آئی پی ایل دوسرا ایڈیشن ،عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام

Ipl Dosra Edition

ٹورنامنٹ انتظامیہ کرکٹ کے فروغ کو پس پشت ڈال کر پیسہ بنانے میں مشغول کولکتہ نائٹ رائیڈرز کی ناکامیاں شاہ رخ خان کو لے ڈوبیں،راجھستان رائلز کا عمدہ کھیل

جمعرات 30 اپریل 2009

Ipl Dosra Edition
اعجاز وسیم باکھری: انڈین پریمیر لیگ کرکٹ ٹورنامنٹ کا دوسرا ایونٹ ان دنوں نیوٹرل وینیو جنوبی افریقہ میں جاری ہے ۔ایونٹ کے پہلے دس دن میں گزشتہ برس کی چیمپئن راجھستان رائلز اور رنراپ چنائی سپرگنگز کی کارکردگی کچھ زیادہ بہتر نظر نہیں آئی اور گزشتہ ایونٹ کی سیمی فائنلسٹ کنگز الیون پنجاب کو بھی اپنے ابتدائی دونوں میچزمیں شکست کھانا پڑی جبکہ شاہ رخ خان کی کولکتہ نائٹ رائیڈرز بھی کافی مشکلات کا شکار تھی تاہم حیران کن طور پر راجھستان رائلز،چنائی سپر کنگ اور کنگزالیون پنجاب کی ٹیموں نے کم بیک کیا اور نہ صرف اپنی شکستوں پر کنٹرول کرکے فتوحات کی راہ لی بلکہ پوائنٹس ٹیبل پر بھی نمایاں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں ہیں البتہ شاہ رخ خان کی کولکتہ نائٹ رائیڈرز کا ستارہ گردش میں ہے اور پے در پے شکستوں نے بالی ووڈ کے عظیم فلمی ہیرو کو مایوس کردیا ہے اور سننے میں آیا ہے کہ شاہ رخ خان اپنی ٹیم کی ناکامیوں پر اس قدر دلبرداشتہ ہوچکے ہیں کہ انہوں نے اپنی ٹیم کے بقیہ میچز نہ دیکھنے کافیصلہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

جہاں ایونٹ میں بڑی ٹیمیں اور بڑے نام ناکام ثابت ہورہے ہیں وہیں آئی پی ایل کے دوسرے ایڈیشن میں شائقین کرکٹ کی دلچسپی بھی زیادہ نظر نہیں آرہی ۔بالخصوص جنوبی افریقی سرزمین پر آئی پی ایل کرانے کا تجربہ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکا جس کی بنیادی وجہ افریقی شہریوں کی سٹیڈیم جاکر میچز دیکھنے سے گریز کرنا ہے حالانکہ قوانین کے مطابق ہرٹیم میں دوجنوبی افریقی کھلاڑیوں کو کھلایا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود آئی پی ایل کا دوسراایڈیشن وہ عوامی پذیرائی حاصل نہیں کرپایا جوپہلے ایڈیشن کو ملی تھی ۔

آئی پی ایل کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ اس ٹورنامنٹ نے کرکٹ میں انقلاب برپاکردیا ہے حالانکہ آئی پی ایل (آئی سی ایل )کی نقل ہے ۔سابق بھارتی کپتان کپل دیو کے زیر سایہ شروع ہونیوالی آئی سی ایل چیمپئن شپ کے پہلے ایڈیشن نے اس قدر مقبولیت حاصل کی کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کے منہ میں پانی آگیا اور انہوں نے آئی سی سی پر پریشر ڈال کراور دنیائے کرکٹ کے تمام بورڈز کو اپنے ساتھ ملا کرآئی سی ایل طرز پر سرکاری لیگ آئی پی ایل کاکرانے کافیصلہ کیا جس کا پہلا ایڈیشن بھارتی سرزمین پر کھیلا گیا جس نے بجاطور پر کرکٹ کو گلیمرکی انتہا تک پہنچا دیا لیکن اس بار دوسرے ایڈیشن میں آئی پی ایل کا رنگ پھیکا پھیکا نظر آرہا ہے جس کی بنیادی وجہ ایونٹ کا بھارت سے منتقل ہونا اور کھلاڑیوں کی خریدو فروخت میں کم پیسے لگانے کی پالیسی ہے ۔

