عریبئن کرکٹ کارنیول۔۔۔۔۔ بحرین میں کرکٹ کا پھلدار پودا لگا دیا گیا

Bahrain Cricket Carnival

بحرین میں ہونیوالی عرب کرکٹ لیگ کا آنکھوں دیکھا حال اعجازوسیم باکھری کی زبانی۔۔۔۔۔۔

Ejaz Wasim Bakhri اعجاز وسیم باکھری جمعہ 13 اکتوبر 2017

Bahrain Cricket Carnival
بین الاقومی سطح کے ایونٹس کی کوریج میرے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آسٹریلیا میں ون ڈے ورلڈ کپ، بھارت میں ون ڈے ورلڈ کپ، بھارت میں ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ، ایشیا کپ، چیمپئنزٹرافی، پاکستان سپرلیگ سمیت کبڈی کی ورلڈ لیگ اور بھارت میں کبڈی ورلڈ کپ جیسے بڑے لیول کے ایونٹس کی کوریج کا تجربہ حاصل ہوچکا تھا جب مجھے بحرین میں ہونیوالی عرب کرکٹ لیگ کی کوریج کی دعوت ملی۔

عریبئن کرکٹ کارنیول کو عرب کرکٹ لیگ کا نام بھی میں نے دیا، ایونٹ کے روح و رواں فہد عارف سے میں نے بحرین نیشنل سٹیڈیم کے پویلین میں پوچھا کہ زیادہ سے زیادہ کرکٹ فینز تک آپ کی کاوش پہنچانے کیلئے سوشل میڈیا کوریج کی حد تک عریبئن کرکٹ لیگ کوعرب کرکٹ لیگ لکھنے کی اجازت دیں تو فہد عارف نے مسکرا کر ہاں کردی مگر ان کی ہاں سے پہلے علی ملک بھی میری تائید کرچکے تھے جس پر فہد عارف کو سوشل میڈیا کوریج کیلئے عرب کرکٹ لیگ لکھنے کی اجازت صادر کرنا پڑی۔

(جاری ہے)


عالمی کرکٹ کے بڑے ایونٹس کی کوریج کا تجربہ ہونے کی وجہ سے میں نے بحرین کرکٹ لیگ کے پورے ایونٹ اور انتظامات کا موازنہ بڑے لیول کے ٹورنامنٹس سے بھی کیا اور فائنل تک یہ موازنہ کرتا رہا۔ گوکہ یہ ایک فٹبال گراؤنڈ تھا مگر جس طرح آرٹیفیشل وکٹ تیار کرکے گراؤنڈ کے چاروں اطراف باؤنڈری لگائی گئی اس سے آرگنائزنگ کمیٹی کی مثبت سوچ کی عکاسی دکھائی تھی اور پھر نیو سپورٹس اور بحرین سپورٹس ٹی وی کی شاندار پروڈکشن بھی متاثر کن تھی، مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ ٹورنامنٹ کے آغاز سے ایک یا دو روز پہلے گراؤنڈ آرگنائرنگ کمیٹی کو ملی تو ایسے میں محدود وقت میں جس طرح کے انتظامات کیے گئے ان کی تعریف نہ کی جائے تو نا انصافی ہوگی۔

بنیادی طور پر عریبئن کرکٹ لیگ ایک شروعات تھی ، اس سے پہلے گزشتہ سال یہ ایک روزہ کرکٹ فیسٹیول کا انعقاد کیا جاچکا تھا مگر ایک ٹورنامنٹ کے انعقاد بہت مشکل ہوتا ہے اور پھر روزانہ کی بنیاد پر دو میچز بھی مشکل مرحلہ ہوتا ہے لیکن یہ سب ایک پلاننگ کے ساتھ احسن طریقے سے انجام پایا کیونکہ آرگنائرنگ کمیٹی کا مقصد بحرین میں کرکٹ کو نئی زندگی دینا تھا، میں مختلف لوگوں سے اس کارنیول پر بات کرتا رہا اور مجھے مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ ایک امید بھی دکھائی دی کہ بحرین میں کرکٹ کھیلنے، دیکھنے اور کروانے کا شوق موجود ہے اور اب اسے حقیقت میں بدلنے کیلئے سنجیدہ کوششیں کی جارہی تھی جس کے مستقبل قریب میں ثمرات میں بھی ملیں گے۔


