جیف لاسن پاکستان کرکٹ ٹیم کے کوچ کے عہدے سے برطرف

Jeoff Lawson Bartaraf

مالی بے ضابطگیوں کے الزام میں شفقت نغمی بھی فارغ ،بورڈ اب کرکٹر زچلائیں گے،اعجاز بٹ کا عزم سلیم الطاف ڈائریکٹر جنرل مقرر،کوچنگ کیلئے جاویدمیانداد،عاقب اور وقاریونس کے ناموں پر غور

ہفتہ 25 اکتوبر 2008

Jeoff Lawson Bartaraf
اعجاز وسیم باکھری : کرکٹ پاکستان کا مقبول ترین کھیل ہے اور یہ واحد کھیل ہے جس کو پاکستان میں بے انتہا پسند کیا جاتا ہے اور کرکٹ ہی ایک ایسا کھیل ہے جس کا مستقبل پاکستان میں روشن ہے ورنہ تو ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے لیکن اس کی حالت کودیکھ کر دل اداس ہوجاتا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے پاکستان کرکٹ میں جو تبدیلیاں رونماہوئی ہیں انہیں دیکھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید پاکستان کرکٹ کے اچھے دن لوٹ آئیں۔

اچھے دن لوٹ آنے کی آس میں نسیم اشرف کے دورمیں بھرتی ہونیوالے تمام ملازمین کو برطرف کردینے کے ساتھ ساتھ نئے چیئرمین اعجاز بٹ نے گزشتہ روز آسٹریلوی کوچ جیف لاسن کی بھی چھٹی کرادی۔جیف لاسن کا پاکستانی ٹیم کے ساتھ دوسالہ کنٹریکٹ جولائی 2009تک کارآمد تھا لیکن ٹیم کی ناقص کارکردگی اور بورڈانتظامیہ تبدیل ہونے کے بعد جیف لاسن کی چھٹی یقینی لگ رہی تھی کیونکہ پاکستان کے تمام سابق کرکٹرز نے لاسن کی تعیناتی پر نسیم اشرف انتظامیہ پر کڑی تنقید کی تھی اور آج بورڈ میں تمام کرکٹرز کا راج ہے ایسے حالات میں جیف لاسن کا قومی کرکٹ میں کردار صفر ہوکر رہ گیا تھا اور انہیں فارغ کرتے وقت ان کی کوئی ایک بھی ایسی بڑی کامیابی نہیں تھی جس کو مدنظر رکھ کر انہیں کنٹریکٹ مکمل کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا۔

(جاری ہے)

گزشتہ روز کرکٹ بورڈ میں جیف لاسن کے ساتھ ساتھ نسیم اشرف کے رائٹ ہینڈ شفقت نغمی کو بھی ملازمت سے فار غ کردیا گیا اور کرکٹ بورڈ نے ان پر بارہ الزامات لگائے جن میں کرپشن ،من پسند افراد کی بورڈ میں بھرتی ،پیسے کا ضیائع ،ٹیم کی سلیکشن میں مداخلت اور بورڈ آفس سے ضروری دستاویزات ساتھ لیجانے کے الزامات نمایاں ہیں۔شفقت نغمی کرکٹ بورڈ سے ماہانہ تقربیاً آٹھ لاکھ روپے تنخواہ لیتے رہے اور انہیں پاکستان کرکٹ میں نسیم اشرف کے بعد تباہی کا دوسرا بڑا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔

نئے چیئرمین اعجازبٹ نے شفقت نغمی کی چھٹی کرانے کے بعد ان کے اختیارات سابق ٹیسٹ کرکٹر سلیم الطاف کو سونپ دیئے ہیں اور سلیم الطاف کوپاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائزکردیا گیا ہے ۔ بدقسمتی سے گزشتہ دوسال کا عرصہ پاکستان کرکٹ کیلئے بہت برارہا جس میں قسمت سے زیادہ ”اپنا“قصور تھا ۔ گزشتہ دوسال پاکستان کرکٹ میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں بار بار اور بے شمار بار لکھا جا چکا ہے اب شاید وقت آگیا ہے کہ ہم بجائے کہ اپنی ماضی کی غلطیاں کا رونا روئیں آگے کی فکر کرنی چاہیے اور مستقبل کے مدنظر رکھ کر پلاننگ کریں تاکہ گزشتہ دوسال میں ہونیوالے نقصانات کا ازالہ کیا جاسکے۔

