آسٹریلیا کی اِنڈیا سے تیسر ے ٹیسٹ میں جیت | چوتھا ٹیسٹ برابر

Ind Vs Aus

اس سیریز میں کامیابی کے بعد بھارت نے بھی ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل کیلئے آسٹریلیا کے ساتھ کوالیفائی کر لیا

Arif Jameel عارف‌جمیل منگل 21 مارچ 2023

Ind Vs Aus
اہم خبریں: ﴾ اِنڈیا اپنے ہوم گراؤنڈ پر آسٹریلیا سے 4ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے 2 ٹیسٹ میچ جیت چکا تھا۔ ﴾ تیسرے ٹیسٹ میں آسٹریلیاکی قیادت اسٹیون سمتھ نے کی۔کپتان پیٹ کمنز والدہ کی علالت کے باعث آسٹریلیا چلے گئے تھے۔ ﴾ تیسرا ٹیسٹ میچ ہماچل پردیش کرکٹ ایسوسی ایشن اسٹیڈیم کی نا مکمل تیاری کے باعث ہولکر کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ ﴾ چوتھے ٹیسٹ میں اِنڈیا کے مایہ ناز بیٹر ویرات کوہلی نے ایک عرصے بعد سنچری بنائی۔

﴾ چوتھے ٹیسٹ میں آسٹریلیا و اِنڈیا کے اوپنرز عثمان خواجہ اور شمبن گِل کے علاوہ آسٹریلیا کے کیمرون گرین نے بھی سنچری بنائی۔ ﴾ اس سیریز کے بعد چیمپئن شپ کے فائنل کیلئے آسٹریلیا کے ساتھ اِنڈیا نے بھی کوالیفائی کر لیا ۔ سیریز کا مختصر جائزہ: اِنڈیا بمقابلہ آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز کا جائزہ لیا جائے تو اولین اِنڈیا اس سیریز سے پہلے ہی گزشتہ3 ٹیسٹ سیریز سے آسٹریلیا پر حاوی تھا۔

(جاری ہے)

دوسرا اِنڈیا نے پہلی تین سیریز میں سے ایک اپنے ہوم گراؤنڈ اور دو آسٹریلیا کی سر زمین پر جیتی تھیں۔جسکا بھی آسٹریلیا پر دباؤ تھا۔تیسرا آسٹریلیا جسطرح چند روز پہلے اپنے ملک میں جنوبی افریقہ کو شکست دے کو اُچھل رہا تھا اِنڈیا میں مقابلے کی توقع کی جارہی تھی ۔لیکن اِنڈیا نے پہلے دو ٹیسٹ میچوں میں ہی اُنکی کمر توڑ دی اور ٹیسٹ میچ ایسے ختم ہو تے رہے جیسے ایک روزہ میچ ۔

3 دِن کے بھی کم عرصہ میں جسکو مستقبل کی کرکٹ میں اچھا نہیں سمجھا جارہا ۔ ایک اور اہم بات جو آخری ٹیسٹ میچ کے برابر ہو نے سے واضح ہو تی ہے کہ ٹیسٹ کے معیار سے زیادہ محددو اوورز کی کرکٹ کے رُحجان کے مطابق پچ بنا ئی جا رہی ہیں جن پر بیٹر شوق سے باؤلرز کو کھیلنے کی کوشش کرتا ہے لیکن دھوکا کھا کر وکٹ کھو دیتا ہے۔کیونکہ ٹیسٹ کرکٹ میں باؤلرز پر محدود اوور کرنے کا کوئی دباؤ نہیں ہوتا اور وہ چالاکی سے آؤٹ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