دنیا بھر میں جاری مالیاتی بحران نے آئی پی ایل پر بھی اپنے اثرات چھوڑے ہیں جس سے انتظامیہ کو سخت مشکلات اٹھانا پڑ رہی ہیں ۔آئی پی ایل ٹورنامنٹ ہو یا آئی سی ایل ان دونوں کی مشترکہ اچھی بات یہ ہے کہ ان ایونٹس میں شائقین کو ایسے کھلاڑیوں کو بھی ایکشن میں دیکھنے کا موقع ملتا ہے جو عالمی کرکٹ سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہوتے ہیں ۔رواں آئی پی ایل میں شائقین کو عظیم آسٹریلوی اوپنگ جوڑی میتھیو ہیڈن اور ایڈم گلکرسٹ کے ساتھ ساتھ عظیم لیگ سپنر شین وارن بھی کو ایکشن میں دیکھنے کا موقع مل رہا ہے جبکہ اسی طرح جنوبی افریقی آل راؤنڈ شان پولا ک بھی ریٹائرمنٹ کے بعد آئی پی ایل سے وابستہ ہیں ،سابق کیوی کپتان سٹیفن فلیمنگ ،سابق بھارتی قائد سارو گنگولی اور انیل کمبلے بھی ایک بار پھر گراؤنڈ میں نظر آرہے ہیں اسی طرح آئی سی ایل میں شائقین کو انضمام الحق اور برائن لارا جیسا ماسٹر بیٹسمین وہاں ایکشن میں نظر آجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ پرائیوٹ لیگز اور ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ میں شائقین کی دلچسپی برقرار رہتی ہے حالانکہ جب ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ کا انگلش سرزمین پر وجود پذیر ہوا تو بہت سے لوگوں نے اسے کھیل کیلئے زہرقاتل قرار دیاتھا۔

تاہم آج پانچ سال بعد بھی یہ بات واضع ہے کہ ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ نہ تو ٹیسٹ کرکٹ پر اثرانداز ہوئی اور نہ ہی 50اوورزکے ون ڈے میچز اس سے متاثر ہوئے۔ رواں آئی پی ایل نے شائقین کرکٹ کو وہ تفریح فراہم نہیں کی جو پہلے ایڈیشن میں ملی تھی ۔بالخصوص پاکستانی شائقین نے اس بار آئی پی ایل میں زیادہ دلچسپی نہیں لی کیونکہ ممبئی حملوں کے بعد پیدا ہونیوالی پاک بھارت کشیدگی نے ہرجگہ اپنے اثرات چھوڑے ہیں اور یہ ٹینشن دونوں ممالک کے کھیلوں پر بھی اثرانداز ہوئی ۔

پہلے حکومت پاکستان نے اپنے کھلاڑیوں پر آئی پی ایل میں حصہ لینے پر پابندی لگائی بعدازاں جب آئی پی ایل جنوبی افریقہ منتقل ہوئی تو بھارت بورڈ نے پاکستانیوں کھلاڑیوں کو شامل کرنے سے انکار کردیا جس سے دونوں ممالک کے کرکٹ بورڈز میں تناؤمزید بڑھ گیا جس کا نقصان پاکستان کرکٹ بورڈ کو ورلڈکپ 2011ء کی میزبانی سے محروم ہو کر اٹھانا پڑا لیکن اس کے باوجود پی سی بی نے بھارتی بورڈ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے سینہ سپر ہوکر چلنے کا فیصلہ کیا اور باغی لیگ میں کھیلنے والے آئی سی ایل کھلاڑیوں پر پابندی اٹھانے کافیصلہ کیا اور اب امید کی جارہی ہے ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں عبدالرزاق ،عمران نذیر اور رانا نوید الحسن پاکستانی ٹیم کا حصہ ہونگے ۔

