ہاکی فیڈریشن اورسابق اولمپئنزکی جنگ ، قومی کھیل تباہی کے دہانے پرپہنچ گیا

Hockey Federation Or Olyempian Ki Jang

پی ایچ ایف کی تنگ نظری، نوید عالم اور منصور پر پابند ی لگاکر اپنی ہی ترقی کے عمل کو سبوتاژکردیا قاسم ضیاء اور آصف باجوہ کو اپنا یہ وعدہ رکھنا چاہئے کہ پاکستان ہاکی میں جلد وہی مقام حاصل کریگا جو ہماری وجہ پہچان تھا

منگل 28 جولائی 2009

Hockey Federation Or Olyempian Ki Jang
تحریر:اعجازوسیم باکھری : ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے اور پاکستانی قوم کو کرکٹ کے مقابلے میں ہاکی کے کھیل میں زیادہ خوشیاں نصیب ہوئیں لیکن بدقسمتی سے اولمپک میں تین بار گولڈ میڈل اور چار بار ورلڈکپ جیتنے والی پاکستان ہاکی ٹیم ان دنوں عالمی رینکنگ میں آٹھویں نمبرپر موجود ہے۔کل تک ہرایونٹ میں اپنے اعزاز کا کامیابی سے دفاع کرنے والی گرین شرٹ ٹیم آج ہرایونٹ میں وکٹری سٹینڈ تک پہنچنے کا خواب دل میں لیے گھومتی ہے۔

ایک عشرہ پہلے گوری ٹیموں کے ہوش اڑانے والی ٹیم اب چین جیسی اپنی شاگرد ٹیم کے ہاتھوں بری طرح پٹ رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں بے پناہ کامیابی حاصل کرنیوالی ٹیم کوئی اور تھی اور آج شکستوں کے بھنور میں پھنسی ٹیم کوئی اور ہے۔وہ بھی پاکستانی ٹیم تھی اور آج بھی وہی پاکستانی ٹیم ہے۔

(جاری ہے)

فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں کھلاڑیوں اور فیڈریشن کے عہدیداروں کا ایک ہی مقصد تھا کہ پاکستان کو چیمپئن بنوانا ہے اورآج صورت حال یہ ہے کہ کھلاڑیوں میں جیت کا جذبہ ختم ہوچکا ہے اور فیڈریشن کے عہدیدار یا تو کرسی کے حصول کیلئے یا پھر اپنے اقتدار کے سورج کو” سوا نیزے“ پر برقرار رکھنے کیلئے کوشاں نظرآتے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان ہاکی کے کھیل میں اس قدر نیچے دب چکا ہے کہ بعض دفعہ ذہن یہ ماننے کو تیارہی نہیں ہوتا کہ کیا واقعی ہم ماضی میں اولمپک چیمپئن اور ورلڈچیمپئن بھی رہے ہونگے؟لیکن یہ سچ ہے کہ ہم نے ماضی میں ہاکی سلطنت پر راج کیا جس کا واضع ثبوت ہاکی کو قومی کھیل قراردیا جانا ہے لیکن بدقسمتی سے آج پاکستان ہاکی کی گرین شرٹ الزامات اور سیاست کی زد میں آکرمکمل طو رپر داغدار ہوچکی ہے اور اس حد تک میلی ہوچکی ہے کہ اسے دوبارہ اُسی گرین کلر میں واپس لانے کیلئے کئی سال درکار ہیں۔

پاکستان نے آخری بار1994ء میں ہاکی ورلڈکپ جیتا تھا اور اب 15سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد دوسری بڑی کامیابی کا انتظار ہورہا ہے اور نجانے مزید کتنا عرصہ اسی انتظار میں گزارنا ہوگا اور اگر پاکستان ہاکی فیڈریشن کی انتظامیہ اور ماضی کے اولمپئنز کے درمیان جاری سرد جنگ کی شدت کو مدنظررکھا کر مستقبل کیلئے کوئی پیشگوئی کی جائے تو دور دور تک پاکستان کسی بھی بڑے ایونٹ میں فاتح نظرنہیں آرہا کیونکہ یہ حدیث بھی ہے کہ جس گھر میں ہروقت لڑائیاں جھگڑے چلتے رہیں اُس گھرمیں برکت نہیں آتی ۔

