دبئی سپورٹس سٹی کرکٹ سٹیڈیم: حُسن اور جدت کا شہکار

Dubai Sports City Cricket Stadium

شہرسے دورتعمیرکیے گئے سٹیڈیم کو دیکھتے ہیں لارڈز اور ایم سی جی کا گمان ہوتا ہے گالف،فٹبال،ہاکی،رگبی،ٹینس ،سوئمنگ ،والی بال اور اتھلیکٹس کے بین الاقومی سٹیڈیمز اورکورٹس نے دبئی سپورٹس سٹی کو چارچاند لگادئیے

بدھ 25 نومبر 2009

Dubai Sports City Cricket Stadium
اعجازوسیم باکھری: دبئی سپورٹس سٹی کرکٹ سٹیڈیم عالمی کرکٹ میں ایک جدید اورخوبصورت سٹیڈیم کے لحاظ سے ایک شانداراضافہ ہے۔شہرسے دور سپورٹس سٹی سٹیڈیم کو دیکھتے ہی لارڈز اور ایم سی جی کا گمان ہوتا ہے۔جس طرح اس سٹیڈیم کا بیرونی منظرقابل دید ہے اس سے کہیں بڑھ کر سٹیڈیم کا اندرونی حصہ خوبصورت اور دیکھنے کے لائق ہے۔سپورٹس سٹی سٹیڈیم کو آسٹریلوی طرز پربنایا گیا ہے کیونکہ عصرحاضرمیں کرکٹ کے بہترین سٹیڈیم آسٹریلیا میں موجود ہیں جس کی ایک کاپی دبئی سپورٹس سٹی میں تعمیر کی گئی ہے۔

سپورٹس سٹی کرکٹ سٹیڈیم میں 25ہزارشائقین کے بیٹھنے کی گنجائش ہے تاہم اضافی سیٹوں کی بدولت تعداد کو30ہزارتک بڑھایا جاسکتاہے۔سٹیڈیم میں موجودپویلین میں کرکٹرز کو بین الاقومی معیار کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں ،دوران میچ کھلاڑیوں کے باہربالکونی میں بیٹھنے کی وسیع جگہ ہے جبکہ پویلین میں بیٹھ کر بھی کھلاڑی پورے گراؤنڈ کو دیکھ سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

میں نے قذافی سٹیڈیم کا ڈریسنگ روم دیکھ رکھا تھا لیکن جب دبئی سپورٹس سٹی کا ڈریسنگ روم دیکھا تو عقل دنگ رہ گئی کیونکہ اُسے ایسے جس عالی شان طریقے سے ڈیزائن کیا گیا ہے جوکہ کم از کم پاکستان میں ایسا ڈریسنگ روم اب تک نہیں تیار نہیں کیا جاسکا۔سپورٹس سٹی میں جیسا کہ میں نے پہلے اپنے سفرنامے میں بتایا تھا کہ وہاں ایک ”بار“موجود ہے جو رائل باکس ،وی آئی پی باکس،گولڈ باکس،لگژری باکس اورکارپوریٹ باکسز کے مہمانوں کو محظوظ کرتی ہے۔

وی آئی پی اور گولڈ باکسز ایک ساتھ موجود ہیں جہاں 100سے زائد مہمانوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ لگژری باکسز کی تعداد 24اور 17ہائی کوالٹی کارپوریٹ باکس ہیں۔بال شیپ میں تعمیر کیے گئے سٹیڈیم کے کسی بھی حصے میں بیٹھ کر آپ کو انتہائی واضع اور نزدیک نظارہ دیکھنے کوملتا ہے کیونکہ سٹیڈیم کی شیپ ہی ایسی بنائی گئی ہے کہ ایک اینڈ سے دوسرے اینڈپرموجود شائقین اور فیلڈرز آپ کو واضع نظرآتے ہیں۔