جبکہ محددود اوورز کی کرکٹ میں بیٹرز باؤلرز کو نہیں بخشتے۔ اس سیریز میں دونوں بڑی ٹیموں کے درمیان یہ سب کچھ نظرآیا ۔بس آسٹریلیا نے تیسرا ٹیسٹ جیت کر اپنی کچھ ساخت برقرار رکھ لی۔ اب اِن دونوں ٹیموں کا فائنل جون23ء میں دِی اوول،لندن میں کھیلا جائے گا۔دونوں ٹیموں کو اور خصوصاً بیٹرز کو اس بات کو سامنے رکھ کر پریکٹس کرنا پڑے گی کہ چیمپئین شپ کا یہ فائنل5دِن کا ٹیسٹ میچ ہے نہ کہ کوئی محددود اوورز کا فائنل میچ۔

اِنڈیا بمقابلہ آسٹریلیا تیسرے ٹیسٹ میچ میں دونوں ٹیمیں: اِنڈیا:روہت شرما( کپتان) ،کے شبمن گِل، چیتشور پجارا، ویرات کوہلی،رویندر جدیجہ، شریاس آئیر، سریکر بھارت، اکسر پٹیل، روی چندرن اشو ن، محمد سراج اور اُمیش یادیو آسٹریلیا : اسٹیون سمتھ(کپتان)، ٹرویس ہیڈ، عثمان خواجہ، مارنس لیبوشگن،پیٹرز ہینڈ زکومب، کیمرون گرین، الیکس کیری ،نیتھن لیون ، مچل اسٹارک، میتھیو کوہنیمن اور ٹوڈ مرفی ۔

تیسرا ٹیسٹ میچ: اِنڈیا بمقابلہ آسٹریلیا ہماچل پردیش کرکٹ ایسوسی ایشن اسٹیڈیم ،صوبہ ہماچل پردیش کے کانگڑا ضلع کے شہر "دھرم شالہ" میں کھیلا جانا تھا۔"دھرم شالہ" کو بین الاقوامی سطح پر تبت کے لیڈر دلائی لامہ کے گھر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ اس شہر کی وجہ شہرت سردیوں میں دارلخلافہ کے طور پر بھی ہے کیونکہ صوبہ ہماچل پردیش کا دوسرا مشہور شہر شملہ گرمیوں میں دارلخلافہ کہلاتا ہے۔

بہرحال وہاں کرکٹ گراؤنڈ کا انٹرنیشنل معیار کے مطابق تیارنہ ہونے پر 13ِفروری23ء کو اِنڈین کرکٹ بورڈ کی طرف سے تیسرا ٹیسٹ "ہولکر کرکٹ اسٹیڈیم " شہر "اندور" صوبہ مدھیہ پردیش منتقل کرنے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ یہ پہلے مہارانی اُشراجے ٹرسٹ کرکٹ گراؤنڈ کے نام سے جانا جاتا تھا۔2010ِ میں مدھیہ پردیش کرکٹ ایسوسی ایشن نے اس کا نام تبدیل کر کے مراٹھوں کے "ہولکر" خاندان کے نام پر رکھا جس نے اندور ریاست پر حکومت کی تھی۔

یہ دنیا کے سب سے چھوٹے بین الاقوامی کرکٹ گراؤنڈ میں سے بھی ایک ہے۔ تیسرا ٹیسٹ میچ شروع ہو نے سے پہلے ایک اہم خبر آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز کی آسٹریلیا کے شہر سیڈنی میں والدہ کی شدید علالت تھی جسکی وجہ سے وہ سڈنی چاچکے تھے ۔اُنکی جگہ کپتانی کے فرائض سابق کپتان اسٹیون سمتھ کو سونپ دیئے گئے تھے اور مچل اسٹارک کو متبادل کھلاڑی کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔

دوسری طرف اِنڈین ٹیم میں دو تبدیلیاں کی گئی تھیں ۔ اوپنر کے ایل راہول اور محمد شامی کی جگہ شبمن گِل اور اُمیش یادیو کو ٹیم کا حصہ بنایا گیا تھا۔ موسم کے اعتبار سے پچ بھی کچھ ایسی ہی تھی کہ دونوں سروں پر گھاس نہ ہونے کے برابر تھا۔ بس درمیان میں گھاس کا سبز رنگ ایک ٹکڑا واضح تھا ۔جس پر اِنڈین کپتان روہت شرما کو سیریز میں پہلی بار ٹاس جیتنے کے بعد بیٹنگ کرنے کے فیصلے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ ہوئی۔

