”حکومتی بے حسی کی انتہا“

Hakomat Behassi Ki Inteha

جب جونیئر سکوائش چیمپئن نے محلے میں چپس بیچنا شروع کردیے نوجوان جونیئرسکوائش چیمپئن حیدرعلی کی دردناک کہانی

منگل 24 جولائی 2007

Hakomat Behassi Ki Inteha
اعجا ز وسیم باکھری: گزشتہ کئی سالوں سے یہ رٹ بار بار لگائی جارہی ہے کہ پاکستان تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہا ہے اور ہم ترقی پذیر ممالک کی صف میں شامل ہوچکے ہیں۔ہماری ”روشن خیال “عتدال پسند اور ”ترقی یافتہ“حکومت کے اہلکار اخبارات اور ٹی وی پر بیٹھ کر چیخ چیخ کر یہ صدائیں لگا رہے ہیں کہ ہم ماضی کے مقابلے میں بہت آگے تک سفر کرچکے ہیں ۔

اور تو اور ”اسلام کے ٹھکیدار”اور پاکستانی عوام کے ہر “دلعزیزلیڈر“جنرل پرویز مشرف بھی ہرجگہ بڑے فخریہ انداز میں یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ”ہم اب مانگنے والوں میں سے نہیں دینے والے والوں میں سے ہیں“میں صدر صاحب کی اس بات سے قطعی اتفاق نہیں کرتا ۔ کیونکہ حقیقت کیا ہے میرے سمیت سبھی پاکستانی جانتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی خوشحالی کا اندازہ اس کی تفریحی کاموں میں دلچسپی سے لگایا جاتا ہے اور اگر اسی زاویہ سے پاکستان کی ترقی کا اندازہ لگایا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہم سوائے بے حیائی کے دیگر تمام تر شعبوں میں الٹے قدموں پر چل رہے ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان کی اندرونی صورتحال اور لوگوں کی خوشحالی کا اندازہ ا س بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ بھوک سے اپنے شیرخوار سمیت خودکشی کررہے ہیں جبکہ چوریاں ڈاکیتیاں ہربدلتے دن کے ساتھ اپنے گزشتہ روز کے سارے ریکارڈ توڑ رہی ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آج سے دس بارہ سال قبل پاکستان کے لوگ خوشحال زندگی بسر کررہے تھے اور یہ مثال اس وقت اس حقیقت کی عکاس تھی کہ ”ایک کماتا ہے تو سارے کھاتے ہیں“لیکن آج سارے کماتے ہیں تو (چندبھی )بمشکل سے کھا پاتے ہیں۔

دس سال قبل یا اس سے چند برس پہلے کے حالات پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان خوشحالی اور امن میں مست تھا۔ملک میں کھیلوں اور تفریحی کا بول بولا تھا پاکستان کی سبھی ٹیمیں اپنے حریفوں کیلئے چیلنج کا درجہ رکھتی تھیں کرکٹ، ہاکی ،سکوائش ،کشتی اور سنوکر میں پاکستان عالمی چیمپئن تھا جس کی بڑی وجہ ملک کا خوشحال ہونا تھا مگر آج صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ دو عالمی کپ مقابلوں میں قومی کرکٹ ٹیم مسلسل دوسری بار پہلے راؤنڈ سے آگے نہیں جا سکی ،ہاکی میں چیمپئنزٹرافی ، اولمپک اور ورلڈکپ کے کوارٹرفائنل تک رسائی حاصل کرنا ایک خواب بن چکا ہے جبکہ سکوائش کی تنزلی اور کھلاڑیوں کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسوروتا ہے ۔

چندبرس قبل برٹش اوپن کے مالک سمجھے جانیوالے جہانگیر خان اور جان شیر خان کے ہی ملک کا ایک نوجوان جونیئر نیشنل چیمپئن حیدر علی اپنے حالات ، ماں کی بیماری اور گھریلو معاشی مجبوریاں سے تنگ آکر بڑے بڑے اور نامور لوگوں کے ہاتھوں وصول کی جانیوالی ٹرافیاں جو اس نے ٹینس کورٹ میں جیتی تھیں وہ سبھی ”بے کار اور بے فائدہ “قرار دیکر ان ٹرافیوں کو بیچ کر محلے میں چپس بیچنے کیلئے مشین خریدلی اور آلوکے چپس لگانے شروع کردیے۔

