چیمپئنزٹرافی کیلئے قومی ٹیم کا اعلان ، آصف واپس ، رزاق ڈراپ

Champions Trophy K Liye Team Ka Elaan

شعیب اختر ،سلمان بٹ بدستورباہر،شعیب ملک ، یوسف اور مصباح کو آخری موقع دیا گیا پہلے راؤنڈ میں پاکستان کو ویسٹ انڈیز، بھارت اور آسٹریلیا کے خلاف جیت کر دوسرے راؤنڈ تک پہنچنا ہے

ہفتہ 22 اگست 2009

Champions Trophy K Liye Team Ka Elaan
اعجازوسیم باکھری: چیمپئنزٹرافی کرکٹ ٹورنامنٹ 22ستمبر سے جنوبی افریقہ میں شروع ہورہا ہے جس کیلئے دنیا کی آٹھ ٹاپ ٹیموں کے ناموں کا اعلان کیا چکا ہے اور جیت کی متمنی ٹیمیں بھر پور تیاری میں مصروف ہیں۔اس سلسلے میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی گزشتہ روز اپنی پندرہ رکنی ٹیم کا اعلان کردیا ہے جس میں حیران کن طور پر آل راؤنڈرعبدالرزاق کو ڈراپ کردیا گیا جبکہ اس سے کئی درجے ناکام آل راؤنڈ شعیب ملک کو سدھرنے کا ایک اور موقع فراہم کیا گیا۔

15رکنی پاکستانی ٹیم کا خاص بات کہ فاسٹ باؤلر محمد آصف ایک سال بعد ٹیم میں دوبارہ لوٹ آئے ہیں۔ شعیب اختر حسب معمول ٹیم کا حصہ نہیں ہیں جبکہ سست اوپنر بیٹسمین سلمان بٹ کو سری لنکا کے خلاف ون ڈے سیریز میں باہربٹھانے کے بعد اب چیمپئنزٹرافی میں بھی باہر بٹھادیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

چیمپئنزٹرافی ورلڈکپ کے بعد کرکٹ کی دنیا کا دوسرا بڑا ایونٹ ہے ، اگر چیمپئنزٹرافی میں ہونیوالے مقابلوں ،دلچسپی اور سنسنی خیزی کو دیکھا جائے تو یہ ورلڈکپ کے بعد نہیں بلکہ ورلڈکپ سے بھی بڑا ایونٹ ہے کیونکہ چیمپئنزٹرافی میں دنیائے کرکٹ کی آٹھ ٹاپ ٹیمیں شرکت کرتی ہیں جس میں نہ تو بنگلہ دیش ہوتی ہے اور نہ ہی کینیا ، کینیڈا ، ہالینڈ اور زمبابوے جیسی بور اور کمزور ٹیموں کو اس ایونٹ میں شرکت کی اجازت ہوتی ہے ۔

یہی ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں شائقین کو حقیقی ون ڈے کرکٹ کے مقابلے نظرآتے ہیں اور سب سے زیادہ سخت اور اعصاب شکن مقابلے دیکھنے کیلئے چیمپئنزٹرافی سے اچھااور کوئی ایونٹ نہیں ہے۔ اس بار چیمپئنزٹرافی میں شریک آٹھ ٹیموں کو دوگروپس میں تقسیم کیا گیا ہے اور گروپ اے میں پاکستان ، بھارت ، آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں شامل ہیں جبکہ گروپ بی ساؤتھ افریقہ ، انگلینڈ ، سری لنکا اور نیوزی لینڈ پرمشتمل ہے۔

پاکستان کوناک آؤٹ راؤنڈ تک رسائی حاصل کرنے کیلئے پہلے ویسٹ انڈیز جو کہ قدرے کمزور ٹیم ہے کے خلاف کامیابی حاصل کرنا ہوگی بعد میں بھارت یا آسٹریلیا میں سے کسی ایک ٹیم کو ہرانا ہوگا تب جاکر قومی ٹیم دوسرے راؤنڈ تک پہنچ سکتی ہے۔پاکستان کے اگر15 رکنی سکواڈ پر نظردوڑائی جائے تو ٹیم کے تمام کھلاڑی وسیع تجربے کے مالک ہیں اور جونوجوان کھلاڑی ٹیم میں شامل ہیں وہ اس وقت سب سے زیادہ فارم میں ہیں۔