لیکن پھر اوپنر روہت شرما سمیت کوئی بھی اِنڈین بیٹر آسٹریلین سپنرز کا سامنا نہ کر پایا اور اگلے تین گھنٹے سے بھی کم وقت میں اِنڈیا کی آل ٹیم 109 کے مجموعی اسکور پر ڈھیر ہو گئی۔ آسٹریلیا کی طرف سے 26 سالہ بائیں ہاتھ کے سپنر میتھیو کوہنیمن جو اپنا دوسرا ٹیسٹ کھیل رہے تھے اپنے ٹیسٹ کیرئیر کی ایک اننگز میں پہلی بار5وکٹیں لینے میں کامیاب رہے ۔

ساتھ میں نیتھن لیون نے 3اور ٹوڈ مرفی نے ایک کھلاڑی آؤٹ کیا۔ایک کھلاڑی محمد سراج رَن آؤٹ ہو ئے۔ آسٹریلین بیٹر ز کسی حد تک ضرور بیٹنگ کے دوران اِنڈین باؤلرز کے سامنے مزاحمت کرنے میں کامیاب رہے لیکن وہ بھی 197 کے مجموعی اسکور پر دوسرے دِن کے پہلے گھنٹے میں ہی پویلین لوٹ گئے۔ آسٹریلین اوپنر عثمان خواجہ 60 رنز بنا کر نمایاں بیٹر رہے اور اِنڈین باؤلر رویندر جدیجہ 4 کھلاڑی آؤٹ کر کے نمایاں باؤلر۔

اِنڈین ٹیم پر گو کہ پہلی اننگز میں آسٹریلیا کی88 رنز کی برتری تھی۔ پھر بھی ہوم کراؤڈ کو اپنی ہوم گراؤنڈ پر ٹیسٹ میں گرفت مضبوط کرنے کی اُمید نظر آرہی تھی۔لیکن دوسری اننگز میں آسٹریلین نامور سپنر نیتھن لیون نے 64 رنز کے عوض8 کھلاڑی آؤٹ کر کے پوری اِنڈین بیٹنگ لائن کو ڈھیر کر دیا ۔اِنڈیا کے بیٹر چیتشور پجارا صر ف بامشکل نصف سنچری بنا کر 59 رنز پر آؤ ٹ ہوئے۔

دوسری اننگز میں اِنڈیا کے مجموعی اسکور 163 رنز میں سے آسٹریلیا کی پہلی اننگز کی برتری 88 رنز کی تفریق کر کے آسٹریلیا کے پاس تیسرا ٹیسٹ جیتنے کیلئے صرف 76 رنز کا ہدف تھا جو تیسرے دِن کے آغاز میں ہی ایک کھلاڑی آؤٹ پر78 رنز بنا کر حاصل کر لیا۔ آسٹریلیا کو9 وکٹوں سے اس ٹیسٹ میں جیت سے چیمپئین شپ کے12پوائنٹس ملے اور فہرست پر باقاعدہ طور پر پہلی پوزیشن کے ساتھ چیمپئین شپ کیلئے کوالیفائی کر لیا۔