اس کے محنتی اور با ٹیلنٹ ہاتھوں سے تیار ہونے والے چپس اس قدر لذید ٹھہرے کہ اس کو لوگ جونیئر سکوائش چیمپئن کی حیثیت سے کم ”لذیذآلوکے چپس والے “کی حیثیت سے زیادہ جاننے لگے۔اس کے لذیذ چپس کے چرچے اخبارات اور ٹی وی پر پہنچے تو چند ”ملک دشمن“صحافی دوستوں نے حیدرعلی جونیئر سکوائش چیمپئن کی غربت سے تنگ آکر ٹرافیاں بیچنے اور حکومتی بے حسی کے خبریں چلا ئیں تو نجانے کیسے وزیراعظم پاکستان جناب شوکت عزیز کی نظر اس خبر پرپڑی اور اللہ جانے کیسے ان کی دل میں محب وطن وزیراعظم نے جوش مارا اور اسی دن ہی حیدر علی کو ملازمت دینے کے احکامات جاری کردیے۔

شاید وزیراعظم نے یہ کام جلداز جلد اس لیے کیا کہ کہیں یہ خبر ورلڈبنک تک نہ پہنچ جائے کیونکہ اس سے پاکستان کے بچے کچھے امیج کے متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔اس بات کا بھی ڈر تھاکہ جب یہ خبردنیا سنے گی کہ جونیئر سکوائش چیمپئن نے اپنے جیتی ہوئی ٹرافیاں بیچ کر آلوکے چپس بنانے والے میشن خرید لی تو پاکستانی کی حقیقت سب پر عیاں ہوجائے گی۔ورنہ تو عام زندگی میں کئی حیدر علی مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن انکی کوئی سننے والا نہیں ہے۔

پاکستان میں تمام کھیلوں اور کھلاڑیوں کی ترقی کیلئے جاری ہونیوالا فنڈ زکہاں جاتا ہے اور نجانے اس کا استعمال کیسے اور کہاں کیا جاتا ہے کوئی اس بات سے واقف نہیں ۔اگر فنڈز کا استعمال صحیح طریقے سے ہوتا تو آج پاکستان میں کھیلوں اور کھلاڑیوں کایہ حشر نہ ہوتا۔پاکستان سکوائش فیڈریشن میں ایسے لوگ بیٹھے ہیں جوسکوائش کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ آج سکوائش کی عالمی درجہ بندی میں ڈھونڈنے سے بھی پاکستانی کھلاڑیوں کا نام نہیں ملتا۔

جس طرح حکومت تمام ترشعبوں میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے اسی طرح کھیلوں میں بھی پاکستان اپنے زوال کے عروج پرپہنچ چکا ہے۔اس سے بڑا زوال اور کیاہو گا؟۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھیئے کہ حیدرعلی نے پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے سکوائش کورٹ پر جیتی ہوئی ٹرافیاں بیچ کر آلوکے چپس بنانے کی مشین خریدی۔وہ ہاتھ جن میں کبھی جان شیر خان اور جہانگیر خان کا تھمایا ہوا سکوائش ریکٹ ہوا کرتا تھا آج وہ ہاتھ آلوکاٹنے پر مجبور ہیں۔

وہ آنکھیں جوکل برٹش اوپن میں پاکستان کا جھنڈا سب سے بلند مقام پردیکھنا چاہتی تھیں آج وہ تپتی دھوپ میں پانچ روپے کا چپس کا پیکٹ بیچنے کیلئے گاہگوں کی منتظر ہیں۔کیا ملاہے حیدر علی کو جونیئر سکوائش چیمپئن بن کر؟ کیا یہ حکومت کی عظمت ہے کہ جو فوری طور پر حیدر علی کو نوکری دے دی؟؟؟ لعنت ہے ایسی عظمت ( greatness)پر اور ایسے اقدامات پر اور ایسے احکامات پر جو انسان کو ذلیل کرنے کے بعد جاری کیے جاتے ہیں۔

شرم آنی چاہیے ایسی حکومت کو بھی اور ایسے حکومتی کارندوں کوبھی جو… ترقی… ترقی… ترقی… کی رٹ لگائے ہوئے ہیں ۔اور شرم آنی چاہیے ایسے کھیلوں کا سربراہان کو بھی جو فنڈز بچوں کی شاپنگ اوراپنی عیش و عشرت پرخرچ کرکے غریب اور نادار کھلاڑیوں کا حق مار کرنہ صرف پاکستان سے غداری کررہے ہیں بلکہ اپنی اولادوں کو حرام کھلا کر اپنے لیے جہنم کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔

مزید مضامین :