جیف لاسن کے بعد اب سب سے بڑا یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ پاکستانی ٹیم کا اگلا کوچ کون ہوگا۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عہدہ جاوید میانداد کو سونپا جارہا رہے ۔اگر جاوید میانداد پاکستانی ٹیم کے کوچ بن جاتے ہیں تو یہ چوتھا موقع ہوگا جب جاوید میانداد پاکستانی ٹیم کے کوچ کے عہد ے پر فائز ہونگے ۔جاوید میانداد کی بطور کوچ تعیناتی ہر پاکستانی کی خواہش ہے لیکن شاید پاکستان کرکٹ بورڈ میانداد کو کو چ مقرر کرنے سے گریز کرے کیونکہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جاوید میانداد کے بھارتی حکومت کو مطلوب انڈر ورلڈ کے ڈان داؤد ابراہیم سے فیملی تعلقات ہیں اور بھارت نے جاوید میانداد پر ہندوستان داخلے پر پابندی عائد کررکھی ہے ایسے میں شاید کرکٹ بورڈ بھارتی بورڈ کی مجبوری کی وجہ سے جاوید میانداد کو اس عہدے پر فائز نہ کرے۔

کیونکہ اگلے سال جنوری میں بھارتی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کرنا ہے اور اس وقت بھارتی بورڈ پی سی بی کی ہرطرح سے مدد کررہا ہے ایسے میں اگر جاوید میانداد کو پاکستانی ٹیم کا کوچ بنایا گیا تو ایک نیا ایشو کھڑا ہوجائیگا اور میرے خیال میں شاید پی سی بی میانداد کو کوچ بنانے سے گریز کرے اور اگر ایسا ہی ہوا تو جاوید میانداد کو پاکستان کرکٹ بورڈ کے گورننگ بورڈ میں لازمی شامل کیا جائیگا جہاں پاکستان کرکٹ کی بہتری کے بارے میں فیصلے کیے جاتے ہیں۔

لیکن اگر پی سی بی جاوید میانداد ہی کو کوچ مقرر کردیتی ہے تو پاکستان کرکٹ ٹیم ایک مضبوط ٹیم کا روپ دھار لے گی ۔جاوید میانداد کے علاوہ پاکستان کے پاس اس وقت وقار یونس اور عاقب جاوید کی شکل میں ورلڈکلاس کوچز بھی موجود ہیں اور ان کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے تاہم کرکٹ بورڈ کیا فیصلہ کرتا ہے اس کیلئے ہمیں کچھ دیر انتظار کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ پی سی بی نئے کوچ کے طو رپر کس کا انتخاب کرتی ہے۔

یہ بات سچ ہے کہ غیرملکی کوچز نے پاکستان کرکٹ کو بے پناہ نقصان پہنچایا لیکن باب وولمر کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے دور میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی میں کافی حدتک بہتری آئی تھی۔ لیکن جیف لاسن جس طرح ان کے باس نسیم اشرف کی کارکردگی رہی موصوف بھی ان کے نقل کرتے رہے ورنہ اس قدر ذلیل ہوکر پاکستان سے نہ جاتے۔ ایک بات کی تاحال سمجھ نہیں آسکی کہ نسیم اشرف نے کیونکر غیرملکی کوچ کا انتخاب کیا تھا؟۔

حالانکہ سبھی لوگ جانتے ہیں کہ پاکستانی کھلاڑی زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور انہیں انگریزی بولنے اور سمجھنے میں ہمیشہ مشکلات رہی ہیں اس کے باوجود بین الاقومی کوچ کی تقرری سمجھ سے بالا ترتھی۔حالانکہ کوچنگ کا مطلب بھی یہ ہے کہ آپ کسی کی پرابلم سن اور سمجھ سکیں اور دوسرے کو اچھی طرح سمجھا سکیں اور اس کام کیلئے پاکستانی ٹیم کو صرف اور صرف اپنے ملک کے کوچ کی ضرورت ہوتی ہے ۔اب پی سی بی کی نئی انتظامیہ پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جو بھی فیصلے کرے پاکستان کرکٹ کے مفاد میں کرے کیونکہ پاکستان کرکٹ کو بحران سے نکلانے کا یہ اچھا موقع ہے اگراس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا تو نہ صرف یہ انتظامیہ اپنا اقتدار کھو دیگی بلکہ پاکستان کرکٹ ختم ہوکر رہ جائے گی۔

مزید مضامین :