چیمپئنزٹرافی میں سفارشی کھلاڑیوں کی بجائے جیت کا جذبہ رکھنے والوں کو شامل کیا جائیگا،اعجاز بٹ

Ejaz Butt Interview

فی الحال ایوان صدر مجھ سے مطمئن ہے لیکن میں اپنے آپ سے مطمئن نہیں ،ملکی کرکٹ بہتر ی کی طرف جارہی ہے میں پریس کانفرنس میں کچھ کہتا ہوں ، لوکل میڈیا کچھ شائع کرتا ہے،چیئرمین پی سی بی کا ”اردوپوائنٹ ڈاٹ کا م “کو خصوصی انٹرویو

بدھ 12 اگست 2009

Ejaz Butt Interview
انٹر ویو :اعجازوسیم باکھری: پرویز مشرف کے ساتھی نسیم اشرف کے استعفیٰ کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ میں ایک تجسس نے جنم لیا کہ پی سی بی کا اگلاچیئرمین ہوگا ، اس تجسس نے کئی روز تک میڈیا اور دیگر عوام کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا بالآخرصدر زرداری نے اکتوبر 2008ء میں سابق ٹیسٹ کرکٹراعجاز بٹ کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا نیا چیئرمین منتخب کردیا۔اعجاز بٹ نے پاکستان کی جانب سے 8ٹیسٹ میچز میں حصہ لیا ہے اور وہ طویل عرصے سے کرکٹ سے وابستہ ہیں۔

وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا سیکرٹری رہنے کے ساتھ ساتھ لاہور کرکٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین بھی رہے اور نسیم اشرف کے دور میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی گورننگ باڈی کی سینئر ترین رکن بھی تھے۔اعجازبٹ نے ابھی اپنے عہدے کا چارج نہیں سنبھالا تھا کہ کرکٹ بورڈ میں استعفوٰں کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ چل پڑا ۔

(جاری ہے)

سب سے پہلے پاکستان کی پہلی تنخواہ دار سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین صلاح الدین صلواپنے منصب سے مستعفی ہوئے تو ان کے بعد سابق کوچ اور ڈائریکٹر اکیڈمی مدثر نذر نے بھی حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اپنا عہدہ چھوڑ دیا جبکہ ندیم اکرم ،شفقت نغمی سمیت دیگر بڑے عہدیدارکے مستعفیٰ ہونے سے قبل ہی گھر بھیج دیا گیاجبکہ گورے کوچ جیف لاسن کو بھی واپسی کی راہ دیکھناپڑی۔

اعجاز بٹ کی جانب سے چیئرمین کے عہدے کا چارج حاصل کرتے ہی انہیں آغاز ہی سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑااور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔وہ 70سال کی عمر میں حالات کا مسائل کا سخت مقابلہ کررہے ہیں اور تاحال انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور دیکھنے میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بٹ صاحب کیلئے یہ بحران اور مسائل کوئی معنی نہیں رکھتے، اسی مثبت سوچ کی وجہ سے وہ معاملات کو ٹھیک کرنے کی انتھک محنت کررہے ہیں اور ان کا عزم ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہونگے ۔

گوکہ عبدالقادر اور عامر سہیل جیسے بڑے نام انہیں چھوڑ کرچلے گئے لیکن اعجازبٹ نے حالات کے آگے سرخم کرنے کی بجائے مزاحمت جاری رکھنے کا عہد کررکھاہے۔ایک طویل عرصے ”اردوپوائنٹ “کے قارئین کی جانب سے اعجازبٹ کے انٹرویو کی فرمائش کی جارہی تھی جوکہ مناسب طریقے سے تو پوری نہیں ہوپائی لیکن اس کے باوجود اعجازبٹ کی جانب سے دئیے جانیوالے کم ٹائم میں بہت سی باتیں ہوئیں ۔

پی سی بی کے ہیڈکوارٹر قذافی سٹیڈیم میں ہونیوالی گفتگو کے آغاز میں چیئرمین پی سی بی نے کہاکہ آئی سی سی کی میٹنگ میں پاکستان کے مفاد میں کیا فیصلے ہوئے وہ اس بارے میں فی الحال کچھ بتانے سے قاصر ہیں ۔گورننگ بورڈ کی میٹنگ کے بعدمیڈیا کو حقائق سے آگاہ کیا جائیگا کہ کیس واپس لینے سے پاکستان کو کتنا بڑا فائد ہ حاصل ہوگا ،ہم نے ابھی تک کیس واپس نہیں لیا ، کیس واپس لینے کے حوالے سے میڈیا میں گردش کرنیوالی خبریں من گھڑت ہیں ، حقائق اس سے بالکل مختلف اور مثبت ہیں ۔

