ہوبارٹ ٹیسٹ دوسراروز،بولنگ کے بعد پاکستانی بیٹنگ بھی فلاپ

Hobart Test Day 2

صفر پر کیچ ڈراپ کرنے پر پونٹنگ کا پاکستانیوں کو انعام ، ڈبل سنچری جڑ دی کیا پاکستان میں خرم منظور،فیصل اقبال ،شعیب ملک،مصباح اور فواد عالم سے اچھا ٹیلنٹ نہیں ہے ؟؟

جمعہ 15 جنوری 2010

Hobart Test Day 2
اعجازوسیم باکھری: پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین تین ٹیسٹ میچز کی سیریز کا آخری ٹیسٹ میچ ہوبارٹ میں شروع ہوچکا ہے اور میچ کے دوسرے روز کھیل کے اختتام پر پاکستان نے 94رنز بنائے تھے اور اس کے چار اہم بیٹسمین واپس لوٹ چکے ہیں۔اس سے پہلے آسٹریلیا نے پاکستان بولنگ لائن کا خوب بھرکس نکالنے کے بعد اپنی اننگز کو 519رنزآٹھ کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے پر ڈیکلیئرکرکے پاکستان پر ایک طرح کا احسان کیا کیونکہ آسٹریلیا کی آخری دو وکٹیں بھی سوسے زائد بنالیتی ہیں جوکہ ہم سڈنی میں دیکھ چکے ہیں۔

آسٹریلیا کی جانب سے کپتان رکی پونٹنگ نے پاکستانی فیلڈرز کی کوتاہیوں کا بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کیرئیر کی پانچویں اور پاکستان کے خلاف دوسری ڈبل سنچری جڑ دی۔پونٹنگ نے صفر پر محمد عامر کے ہاتھوں کیچ گرائے جانے کاپاکستانیوں کو ڈبل سنچری میں انعام دیا ۔

(جاری ہے)

رکی پونٹنگ کے ساتھ ساتھ مائیکل کلارک نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے166رنز کی شاندار اننگز کھیلی جبکہ ٹیل اینڈرز میں بریڈہیڈن نے بھی 41رنز کی برق رفتاراننگز کھیل کریہ ثابت کردیا کہ پاکستانی باؤلرز کے بس کی بات نہیں کہ وہ آسٹریلوی بیٹسمینوں کو پریشان کریں حالانکہ سیریز کے پہلے دونوں ٹیسٹ میچز میں پاکستانی باؤلرز نے آسٹریلوی بیٹسمینوں کو نکیل ڈال کررکھی تھی اور اس حد تک پاکستانی باؤلرز آسٹریلوی ٹیم پر حاوی آچکے تھے کہ پاکستان سڈنی ٹیسٹ جیتنے کی پوزیشن میں آچکا تھا لیکن نہ تو وہاں کامیابی حاصل کی گئی اور نہ ہی ہوبارٹ ٹیسٹ میں اپنی شاندار بولنگ کا تسلسل جاری رکھا جاسکا۔

آج کھیل کے اختتا م پر پاکستان کے چار کھلاڑی صرف 94رنزپر واپس لوٹ چکے ہیں ان میں عمران فرحت ، خر م منظور،محمد یوسف اور عمر اکمل شامل ہیں۔سلمان بٹ اور شعیب ملک اس وقت وکٹ پر موجود ہیں اور پاکستانی ٹیم کی کارکردگی سے واضح نظرآرہا ہے کہ پاکستان یہ میچ اننگز کی شکست سے ہار جائیگا کیونکہ بولنگ میں جس طرح پاکستانی باؤلر تھکے تھکے نظرآئے اور پھربیٹسمینوں نے جس غیرذمہ داری سے بیٹنگ کی اس سے واضع ہوگیا ہے کہ میچ پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا اور اب صرف رسمی کارروائی باقی ہے۔

یہ پاکستانی ٹیم کا خاصہ رہا ہے کہ کبھی یہ ٹیم بہت عمدگی سے کھیلتی ہے اور کبھی زمبابوے اور بنگلہ دیش کے معیار سے بھی کمتر کھیل پیش کرتی ہے۔تیسرا ٹیسٹ میچ جاری ہے اور حکمت عملی ابھی تک واضع نہیں ہوئی کہ پاکستانی ٹیم کس حکمت عملی کے تحت وہاں کھیل رہی ہے، بیٹسمینوں کو دیکھ لیں جو غلطیاں پہلے ٹیسٹ میں کیں وہی غلطیاں آخری ٹیسٹ میں بھی کی جارہی ہیں ، فیلڈرز نے جس طرح وسیع پیمانے پر پہلے میچ میں کیچز ڈراپ کیے تھے وہی سب کچھ آخری ٹیسٹ میں ہورہا ہے۔

سلیکشن کا معیار دیکھ لیں۔سمیع دوسال بعد ٹیم میں واپس آئے اور آسٹریلوی ٹیم کو دیوار کے ساتھ لگا دیا لیکن تیسرے ٹیسٹ میں اُسے ڈراپ کردیا گیا ، سمجھ نہیں آرہی کہ وہاں پر ٹیم مینجمنٹ کے لوگ ہوش میں فیصلے کررہے ہیں یا ان کی عقل پر پردہ پڑچکا ہے کہ ایک ایسا باؤلر جس کی خطرناک گیندوں نے آسٹریلوی بیٹسمینوں کو دفاعی حکمت عملی اپنانے پر مجبور کردیا تھا اسے ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا اور عمرگل جو کہ مسلسل ناکام چلا آرہا ہے اسے باربار کھلایا جارہا ہے،شعیب ملک کو مصباح الحق کی جگہ کبھی شامل کیا جاتا ہے اور کبھی مصباح الحق کو شعیب ملک کی جگہ کھلایا جاتا ہے ، کبھی فیصل اقبال کو خرم منظور کی جگہ اور کبھی خرم منظور کو فیصل اقبال کی جگہ ،کیا پاکستان میں ان چار کھلاڑیوں کے متبادل نہیں ہیں جو آپس میں ان کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔

پاکستان کرکٹ بہت ترقی کرسکتی ہے اور اس ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے ، اگر پی سی بی میں بیٹھے لوگ اپنی نیت ٹھیک کرلیں اور پاکستان کرکٹ کی ترقی کو اپنا نصب العین بنا لیں تو پاکستان ٹیم کی کارکردگی میں نمایاں تبدیلی آسکتی ہے ۔فیصل اقبال چونکہ جاوید میانداد کے بھانجے ہیں اس لیے انہیں ٹیم میں رکھنا سلیکٹرز اور پی سی بی کی مجبوری ہوتی ہے ،خرم منظور پر شاید خود ہی سلیکٹرز مہربان ہیں کہ انہیں ناقص کارکردگی کے باوجود ٹیم میں شامل کیا ہوا ہے ، شعیب ملک کو دیکھ لیں ، موصوف نسیم اشرف کے دو ر میں کپتان بنے تھے لیکن ان کی ذاتی کارکردگی اس وقت بھی غیر معیاری تھی اور اب جب وہ کپتان نہیں رہے تب بھی وہ اپنی کارکردگی کو بہتربنانے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔

مصباح الحق ایک زمانے میں بڑے بیٹسمین سمجھے جاتے تھے کیونکہ انہیں انضمام الحق کے متبادل کے طور پر ٹیم میں شامل کیا گیا تھا اور اپنے کیرئیر کے ابتدائی ایام میں مصباح نے ثابت بھی کیا کہ وہ ایک بڑا بیٹسمین ہے لیکن پھر آہستہ آہستہ ان کی کارکردگی کا گراف گرتا چلا گیا اور اب نوبت یہ آچکی ہے کہ مینجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی شاید اسے آخری موقع کے طور پر ٹیم میں شامل کیے ہوئے ہیں۔

مجھے فواد عالم کی بھی سمجھ نہیں آتی کہ وہ نہ کھیلتے ہیں اور جب کھیلتے ہیں تو بہت ہی برا کھیلتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ گزشتہ دوسال سے ٹیم کا حصہ ہیں اور ہر دورے پر ا ن کی سیٹ کنفرم ہوتی ہے۔حالیہ دنوں کا جائزہ لیں تو موصوف ابوظہبی میں بلاوجہ ٹیم کے ساتھ نتھی تھے،دبئی کے دونوں ٹونٹی ٹونٹی میچز میں بھی فارغ بیٹھے رہے، نیوزی لینڈ میں بھی ان سے کوئی کام نہیں لیا گیا اور آسٹریلیا پہنچ کر ٹیم نے پہلا ٹیسٹ بھی ان کی خدمات لیے بغیر کھیلا اور پھر ٹیم مینجمنٹ کو خیال آیا کہ وہ ایک بے کار سے کھلاڑی کو ساتھ لیے ہوئے ہے ،پھر اچانک اُسے واپس کراچی بھیج دیا گیا لیکن یہاں آتے ہی نجانے فواد عالم نے کونسا جادو کیا کہ آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے اور ٹونٹی ٹونٹی ٹیموں میں اپنا نام شامل کرا لیا اور وہ اب ایک دو دن بعد دوبارہ سے آسٹریلیا پرواز کرجائیں گے ۔

ایک طرف پاکستان کرکٹ بورڈ یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا کہ ہم انصاف کے تقاضے پورے کررہے ہیں تو دوسری جانب وہی چلے ہوئے کارتوس بار بار چلائیں جارہے ہیں اور جو اہل کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں دھکے کھا رہے ہیں وہ دلبرداشتہ ہوچکے ہیں کہ ہمارا قصور کیا ہے اور کیا وجہ ہے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے۔دوسری جانب پاکستان کرکٹ ٹیم کے بزرگ کوچ انتخاب عالم نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اپنی زندگی میں ا ب تک میں نے پاکستان کی جن ٹیموں کے ساتھ کام کیا ہے ، موجودہ ٹیم کی فیلڈنگ سب سے خراب ہے ۔

پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ گراس روٹ لیول پر فیلڈنگ کو سیریس نہیں لیا جاتا۔ ریجن اور ڈپارٹمنٹ کو فیلڈنگ کے معیار میں بہتری لانے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے ۔ بورڈ سپیشلسٹ فیلڈنگ کوچ مقرر کرنا چاہتا ہے تو کرلے اس ٹیم میں فیلڈنگ کا سپیشلسٹ کوچ بھی فرق نہیں ڈال سکتا۔انتخاب عالم صاحب چلیں جو بھی ہے سپیشلسٹ کے آنے سے فرق پڑے نہ پڑے لیکن وہ کھلاڑیوں میں فیلڈنگ کا شوق پورا ضرور کرلے گا اور امید ہے جب آپ لوگ پاکستان ٹیم کی جان چھوڑیں گے یہ ٹیم کم از کم اس طرح کم ہدف کے تعاقب میں نہ تو معمولی سکور پر ڈھیر ہوگی اور نہ ہی فیلڈنگ میں ایک دن میں پانچ پانچ کیچز گرائے جائیں گے۔

مزید مضامین :