تیسرے ٹیسٹ کے مین آف دِی میچ ایک ٹیسٹ میں 10 وکٹیں لینے پر آسٹریلین سپنر نیتھن لیون ہوئے اور 4 ٹیسٹ میچوں کی سیریز اِنڈیا بمقابلہ آسٹریلیا 2 - 1 کے نتائج کے بعد چوتھے ٹیسٹ میچ کیلئے دِلچسپ ہو گئی۔ مختصر تجزیہ: تیسرے ٹیسٹ کے آغاز سے پہلے دوباتیں دِلچسپ رہیں اور کیا یہی آسٹریلیا کیلئے بہتر ثابت ہوئیں! کہا جا سکتا ہے ۔کیونکہ جسطرح پہلے دو ٹیسٹ میچوں میں اِنڈیا کی ہوم گراؤنڈپر اُنکی کارکردگی پر سوال اُٹھایا جارہا تھا اور اِنڈین ٹیم نے آسانی سے پہلے 2ٹیسٹ میچ تین دِن سے بھی کم عرصہ میں جیت لیئے تھے۔

آسٹریلیا کا چوتھے ٹیسٹ میں شاندار کم بیک کر نا تعریف کے قابل تھا۔وہ بھی 5روزہ ٹیسٹ کا 3دِن کے اندر ہی جیتنا۔لہذا پہلی دِلچسپ بات یہ رہی کہ جس گراؤند میں یہ ٹیسٹ میچ کھیلا جانا تھا وہاں سے منتقل کر کے ایک ایسے کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلا گیا جو دُنیا کے سب سے چھوٹے بین الاقوامی کرکٹ گراؤنڈ میں سے ایک ہے اور وہ اُنکو راس آگیا۔دوسری دِلچسپ بات آسٹریلیا کے سابق تجربہ کا ر کپتان اسٹیون سمتھ کا تیسرے ٹیسٹ میں قیادت کرنا ۔

اُنھوں نے پچ کے مطابق اپنے سپنرز کا بہترین استعمال کیا ۔ سپنرز میتھیو کوہنیمن اور نیتھن لیون بھی اُنکے اعتماد پر پورے اُترے۔کیونکہ اِنڈین ہو م گراؤند پر سپین لینے والی پچ پر اِنڈیا کو شکست دینا غیر معمولی کارنامہ کہلاتا ہے جو اُنھوں نے کر کے دِکھا دیا۔ چوتھا اور آخری ٹیسٹ میچ : ہرصورت دونوں ٹیموں کیلئے اہم تھا ۔اِنڈیا نے سیریز جیتنے کی کوشش کرنی تھی اور آسٹریلیا نے برابر کرنے کی۔

اِنڈیا 2۔1 سے آگے تھا۔آخری5دِن کا کرکٹ ٹیسٹ میچ 9 ِ مارچ23 ء کو دُنیا کے سب سے بڑے " نریندر مودی اسٹیڈیم ،احمد آباد ،اِنڈیامیں کھیلا گیا ۔اس اسٹیڈیم میں ایک لاکھ بتیس ہزار تماشائی بیٹھنے کی گنجائش ہے ۔اِنڈیا نے آخری ٹیسٹ کیلئے ایک تبدیلی کی محمد شامی کو ٹیم میں شامل کر کے محمد سراج کو آرام کروایا ۔جبکہ آسٹریلیا کے کپتان اسٹیو سمتھ نے تیسرے ٹیسٹ کی ٹیم کو ہی ترجیح دیا اور پھر اس سیریز میں آسٹریلیا نے تیسری مرتبہ ٹاس جیت کر بیٹنگ کرنے کو ہی اہمیت دی۔

نریندر مودی اسٹیڈیم کی پچ پہلے تین ٹیسٹ میچوں کے بالکل برعکس تھی۔ باؤلرز کو کنٹرول برقرار رکھنے اور بیٹر کو پریشان کرنے کیلئے سخت محنت درکار نظرآرہی تھی۔ بیٹرز کیلئے دفاعی انداز میں کھیلتے ہو ئے اچھی شارٹس لگا کر ایک بہترین اننگز کھیلنے کا موقع تھا جسکا پہلے دِن آسٹریلیا کے36 سالہ اوپنر عثمان خواجہ نے بھرپور فائدہ اُٹھایا اوردِ ن کے لمحات میں اپنے ٹیسٹ کیرئیر کی 14ویں ٹیسٹ سنچری بنا ڈالی ۔