یہی سب کچھ آج کل پی ایچ ایف میں ہورہا ہے ۔ایک طرف پی ایچ ایف کے صدر قاسم ضیاء اور سیکرٹری آصف باجوہ کہتے ہیں کہ وہ پاکستان ہاکی کو اُسی مقام پر لیجانا چاہتے ہیں جو ہماری وجہ پہچان تھا ۔دوسری جانب پی ایچ ایف سابق اولمپئنز پر پابندی لگا کرنئے سے نئے محاظ کھول رہی ہے کم از کم ایسی صورتحال میں تو پاکستان اُس مقام مقصود تک نہیں پہنچ سکتا جوہماری وجہ پہچان تھا۔

کیونکہ یہ دنیا کا دستورہے کہ ہمیشہ وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو ایک ساتھ ملکر چلتی ہیں اور وہ قومیں راستوں میں بھٹک جاتی ہیں یا پھر اپنی منزل کھودیتی ہیں جومختلف گروپوں میں تقسیم ہوکر چلتی ہیں۔پی ایچ ایف کی انتظامیہ نے گوکہ اچھے اقدامات کیے اور امید کی ایک نئی کرن دکھائی لیکن ”مدرآف ہاکی“ہونے کی وجہ سے پی ایچ ایف کوبڑے دل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو ایشوبنا کر اور خالصتاً ذاتی تنقیدکی طیش میں آکر پاکستان کیلئے پندرہ پندرہ سال تک اپنی جوانی ،اپنا خون اور اپنا سب کچھ عطاکرنے والے اولمپئنزپر پابندی سے گریز کرنا چاہئے تھا۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اگر پی ایچ ایف کے اعلیٰ عہدیدار تھوڑی سی بھی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے اور صبر اور تحمل سے کام لیا جاتا تو کم از کم پاکستان ہاکی کیلئے قاسم ضیاء اور آصف باجوہ کا اپنا ہی شروع کردہ ترقی کا عمل تو نہ رُکتا۔ گوکہ یہ بات درست ہے کہ نوید عالم اور منصوراحمد پی ایچ ایف کے سیکرٹری آصف باجوہ اور لاتعداد عہدوں کے مالک رانا مجاہد کے خلاف جوعلم بغاوت بلند کرچکے ہیں اُس سے پاکستان اور پاکستان ہاکی کی بدنامی ہورہی ہے اور ترقی کیلئے کئی جانیوالی کوششوں پر پانی پھرگیا ہے اور اختلافات کی اس چنگاری نے سب کچھ جلاکرراکھ کردیا ہے لیکن اگر ہاکی فیڈریشن اُنہیں بلاکر اُن کے ساتھ بات چیت کرتی اور اُن کے تحفظات دور کیے جاتے تو شاید حالات اتنے خراب نہ ہوتے لیکن شاید پی ایچ ایف کے بڑوں نے یہ سوچ رکھا ہے کہ وہ چند لوگوں کے ساتھ نظام کو اپنی مرضی سے کامیابی کی طرف چلاسکیں گے تو وہ غلطی پر ہیں کیونکہ نوید عالم پنجاب میں ہاکی کا ایک بڑا نام ہے اور منصور احمد وہ کھلاڑی ہے جس کی بے مثال گول کیپنگ کی بدولت پاکستان نے 94کا ورلڈکپ جیتاتھا اور اگر یہ کھلاڑی بیرون ملک چلے جائیں تو انہیں ہزاروں ڈالرز کے عوض معاوضہ ملتا ہے لیکن یہ لو گ اگرپاکستان میں رہ کر اپنے ملک کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پی ایچ ایف انہیں دور رکھنے کی کوشش کرتی ہے تویہ کسی بھی لحاظ سے درست سوچ ،اچھا عمل اور بہترین اقدام نہیں ہے۔