تجربے اور ضرورت کے لحاظ سے دیکھا جائے پاکستان کو چیمپئنزٹرافی میں کامیابی حاصل کرنی چاہئے اور اگر ٹیم ٹرافی نہیں جیت سکتی تو کم از کم فائنل یا سیمی فائنل تک ہرصورت میں رسائی حاصل کرنی چاہئے کیونکہ ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ جیتنے کے بعد ٹیم سری لنکا جاکر بری طرح پٹ گئی اور ٹیم کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی اور اگر دوسرے پہلوکا جائزہ لیا جائے تو آئی سی سی سمیت تمام دنیائے کرکٹ میں پاکستان کو ہرطرح سے تنہا کیا جارہا ہے اور سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد دنیا کی کوئی بھی ٹیم پاکستان آنے پر راضی نہیں اور آئی سی سی اور بھارتی کرکٹ بورڈ نے گٹھ جوڑ کرکے دوسال پہلے ہی 2011کے ورلڈکپ کی میزبانی بھی پاکستان سے چھین لی ہے۔

بیرونی دنیا کا مقابلہ کرنے کیلئے اور اپنے ہاں کرکٹ کو دوبارہ زندہ کرنے کا ایک ہی طریقہ اور حل ہے کہ پاکستانی ٹیم بڑے بڑے ٹورنامنٹس میں کامیابی حاصل کرے کیونکہ جب ٹیم لگاتارفتوحات حاصل کرنا شروع کردیگی اور پاکستان ریکنگ میں پہلے نمبرپر ہوگا تب دنیا کی ہرٹیم پاکستان کے ساتھ کھیلنے کی خواہشمند ہوگی یہی بھارتی ٹیم بھی پاکستان کے ساتھ دوبارہ میچز کھیلنے پر مجبور ہوجائے گی اگر پاکستانی ٹیم بڑے بڑے ٹورنامنٹس میں فتوحات حاصل کرتی ہے تو پاکستان کرکٹ کی قسمت اور نقشہ بدل جائیگا لیکن یہ قومی ٹیم پر منحصر ہے کہ وہ قوم کی توقعات اور پاکستان کی ضرورت کو کس حد تک سنجیدگی سے لیتے ہیں اور کس قدر ذمہ داری سے کرکٹ کھیلتے ہیں کیونکہ ہماری ٹیم کا یہ المیہ ہے کہ ایک دن اچھا کھیل پیش کرکے اگلے روز ہاتھ پاؤں پھول جاتے لہذا ٹیم کو اپنے اندر جان پیدا کرنا ہوگی اور حالات اور وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے دلیرانہ کرکٹ کھیلنا ہوگی کیونکہ اب پاکستان کرکٹ کا تمام تر مستقبل ٹیم کی کارکردگی سے وابستہ ہے کیونکہ اب پاکستان کے اندر بین الاقومی کرکٹ کے امکانات کئی سال کیلئے مخدوش ہوچکے ہیں لہذا آنے والے کرکٹرز میں ہمت و جذبہ اب صرف اور صرف ٹیم کی فتوحات ہی ڈال سکتی ہیں ، ویسے تو جب کراچی ،لاہور ، پشاور ، ملتان ، فیصل آباد ، راولپنڈی اور حیدرآباد میں انٹرنیشنل کرکٹ میچز کھیلے جارہے ہوتے ہیں تو ان کا براہ راست اثر نوجوان کھلاڑیوں پر پڑتا ہے کیونکہ اپنے ہوم گراؤنڈز پر جب وہ انٹرنیشنل سٹارز کو کھیلتے ہوے دیکھتے ہیں تو ان میں بھی جذبہ پیدا ہوتاہے کہ وہ پاکستان کی نمائندگی کریں اس سے کرکٹ فروغ حاصل کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد اب انٹرنیشنل کرکٹ کے تو دروازے بند ہوچکے ہیں لیکن ایک ہی ذریعہ بچا ہے وہ قومی کرکٹ ٹیم ہے جس کی کامیابیاں ہی پاکستان میں کرکٹ کو اور کرکٹ میں پاکستان کو زندہ رکھ سکتی ہیں۔

سو امید ہے کہ قومی ٹیم سری لنکا میں ہونیوالے تلخ تجربات کو بھلاکر ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ والے جذبے کے ساتھ چیمپئنزٹرافی میں شرکت کریگی اور ایک بار پھر اپنی قوم کو سرفخر سے بلند کرنے کا موقع فراہم کریگی۔

مزید مضامین :