اُنکی بیٹنگ کاسلسلہ دوسرے روز بھی جاری رہا اور 180کی انفرادی اننگز کھیل کر409کے مجموعی اسکور پر8ویں کھلاڑی آؤٹ ہو ئے ۔اُنکے بعد دِن کے اختتام سے کچھ پہلے آسٹریلیا کی آل ٹیم 480 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔آسٹریلیا کے دوسرے اہم بیٹر23سالہ آل راونڈر کیمرون گرین رہے جنہوں نے اپنے ٹیسٹ کیر ئیر کی پہلی ٹیسٹ سنچری بنا ئی اور114 رنز بنا کر آؤٹ ہو ئے تھے۔

اِنڈیا کی طرف سے پہلی اننگز میں روی چندرن اشو ن6 وکٹیں لیکر اہم باؤلر رہے۔ اِنڈیا کے بیٹرز کیلئے بھی اچھا موقع تھا کہ وہ اپنی ہوم گراؤنڈ پر شانداربیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ۔ یقینا اُنھوں نے بھی اسکا فائدہ اُٹھایا اور اگلے دودِن تک بیٹنگ کرتے ہو ئے 571 مجموعی اسکور بنا یا جس میں سابق کپتان ویرات کوہلی کے 186 رنز ، اوپنر شبمن گِل کے128 رنز اور ایکسر پٹیل 79 رنز شامل تھے۔

اِنڈیا کے پہلی اننگز میں9کھلاڑی آؤٹ ہوئے اور 10ویں کھلاڑی شریاس آئیر کمر کی انجیری کی وجہ سے بیٹنگ کر نے نہ آئے۔ آسٹریلیا کے باؤلرز میں سے نیتھن لیون اور ٹوڈ مرفی نے3،3وکٹیں حاصل کیں اور مچل اسٹارک، میتھیو کوہنیمن نے ایک ایک ۔اُمیش یادیو رَن آؤٹ ہوئے۔ اِنڈیا کے پاس پہلی اننگز میں 91 رنز کی برتری تھی اور آخری ٹیسٹ میچ کے آخری دِن میں اُنکی کوشش تھی کہ جلد ازجلد آسٹریلین ٹیم کو برتری کے دباؤ میں آؤٹ کر کے میچ فیصلہ کُن بنایا جا سکے۔

کیونکہ پچ کی صورت ِحال سپنرز کے حق میں نظر آرہی تھی۔صبح آتے ہی اشون نے پہلا کھلاڑی میتھیو کوہنیمن کو آؤٹ کر دیا جو نائٹ واچ مین کے طور پر اوپنر آیا تھا۔ اُس کے بعد سارا دِن آسٹریلیا کے دوسرے باقاعدہ اوپنر ٹرویس ہیڈ اور بیٹر ما رنس لیبوشگن نے اِنڈین باؤلرز کو ٹیسٹ اننگز کھیلتے ہو ئے تھکا دیا ۔ٹرویس ہیڈ 90 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے اور مارنس لیبوشگن نے ناقابل ِشکست63رنز بنا ئے۔

175 رنز 2کھلاڑی آؤٹ پر کپتان اسٹیون سمتھ نے آسٹریلین اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کیا تو ساتھ امپائیرز نے بھی ٹیسٹ میچ کے وقت ختم ہونے کا اشارہ دے دیا۔ چوتھا اور آخری ٹیسٹ میچ سیریز کے پہلا ٹیسٹ تھا جو 5ویں دِن میں داخل ہوا اور پھر برابر بھی ہو گیا۔ بارڈر گواسکر ٹرافی اِنڈیا نے چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز2۔1 سے جیت کر اپنے پاس ہی رکھی۔اِنڈیا اس ٹیسٹ سیریز سے پہلے بھی لگاتار 3ٹیسٹ سیریز میں آسٹریلیا کو شکست دے کر یہ ٹرافی جیت چکا ہے ۔