عریبئن کرکٹ کارنیول کے راؤنڈ میچز میں شائقین کی تعداد اتنی ہی تھی جتنا ابو ظہبی اور دبئی میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچز میں تھی۔۔ یہ بات تسلیم کر لینے میں کوئی قباحت نہیں کہ راؤنڈ میچز میں شائقین توقع سے کم تھے مگر خلیجی ریاستوں میں رہنے والے کرکٹ فینز کی مجبوریوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے اور یہ عرب ریاستوں کا وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی یہاں کرکٹ میچز ہوئے چاہے وہ اسی اور نوے کی دہائی میں شارجہ کپ ہو جس میں بڑے بڑے سٹار کھیلا کرتے تھے ، جمعرات، جمعہ اور ہفتہ کے روز ہی شائقین کی تعداد معمول سے زیادہ رہتی ہے۔

کیونکہ روزگار کی تلاش میں یہاں رہنے والے برصغیر کے باشندے ورکنگ ڈے پر دہاڑی ضائع کرنا افورڈ نہیں کرسکتے ، اس جواز کو جواز بنا کر میں عریبئن کرکٹ کارنیول کے راؤنڈ میچز میں شائقین کی کم تعداد پر سوال اٹھانے والوں سے سخت اختلاف رکھتا ہوں۔
عریبئن کرکٹ کارنیول کی کوریج کی دعوت مجھے کرکٹ تجزیہ کارعلی ملک کی جانب سے ملی، جنہوں نے اس ٹورنامنٹ کی تمام تر تفصیلات پہلے سے ہی میرے ساتھ شیئر کردیں اور بحرین کا سفر کرنے سے پہلے میں اس ٹورنامنٹ کو ایک عام سا ایونٹ تصور کر رہا تھا لیکن 29 ستمبر کو بحرین پہنچ کر انتظامات دیکھ کر، علی ملک کے ساتھ جڑے ان کے قریبی رفقاء سے مل کر مجھے یقین آگیا کہ اگلے نو دن بحرین میں کرکٹ کے لگنے والے نئے پودے کو پھولتے پھلتے دیکھنے کا بار بار موقع ملے گا اور یہاں وائٹ بال کرکٹ کو بھی ایک نئی زندگی ملنے لگی ہے۔


ٹورنامنٹ کی معاون کمیٹی کے سربراہ فہد صادق سے یہ میری پہلی ملاقات تھی ، ماضی میں بحرین میں ٹاپ لیول کی کرکٹ کھیلنے والا یہ نوجوان اب بحرین میں عالمی کرکٹ کی شروعات کے سنہری خواب دیکھ رہا ہے اور ان خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کیلئے بھارتی ریاست راجھستان کے منسٹر امین پٹھان کے ساتھ مل کر کئی برسوں سے کھڑے پانی میں پہلا پتھر پھینک کر پانی میں جو ہلچل مچائی ہے وہ آنے والے چند برسوں میں قد آور لہریں بن کر دنیا کو اپنی جانب متوجہ کروائیں گی۔

فہد صادق کی ٹیم تو درجن بھر سے زائد محنتی افراد پر مشتمل تھی لیکن ایونٹ کی تشہیر میں مرکوز جس ٹیم کے ساتھ مجھے نو دن گزارنے کا موقع ملا ان کے بارے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ جذباتی لڑکے ایک دن ضرور اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر رہیں گے۔
بحرین میں میرے میزبان اور پرانے رفیق علی ملک کے تین رفقاء جنہیں میں جذباتی لڑکے بھی کہوں تو شاید غلط نہ ہو گا، رانا شاہد ، نیبل ایوب اور میاں محمد شبیر کی ٹورنامنٹ کی کامیابی کیلئے کی گئی محنت میں شاید اس قدر ان کا پسینہ نہ نکلا ہو جتنا ان کی ایمانداری جھلکتی رہی۔

اور پھر اشفاق بٹ صاحب اورعمر طور کی خدمات بھی فراموش نہیں کی جا سکتیں۔ روزانہ ٹورنامنٹ کے دو راؤنڈ میچز کے اختتام کے بعد کسی پرائیوٹ کیفے یا ریستوران میں گپ شپ کی آڑ میں اگلے دن کی حکمت عملی ترتیب دینے کیلئے بیٹھک ہوتی تھی جس میں مجھے بھی بلاناغہ شرکت کا موقع ملتا رہا۔ جہاں عریبئن کرکٹ لیگ کو کامیاب بنانے والے روزانہ رات گئے تک اگلے روز کی حکمت عملی معمول کے ساتھ بنایا کرتے تھے وہیں اس ٹورنامنٹ میں پھوٹ ڈالنے، منفی پراپگنڈہ کرنے والے اور ٹورنامنٹ کے مرکزی ذمہ داروں کے کانوں میں غلط وسوسے ڈالنے والے بھی کم نہ تھے۔