چیئرمین پی سی بی کا کہنا تھا کہ 13اگست کو گورننگ بورڈ کی میٹنگ میں سلیم الطاف اور یاورسعید کی تبدیلی کا ایجنڈشامل نہیں ہے بلکہ یہ اجلاس خالصتاً ورلڈکپ 2011ء کے حوالے سے پی سی بی کا آئی سی سی کے خلاف کیس واپس لینے کے فیصلے کی توثیق کیلئے طلب کیا گیا ہے۔سری لنکا میں قومی ٹیم کی شکست کی بنیادی وجہ بیٹسمینوں کی ناکامی تھی ، اس ناکامی کی کھوج لگانے کیلئے میں ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑیوں سے ملاقات کرونگا اور یہ بات کہنا قبل ازوقت ہے کہ ٹیم مینجمنٹ میں تبدیلی کی جائیگی یا نہیں۔

سینئرکھلاڑیوں کی ناکامی کے بارے میں اعجاز بٹ نے کہاکہ ”انشاء اللہ چیمپئنزٹرافی میں اُن کھلاڑیوں کو کھلایا جائیگا جو ٹیم کے مفاد میں ہونگے، سفارشی اور نااہلوں کی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ آئی سی سی کی جانب سے میچ فکسنگ پر پاکستان کو کلین چٹ دئیے جانے کے سوال پر اعجازبٹ نے کہاکہ ”آئی سی سی کے بیان پرپاکستانی ٹیم پر میچ فکسنگ کے الزامات لگانے والوں کو منہ کی کھانی پڑی۔

انہوں نے کہاکہ عبدالقادر اورسرفراز نواز حقیقت سے ہٹ کر بات کرتے ہیں اورایک سچ چیز کو جھوٹے میں بدلنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔عبدالقادر ایک عظیم کھلاڑی اور قومی ہیرو ہیں میں ان کی تہہ دل سے عزت کرتا ہوں ،لیکن انہیں اس طرح کی افواہیں پھیلانا زیب نہیں دیتا۔میچ فکسنگ کیس کی تحقیقات کرانا کسی بھی کرکٹ بورڈ کے بس کی بات نہیں ہے ، یہ کام آئی سی سی کا انٹی کرپشن یونٹ کرتا ہے جس نے پاکستانی ٹیم کو کلیئرنس دیدی ہے۔

ہمارے ہاں اپنے ہی ملک کے خلاف پروپگنڈا کیا جاتا ہے ،ہمیں ہمسایہ ملک کے سابقہ کھلاڑیوں اور میڈیا سے حب الوطنی کا سبق حاصل کرنا چاہئے۔چلیں عبدالقادر اور سرفرازنواز کو میچ فکسنگ کے بارے میں کچھ پتہ نہیں، البتہ توقیر ضیاء کی باتوں سے مجھے حیرانی ہوئی جس کا اظہار میں نے اپنا بیان جاری کرکے کیا ۔کرکٹر بورڈ کو چلانے میں ناکام ہوگئے ہیں،کے سوال کے جواب میں اعجازبٹ نے طویل خاموشی کے بعد جواب دیا کہ ”اس بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا، آپ خود اندازہ لگالیں ، اپنی مدت ملازمت میں ہونیوالے کاموں سے مطمئن ہیں کے سوال کے جواب میں چیئرمین پی سی بی نے کہاکہ ”نہیں وہ مطمئن نہیں ہے ، ہمیں مزید بہتر نتائج دینے چاہیے تھے ،ہمارے ہاں میڈیا مثبت تنقید کرنے کی بجائے منفی پہلوؤں کو ہوا دیتاہے ،اگر کوئی مثبت تنقید کرے اور ہمیں مناسب گائیڈ لائن دے توہم مزید بہتر کام کرسکتے ہیں۔

عامرسہیل کے استعفیٰ کے بارے میں کہاکہ”بالکل یہ بات غلط ہے کہ میں وسیم باری کی باتوں پر عمل کرکے عامر سہیل کی باتوں کو نظرانداز کرتا تھا،عامر نے بہت پہلے ہی استعفیٰ دیدیا تھا لیکن میری درخواست پر وہ کام کرتا رہا ، وہ ایک اچھے کرکٹینگ مائنڈ کا مالک ہے لیکن اگر اُسے کوئی شکایت بھی تھی تو وہ بجائے میڈیا میں پبلک کرتا مجھے آکر کہتا شاید اس کی ناراضگی دور ہوجاتی۔

