٹرز کو جنوبی افریقہ جاکر آئی پی ایل کھیلنے کی اجازت دیدی مگر بھارتی حکومت اور آئی پی ایل نے ماتھے پر آنکھیں رکھتے ہوئے اور پاکستان سے اپنی دشمنی کا ثبوت پیش کیا اورواضح الفاظ میں اعلان کردیاکہ ٹورنامنٹ میں کسی بھی صورت میں پاکستانی کھلاڑیوں کو شامل نہیں کیا جائیگا۔

آئی پی ایل کے کمشنر للت مودی نے انتہائی گرج دار آواز میں کہاکہ پاکستانی کھلاڑیوں کو ٹورنامنٹ میں شرکت کی اجازت نہیں دی جاسکتی لیکن انہوں نے کوئی وجہ بیان نہیں کی اور ٹورنامنٹ کیلئے ٹیموں کا اعلان کردیا گیا مگر کسی بھی ٹیم میں پاکستانی کھلاڑیوں کو شامل نہیں کیا گیا جس پر آئی پی ایل سے معاہدہ کرنے والے قومی کرکٹرز نے آواز اٹھائی اور پیر کے روز یہاں لاہورمیں گلبرگ کے ایک مقامی ہوٹل میں پرہجوم پریس کانفرنس کرتے ہوئے قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شعیب ملک ، مصباح الحق ، کامران اکمل ، سلمان بٹ اورمحمد حفیظ نے مطالبہ کیا کہ ان کی فرنچائزانہیں آئی پی ایل کے دوسرے ایڈیشن میں شامل کریں ورنہ دوسری صورت میں ان کے بقایا جات ادا کیے جائیں کیونکہ آئی پی ایل کے دوسرے ایڈیشن کے آغاز میں دوہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے مگر تاحال رابطہ کرنے کے باوجود فرنچائزنے کھلانے یا نہ کھلانے کے بارے میں آگاہ نہیں کیا۔

قومی کرکٹرزنے مطالبہ کیاہے کہ آئی پی ایل انتظامیہ انہیں اس بات کا جواب دے کہ پاکستانی کرکٹرز کو کس بنیاد پر ٹورنامنٹ میں شامل نہیں کیا جارہاحالانکہ اُن کے کنٹریکٹ تاحال اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔سابق کپتان شعیب ملک کا کہنا تھا” جنہوں نے دہلی ڈئیرڈیولز سے معاہدہ کررکھا ہے “کہ پہلے سکیورٹی کے باعث حکومت پاکستان نے قومی کرکٹرزکو بھارت جانے سے روکا تھا مگر اب تو آئی پی ایل بھارت سے جنوبی افریقہ منتقل ہوچکی ہے تو اس صورت میں پاکستانی کھلاڑیوں کو بغیر کسی وجہ سے نہ کھلانا سمجھ سے بالاتر ہے۔

شعیب نے بتایا کہ تاحال کسی کھلاڑی کو باقاعدہ طور پر اطلاع فراہم کی اور نہ ہی کوئی لیٹر دیا گیا۔کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے اوپنر بیٹسمین سلمان بٹ نے بتایاکہ 29جنوری کو نائٹ رائیڈرز کی جانب سے انہیں کنٹریکٹ کی آفر کی گئی جومیں نے قبول کرتے ہوئے فارم پُرکرکے واپس بھیج دیا لیکن اس کے باوجود انہیں شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی اطلاع دی گئی۔

قومی ٹیم کے نائب کپتان مصباح الحق نے بتایا کہ تمام کھلاڑیوں نے انفرادی طور پر آئی پی ایل سے کنٹریکٹ کررکھے ہیں لہذ ا یہ مسئلہ بورڈ ٹو بورڈ نہیں اٹھایا جاسکتا ۔ہمارا مطالبہ تو یہ ہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ آخر کس وجہ سے قومی کرکٹرز کو ایونٹ میں شرکت سے روکا جارہا ہے۔قومی کرکٹ ٹیم کے وکٹ کیپر کامران اکمل نے بتایاکہ اُن کا راجھستان رائلز ٹیم کے منیجر سے رابطہ ہوا ہے لیکن آئی پی ایل کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی راجھستان رائلز ٹیم کی انتظامیہ نے مجھ سے رابطہ کیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں قومی ٹیم کے سابق کپتان شعیب ملک کا کہنا تھا کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ پاک بھارت ٹینشن کی وجہ سے قومی کرکٹرز کو آئی پی ایل سے دوررکھا جارہا ہے جوکہ پروفیشنل کرکٹرز کے ساتھ ناانصافی ہے اور اگر پاکستانی کرکٹرز کو پیسے مل بھی جائیں تواس میں ہم پاکستانیوں کا فائدہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی کہتے ہیں کہ اپنا حق مانگاجائے لہذا ہم اپنا حق مانگ رہے ہیں۔

قارئین :اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستانی کھلاڑی پروفیشنل کرکٹرز ہیں اور آئی پی ایل نے ان کے ساتھ جومعاہدہ کررکھا ہے جس میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ کھلاڑیوں کو کسی بھی وقت بلاوجہ نکالا جاسکتا ہے۔کرکٹرز کو نکالے جانے کیلئے چاروجوہات کنٹریکٹ میں درج ہیں ”کسی مجرمانہ سرگرمی کا حصہ بننا“میچ فکسنگ کرنا“ڈسپلن کی خلاف ورزی اور ممنوعہ ادویات استعمال کرنے پر کھلاڑی کو برطرف کیا جاسکتا ہے لیکن قومی کھلاڑیوں نے ان میں سے کسی بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی مگر اس کے باوجود پاکستانی کھلاڑیوں کو ٹورنامنٹ سے دور رکھنا ،اُن سے رابطہ نہ کرنا اور ان کے بقایاجات ادا نہ کرنا نہ صرف غیر اخلاقی اور غیر قانونی اقدام ہے بلکہ اس سے بھارتی حکومت اور بھارتی کرکٹ بورڈ کا مسخ شدہ چہرہ بھی ایک بار پھر سامنے آگیا ہے۔

گوکہ پاک بھارت تعلقات خراب ہوچکے ہیں لیکن اس کاہرگز یہ مطلب نہیں کہ بھارتی کرکٹ بورڈ پاکستانی کھلاڑیوں کا مذاق اڑائے اور انہیں بغیر کسی وجہ کے ٹورنامنٹ سے آؤٹ کردے ۔اگر انڈین بورڈ یہ سمجھتا ہے کہ آئی پی ایل میں پاکستانیوں کھلاڑیوں کی ضرورت نہیں ہے تواُسے چاہیے کہ عزت سے پاکستانی کھلاڑیوں کے بقایاجات ادا کردے کیونکہ یہ پاکستانی کھلاڑیوں کا حق ہے جس سے انہیں محروم نہیں رکھا جاسکتا۔

مزید مضامین :