اُن میں سے پہلی سیریز اِنڈیا میں جیتی تھی اور باقی2 آسٹریلیا کی ہوم گراؤنڈ پر۔ لہذا 2017ء فروریء تا2023ء مارچ تک مسلسل چار ٹیسٹ سیریز میں اِنڈیا کی جیت میں ایک اہم بات یہ رہی کہ تمام سیریز4ٹیسٹ میچوں پر مشتمل تھیں اور تمام کا فیصلہ اِنڈیا کے حق میں 2۔1 سے ہوااور ہر سیریز کا ایک ٹیسٹ میچ برابر بھی رہا۔ آخری ٹیسٹ میں مین آف دِی میچ اِنڈیا کے بیٹر ویرات کوہلی ہو ئے اورپلیئر آف دِی سیریز اِنڈیا کے ہی باؤلر روی چندرن اشو ن قرار پائے۔

ٹیسٹ میچ برابر ہو نے کی وجہ سے دونوں ٹیموں کو چیمپئین شپ کے 4،4 پوائنٹس ملے۔جسکے بعد فہرست پر پہلے نمبر پر آسٹریلیا اور دوسرے نمبر اِنڈیا تھا۔ مختصر تبصرہ: چوتھے ٹیسٹ کے آغازسے ہی محسوس ہو رہاتھا کہ ٹیسٹ میچ کا نتیجہ مشکل ہی نکلے گا۔کیونکہ پچ بیٹرز کی مرضی کی تھی ۔زیادہ تر وکٹیں بھی سپنرز کے حصے میں آئیں لیکن بیٹرز کو کھیلنے میں کہیں کوئی خاص دُشواری نظر نہ آئی۔

لہذا اس ٹیسٹ کی ایک ہی خصوصیت اہم رہی وہ تھی ایک لمبے عرصے 3سال 3مہینے17دِن بعد اِنڈیا کے34 سالہ سابق کپتان ویرات کوہلی کی اپنے کیرئیر کے108 ویں ٹیسٹ میچ میں 28 ویں ٹیسٹ سنچری۔ حُکم کے اِکے کا تیر آخرکار تُکے کی صورت میں اس پچ پر لگ گیا ۔ تیسرے ٹیسٹ میں آسٹریلیاکے اوپنر عثمان خواجہ کی سنچری اور اننگز بھی قابل ِتعریف رہی۔اِن دونوں کے علاوہ آسٹریلیا کی طرف سے کیمرون گرین کی پہلی سنچری اور وہ بھی غیر ملکی دورے پریادگار رہے گی۔

اُنھوں نے ہر گیند کو ایک ماہر بیٹر کی طرح کھیل کر اپنی ذمہدداری نبھائی۔ اِنڈیا کی طرف سے ایک اور اہم سنچری 23 سالہ اوپنر شبمن گِل کی رہی جنکوں تیسرے ٹیسٹ میں اس سیریز کا حصہ بنایا گیا اوراس چوتھے ٹیسٹ میں اُنھوں نے اپنی دوسری ٹیسٹ سنچری بنائی۔اِن چاروں سنچریوں میں ایک بات مشترک تھی کہ بیٹرز نے سپنرز کو نہایت اعتماد سے کھیلتے ہوئے ٹیسٹ اننگز کی مناسبت سے شارٹش لگائیں ۔ چیمپئین شپ کی فہرست میں آسٹریلیا کے بعد دوسرے نمبر پر اِنڈیا ہے اور اُسکی فائنل تک کیسے رسائی ممکن ہو ئی؟ آخری سیریز نیوزی لینڈ بمقابلہ سری لنکا کے بعدموسم ِبہار23ء کی ٹیسٹ سیریز کے تجزیئے میں بیان کیا جائے گا۔لہذا : "آگے کھیلتے ہیں دیکھتے ہیں اور ملتے ہیں "

مزید مضامین :