گراؤنڈ کی لمبائی کم ہونے کی وجہ سے تقربیاً بیشترچھکے شائقین میں گرتے ہیں۔سپورٹس سٹی سٹیڈیم کی چھت کا نام ”ریم روف“رکھا گیا ہے اور یہاں فلڈلائٹس کے ٹاورز کی بجائے ریم روف یعنی چھت پرچاروں اطراف سے لائٹس نصب کی گئی ہیں جن کی تعداد350 ہے۔ماہرین نے یہ شیپ اس لیے استعمال کی کیونکہ دبئی سپورٹس سٹی کی انتظامیہ کی خواہش تھی کہ گراؤنڈ میں نصب لائٹس قدرتی روشنی کا منظرپیش کریں جس کے پیش نظر ٹاورزنصب کرنے سے گریز کیا گیا اور 350 لائٹس سے کھلاڑیوں کا سایہ تک محسوس نہیں ہوتا اور اگر سٹیڈیم کے اندر بیٹھ کر فلڈلائٹس کا نظارہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ قدرتی روشنی میں میچ کھیلا جارہاہے۔

دبئی سپورٹس سٹی کی تعمیر میں آئی سی سی کا بھی اہم کردار ہے جبکہ سٹیڈیم کو ڈیزائن کرنے کا کریڈٹ بین الاقومی کنسٹریکشن کمپنی GMPکو جاتا ہے، دبئی اتھارٹی نے جی ایم پی کواولمپک سٹیڈیم برلن کی ری کنسٹریکشن کو شانداراورجدید طریقے سے سرانجام دینے کے بعد کرکٹ سٹیڈیم کی ذمہ داری سونپی جسے جی ایم پی نے توقعات سے بڑھ کر شانداز انداز میں ڈیزائن کیااور خوبصورت بنایا۔

سٹیڈیم کی تعمیرپرکل300ملین درہم خرچ ہوئے جوکہ اب تک کرکٹ کی تاریخ میں ایم سی جی ،لارڈز اور ایڈن گارڈن کولکتہ کی تعمیر کے بعد دوسری بڑی رقم ہے۔دبئی سپورٹس سٹی کرکٹ سٹیڈیم کا میڈیا باکس بھی اپنی مثال آپ ہے۔ لارڈز طرز پر بنائے گئے میڈیا باکس میں صحافیوں کو جدید ترین سہولیات فراہم کی گئی ہیں ،100 سیٹوں پر مشتمل میڈیا باکس میں6 ملٹی میڈیا سکرینیں نصیب ہیں، میڈیا باکس رائل باکس اور دائیں ڈریسنگ روم کے اوپرجبکہ وی آئی پی باکس کے ساتھ بنایا گیا ہے۔

تیسرے فلورپرموجود میڈیا باکس میں انٹری صرف لفٹ کے ذریعے رکھی گئی ہے تاہم ضرورت کے وقت سٹرھیاں استعمال کرنے کا آپشن بھی موجود ہے۔میڈیاباکس میں صحافیوں کی سہولیات کیلئے ہائی سپیڈ انٹرنیٹ چوبیس گھنٹے میسر رہتا ہے جبکہ صحافیوں کی خدمت کیلئے 10کے قریب ویٹرزہمہ وقت باکس میں موجود رہتے ہیں۔ دبئی سپورٹس سٹی میں کرکٹ کے بین الاقومی سٹیڈیم کے ہمراہ انٹرنیشنل ہاکی سٹیڈیم، فٹبال سٹیڈیم، ملٹی پرپزانڈور سٹیڈیم، 18ہولزپر مبنی خوبصورت گالف کورس اور ملٹی پرپزآؤٹ ڈور سٹیڈیمز کی تعمیرآخری مراحل میں ہے۔