پاک بھارت ٹینشن اور پاکستانی کھلاڑیوں کو آئی پی ایل سے دور رکھنے کی وجہ سے پاکستانی شائقین آئی پی ایل میں دلچسپی لینے سے گریز کررہے ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی کھلاڑیوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے آئی پی ایل کا رنگ پھیکا پڑگیا ہے اور آئی پی ایل انتظامیہ کا پاکستانی کھلاڑیوں کو نہ کھلانے کافیصلہ خود آئی پی ایل کا نقصان دہ ثابت ہورہاہے جس کا اعتراف آئی پی ایل انتظامیہ بھی کرچکی ہے ویسے بھی آئی پی ایل انتظامیہ کرکٹ کے فروغ کو پس پشت ڈال کر پیسہ بنانے میں مشغول ہے اور کرکٹرز کو ذاتی مفاد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ۔

جب سے پرائیوٹ لیگ کرکٹ کا آغاز ہوا پہلے” آئی سی ایل“ اور اب ”آئی پی ایل“ کی رنگینی، کھلاڑیوں کی پیسہ کے پیچھے لگی بھاگ دوڑ اور پلیئرز کی خرید فروخت نے حقیقی معنوں میں کرکٹ کے مستقبل پربہت سے سوالیہ نشان کھڑے کردئیے ہیں حالانکہ اگر فٹبال پر نظردوڑائی جائے تو ہرملک میں ایک سے زائد لیگ ٹورنامنٹ ہرسال بڑے دھوم دھام سے کھیلے جاتے ہیں مگر وہ فٹبال کی اصل شکل یعنی 90منٹ ہی کے میچز ہوتے ہیں جس سے فٹبال کو بجائے نقصان پہنچنے کے بے پناہ فائدہ ہوتاہے اور نوجوان کھلاڑی سامنے آتے ہیں یوں کلب اور لیگ لیول مقابلے بھی جوش وخروش سے دیکھے جاتے ہیں اور انٹرنیشنل میچزمیں بھی شائقین بھرپوردلچسپی لیتے ہیں کیونکہ دونوں کا ایک ہی معیار اور ایک ہی قاعدہ قانون ہوتا ہے لیکن کرکٹ میں یہ چیزیں یکسر مختلف ہیں۔

کرکٹ کا اصل حسن ٹیسٹ میچز کو کہاجاتا ہے ایک روزہ میچز کرکٹ کی معراج کہلواتے ہیں لہذا 20اووروں کے مقابلوں نے کرکٹ کے میدانوں میں جو ہنگامہ برپاکررکھاہے اس کے مستقبل میں خطرناک نتائج بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔اگر ٹونٹی کرکٹ ایک حدتک کھیلی جائے جیسے دوسال بعد ایک ورلڈکپ ٹورنامنٹ اور ایک ٹیم سال میں چار ٹونٹی میچز کھیلے تو ایسے میں ٹونٹی ٹوٹنی کرکٹ ٹیسٹ اور ون ڈے میچز پر اثر انداز نہیں ہوپائے گی تاہم آئی پی ایل کا لگاتار دوسرا ایونٹ ڈیڑھ ماہ کے طویل دورانیہ پر محیط ہے کرکٹ کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے بلکہ اس سے کھلاڑیوں کی کارکردگی پر بھی برے اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ جب تمام کھلاڑی لگاتار تواتر کے ساتھ ڈیڑھ ماہ ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ کھیل کرٹیسٹ میچز کیلئے میدان میں اتریں گے تو وہ یکسر بدل چکے ہونگے ۔

آج کل کی کرکٹ میں ایسے نظارے عام طور پر دیکھنے کو ملتے ہیں جب ٹیسٹ میچز تیسرے دن ہی اختتام کو جاپہنچتے ہیں اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پہلے تو کوئی ٹیسٹ میچ ڈرا ہی نہیں ہوتا اور جو فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں وہ چوتھے روز ہی اپنے اختتام کو پہنچ جاتے ہیں یہ سب کچھ ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ کی بھرمار ہی ہے جو ٹیسٹ کرکٹ کے حسن کو بگاڑرہی ہے۔آئی پی ایل شائقین کو بھرپور تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کرکٹرز کو لاکھوں ڈالر سمیٹنے کا موقع تو دے رہی ہے لیکن مشاہد نظروں سے دیکھا جائے تو اس سے کرکٹ کا حقیقی رنگ پھیکا پڑ رہا ہے جس کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید مضامین :