دبئی میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز کی آمدن کا پیسہ تاحال نہ ملنے کے بارے میں انہوں نے کہاکہ ”یہ بات بالکل جھوٹ پر مبنی ہے کہ ہمیں پیسہ نہیں ملا یارقم ڈوب گئی ہے۔ہم نے ایڈوانس میں وسیع رقم لے رکھی ہے اور معاہدے کی چالیس فیصد رقم بھی ہمیں ادا ہوچکی ہے اور بہت جلد باقی رقم بھی آجائیگی۔پاکستان میں غیر ملکی ٹیموں کی آمد کے سوال کے جوا ب میں چیئرمین پی سی بی نے کہاکہ”لبرٹی حملے کے بعد یہاں کوئی ٹیم آنے پر راضی نہیں ہے ، بنگلہ دیش اور زمبابوے بھی آنے کیلئے راضی نہیں ہیں ،لیکن آئی سی سی کے فیوچر ٹور پروگرام میں پاکستانی ٹیم کے پاس کافی کرکٹ موجود ہے اور جب تک حالات یہاں ٹھیک نہیں ہوتے قومی ٹیم پاکستان سے باہر کرکٹ کھیلنے میں مصروف رہے گی۔

ٹونی گریگ کی جانب سے ورلڈالیون کو پاکستان لانے کی آفر کے سوال کے جواب میں اعجازبٹ نے کہاکہ”جی ہاں ، ٹونی گریگ نے پی سی بی کو آفر کی تھی کہ انہیں ایک بلین رقم دی جائے وہ یہاں بڑے بڑے سابقہ سٹارز کو لائے گا اور کرکٹ کھیلی جائیگی ، حقیقت یہ ہے کہ وہ محض پیسہ بنانے کیلئے ایسا کہہ رہا تھا کیونکہ وہ پہلے ہی سے دو کرکٹ بورڈ ز سے رقم بٹور چکا ہے بعد میں کہا جاتا ہے کہ میں کیا کروں کھلاڑیوں نے آنے سے انکا ر کردیا، لہذا ہم نے ٹونی کی آفر کو قبول نہیں کیا ۔

اعجازبٹ نے مزید کہاکہ پی سی بی کے مارکیٹنگ اور میڈیا کیلئے ڈائریکٹرز کے عہدوں کیلئے آسامیاں خالی ہیں اور ان پر انٹرویو جاری ہے ، دونوں جگہوں کیلئے ڈائریکٹرز کی سخت ضرورت ہے اور ممکن ہے اسی ماہ دونوں عہدیداروں کا انتخاب کرلیا جائیگا۔ میڈیاکے ساتھ بات نہ کرنے اور صحافیوں سے دور رہنے کی کیا وجہ ہے کہ سوال کے جواب میں چیئرمین پی سی بی کا کہنا تھا کہ ”میں معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ پی سی بی کے حوالے سے پاکستانی میڈیا میں گردش کرنیوالی 90فیصد خبروں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جس کا مجھے افسوس ہے۔

ہمارے ہاں میڈیا کے افراد خبرکی تصدیق کرنے کی بجائے مقابلہ بازی میں اپنی طرف سے الفاظ جوڑ لیتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ، میں پریس کانفرنس میں کچھ کہتا ہوں اور میڈیا کچھ شائع کرتا ہے ، میری طرف سے بتائی ہوئی حقیقت کو چھپایا جاتا ہے ۔اگر میڈیا والے میری بتائی ہوئی باتوں کو من و عن شائع کریں تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہرہفتے یا دس دن بعد میڈیا بریفنگ ہوا کریگی لیکن شرط یہ ہے کہ آپ حقائق پر چلیں ۔

ایوان صدر آپ سے مطمئن نہیں اور سننے میں آرہا ہے کہ آپ کو تبدیل کیا جارہا ہے کہ سوال کے جواب میں اعجازبٹ نے مسکراتے ہوئے کہاکہ ”یہ بھی آپ کے میڈیا کی چہ میگوئیاں ہیں ، میں ایوان صدر کی جانب سے یہاں تعینات کیا گیا ہوں اور ان کو مجھ پر مکمل اعتماد ہے ، جب اُن کا اعتماد اٹھ جائیگا اور صدر صاحب کہہ دیں گے تو میں یہ آفس چھوڑ دونگا لیکن فی الحال مجھے یقین ہے کہ ایوان صدر مجھ سے مطمئن ہے۔

مزید مضامین :