اس کے علاوہ دبئی سپورٹس سٹی میں آئی سی سی کا ہیڈکوارٹر،آئی سی سی کی گوبل کرکٹ اکیڈمی، ورلڈہاکی، گالف اور رگبی اکیڈمیاں جبکہ مانچسٹریونائٹیڈ کا فٹبال سکول اور ان سب کے الگ الگ گراؤنڈزبھی موجود ہیں۔ملٹی پرپزآؤٹ ڈور سٹیڈیم میں رگبی اور فٹبال کے بین الاقومی میچز کے علاوہ اتھلیکٹس کیلئے اولمپک ٹریک بھی تعمیر کیا گیا ہے جبکہ انڈور سٹیڈیم میں باسکٹ بال ،والی بال، ہینڈبال ،ٹینس اورآئس ہاکی کے کورٹ بنائے گئے ہیں۔

دبئی سپورٹس سٹی میں جدیدطرز پرایک رہائشی کالونی کی تعمیربھی آخری مراحل میں ہے جبکہ خوبصورت شاپنگ مال، سوئمنگ پول اور پارک کی تعمیرپرکام تیزی سے جاری ہے۔دبئی اتھارٹی نے حالیہ عرصے میں شروع کی جانیوالی میٹروٹرین کا ایک سٹیشن دبئی سپورٹس سٹی میں بھی بنانے پر کام شروع کردیا ہے تاہم ابھی تک سپورٹس سٹی یا ایمریٹس روڈ کے روٹ پر ٹرین نہیں جاتی البتہ اگلے ایک سال کے عرصے میں انتظامیہ ٹرین کو سپورٹس سٹی تک لیجانے کا عہد کرچکی ہے۔

فی الحال دبئی سپورٹس سٹی پہنچنے کیلئے ذاتی سواری اور ٹیکسی کے علاوہ تیسرا کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ آرٹی اے بسوں کا سپورٹس سٹی کی جانب ابھی تک کوئی روٹ مرتب نہیں کیا گیا ۔شائقین کی سپورٹس سٹی میں عدم دلچسپی کا سب سے بڑا پہلو بھی یہی ہے کہ وہاں لوکل بسیں نہیں جاتیں ،آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان افتتاحی سیریز کے موقع پر ”بردبئی بس سٹیشن “سے خصوصی بسیں شروع کی گئی تھیں لیکن اس بارنیوزی لینڈ اور پاکستان کی ٹونٹی ٹونٹی میچز کی سیریز میں ایسی کوئی سہولیات کا انتظام نہیں کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود جمعرات اور جمعے کے روز ہونیوالے دونوں ٹونٹی ٹونٹی میچز پر شائقین کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور اپنے پسندیدہ کھیل سے لطف اندوز ہوئے۔

دبئی سپورٹس سٹی کی انتظامیہ کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں کہ اس نئے جدید سٹیڈیم میں پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے مابین سیریز کا انعقاد کرایا جائے تاہم بھارتی بورڈ اور ان کی حکومت اس پر راضی نہیں ہورہی ہے البتہ جنوری کے ماہ میں پاکستان اور بھارت کی ہاکی ٹیمیں دبئی سپورٹس سٹی میں ایک دوسرے مدمقابل آسکتی ہیں اگر بھارتی ٹیم نے انکار کیا تو ہالینڈ اور پاکستان یہ سیریز کھیلیں گے ۔

دبئی سپورٹس سٹی میں اگلی کرکٹ سیریز کے حوالے سے انتظامیہ پاکستان اور انگلینڈ کے مابین فروری میں سیریز کرانے کا پروگرام تشکیل دی چکی ہے اور اگر انگلش ٹیم نے انکار کردیا تو جنوبی افریقہ کو دعوت دی جائے گی۔دبئی سپورٹس سٹی کی انتظامیہ کی کوشش ہے کہ یہاں ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ جیسا بڑا ایونٹ یا پھر چند بڑی ٹیموں کے مابین ایک ٹورنامنٹ کرایا جائے تاکہ شارجہ کے بعد دبئی کرکٹ کا گھر بن سکے تاہم انتظامیہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے اس کافیصلہ آنے والے شب و روز کریں گے۔

مزید مضامین :