لہذا پی ایچ ایف کی اعلیٰ انتظامیہ کو اپنا دل بڑا کرنا چاہیے تھا اور اپنی سوچ کو وسیع کرکے ان لوگوں کی بات کو سننا چاہئے تھا اور ملکر چلنے کی کوشش کی جاتی ۔لیکن ہمارے پاکستانی معاشرے کی یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے میں سے جب بھی کوئی صاحب اعلیٰ اقتدار میں جاتے ہیں تو وہ سب کچھ بھول کر اپنی دنیا میں گم ہوجاتے ہیں اور وہ خود کو دنیا کو سب سے زیادہ سمجھ دار اور عاقل شخص سمجھتے ہیں ، اُس وقت اُسے وہی لوگ اچھے لگتے ہیں جو اچھی خوشامدکرنے کے گرُ جانتے ہو ں اور ہراچھی بری جھوٹی سچی بات پر ”جی بالکل “واہ واہ “اور ہاں جی ہاں جی “کرتے کرتے نہ تھکتے ہوں ۔

وہ صاحب اقتدار ایسے لوگوں کو اپنا دوست اور سچی اورکڑوی مگر حقیقت پر مبنی بات کرنے والوں کو اپنا حریف اور اپنی کرسی کا دشمن سمجھتا ہے اور جس کا نتیجہ عنقریب اُسی روایتی انداز میں سامنا آتا ہے کہ صاحب اقتدار کو بری طرح منہ کے بل گرنا پڑتا ہے اور جب ہوش آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ خوشامدی پارٹی تو سوا گھنٹہ پہلے ہی کی تیتر بیتر ہوگئی ہے۔

تب اُسے احساس ہوتا ہے کہ وہ غلطی پرتھالیکن تب تک کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔”خوشامدی کے منہ سے تعریف سن کر ڈھیر ہوجانا اور تلخ مگر سچی بات کرنے والے کو اپنا دشمن سمجھنا“ یہ ایک ایسا ناسورہے ہمارے معاشرے میں گہری تک پھیل چکا ہے جس سے چھٹکارہ نہیں پایا جاسکتا اور بجائے اس میں کمی واقع ہو یہ ناسور اپنی جڑیں ہرادارے اور ہرشعبے میں مزیدمضبوط کررہا ہے جس کے اثرات آزادی کے60سال بعدبھی ہماری ترقی کے تناسب میں دیکھے جاسکتے ہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے اور ہم وہیں کے وہیں پر کھڑے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ” اگر صبح کا بھولا شام کو لوٹ آئے تو اُسے بھولا نہیں کہتے ”اسی کہاوت کے مصداق پی ایچ ایف کی اعلیٰ انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ اپنی سوچ اور دل کو بڑا کرے اور اپنے ناراض ساتھیوں کو ساتھ کر لیکر چلے اور اُن کی شکایات کو دور کرے ۔وہ شکایات کیا ہیں ؟ پی ایچ ایف کی اعلیٰ انتظامیہ ان شکایات کے بارے میں مکمل طور پر آشنا ہے کہ آج کل اُس کے اعلیٰ عہدیداروں کے بارے میں کیا کیا باتیں اور کیا شکایتیں بازگشت کررہی ہیں۔ اس سب کے باوجود اب بھی امید اورہماری خواہش ہے کہ پاکستان ہاکی جلد تمام مسائل سے نکل کر ترقی کی جانب چل پڑے گی اور وہی مقام مقصود حاصل کرے گی جو ہماری وجہ پہچان تھا۔

مزید مضامین :