مگرمجھے داد دینا ہوگی فہد صادق کی برادشت اورامین پٹھان کے اعتبار کو کہ دونوں نے منافقین کی باتوں پر کان دھرنے کی بجائے اپنے مقصد پر توجہ مرکوز رکھی اور دلچسپ امر یہ ہے کہ فہد صادق کے قریبی رفقاء جس میں علی ملک، رانا شاہد، نبیل ایوب اور محمد شبیر تھے وہ بھی چھوٹی چھوٹی سازشوں اور ایونٹ کو ناکام بنانے کیلئے کی گئی کوششوں کو جہاں ناکام کرتے چلے گئے وہیں میں نے بہت مواقع پر ان میں صبر بھی دیکھا اور یہی ان کی محنت اور دانشمندی تھی جسے دیکھ کر میرے جیسے غیرجانبدار فرد نے پیشن گوئی کہ یہ کارنیول دو سے تین برسوں میں ایک بہت بڑا فیسٹیول بن جائے گا۔


عریبئن کرکٹ کارنیول میں سنیل شیٹھی، جیکی شروف، محمد اظہرالدین، نیلم منیر، افتخار ٹھاکر، دیبا کرن ، عمران نذیر اور رانا نوید الحسن سمیت ویسٹ انڈیز کے ریکاڈو پاول، پیڈرو کولنز، سری لنکا کے دلہارا فرنینڈو، جنوبی افریقہ کے یوہان، پنجابی سنگرز مظہرراہی، فتح جیت سمیت پاکستانی سفیر جاوید ملک اور سی ای او اردوپوائنٹ ڈاٹ کام علی چوہدری ٹورنامنٹ کو سپورٹ کرنے کیلئے خصوصی طور پر بحرین اور پھرسٹیڈیم آئے جبکہ بھارتی ، سری لنکن اور برطانوی سفیروں کی شرکت بھی فائنل میں نمایاں تھی مگر شیخ خالد بن حمد کی فائنل پر آمد اور ایک گھنٹہ تک آخری اننگز کو دیکھنا قابل تعریف تھا۔

شاید میں اختتامی تقریب کے اس منظر کی توقع نہیں کررہا تھا مگر یہ آرگنائزنگ کمیٹی کی اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہوسکتی ہے کہ شیخ خالد بن حمد بحرین میں کرکٹ کو زندہ رکھنے والی معروف شخصیت عارف صادق صاحب کا ہاتھ پکڑ کر اختتامی تقریب میں کھڑے رہے اور ایوارڈ تقسیم کرتے رہے جس سے یہ پیغام واضح تھا کہ عارف صادق اور ان کی ٹیم کی جانب سے شروع کی گئی کرکٹ بحالی کوشش کامیاب رہی ہے اور اس کوشش کو مزید تقویت بخشنے کیلئے شیخ خالد کا وہاں پر موجود رہنا بھی ایک مثبت پیغام تھا ۔

اختتامی تقریب میں شیخ خالد کا سیلفیاں بنوانا اورمسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے فہد صادق اور امین پٹھان کے ساتھ قربت سے پیش آنے کی سادہ الفاظ میں تشریح کی جائے تو یہ بحرین میں کرکٹ کے کامیاب آغاز کا سرٹیفکیٹ تھا جو شیخ خالد نے اپنی موجودگی اور محبت سے جاری کردیا۔
گوکہ یہ ٹورنامنٹ کرکٹ سٹیڈیم میں نہیں ہوا لیکن اس ٹورنامنٹ سے ایک ایسی شروعات ضرور ہوئی ہے جو آنے والے دنوں میں لازمی طور پر ایک فیسٹیول کا روپ اختیار کریگی۔

ایونٹ آرگنائزنگ کمیٹی ٹیم میں جو جذبہ میں نے دیکھا، ایسی ایمانداری اور دل لگی میں نے کسی ٹورنامنٹ میں نہیں دیکھی، عریبئن کرکٹ لیگ کے ثمرات تب ملیں گے جب بحرین میں مکمل کرکٹ سٹیڈیم بنے گا اور کرکٹ سٹیڈیم کے حصول اور منظوری کی جانب یہ کارنیول پہلا مثبت قدم تھا اورشاندار کرکٹ مستقبل کی طرف یہ ٹورنامنٹ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا۔

مزید مضامین :