کالی آندھی نے پاکستان کو دھوڈالا،قومی ٹیم کو بدترین شکست

Kaali Aandhi Ne Pakistan Ko Dhoo Dala

ثابت ہو گیا کہ کپتانی محمد حفیظ کے باس کی بات نہیں ، کیربین کوچ ثقلین مشتاق نے معرکہ مار لیا کامران اکمل،شعیب ملک،عمرگل، شاہدآفریدی اورحفیظ اب ٹیم کیلئےضرورت نہیں

Ejaz Wasim Bakhri اعجاز وسیم باکھری منگل 3 فروری 2015

Kaali Aandhi Ne Pakistan Ko Dhoo Dala
اعجازوسیم باکھری: رواں ٹی ٹونٹی ورلڈکپ پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے بھیانک خواب ثابت ہوا۔ پاکستان نے میگاایونٹ میں چار میچز کھیلے جس میں دو جیتے اور دو ہارے۔ میگاایونٹ کے افتتاحی معرکے میں پاکستان کو بھارت نے شکست سے دوچار کیا جبکہ اگلے میچ میں قومی ٹیم نے آسٹریلیا کو شکست دی اور بنگلہ دیش سے بھی کامیابی حاصل کرکے سیمی فائنل تک رسائی کیلئے اپنی امیدوں کو زندہ رکھا لیکن ویسٹ انڈیز کیخلاف ٹورنامنٹ کے آخری پول میچ میں پاکستانی بلے باز ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور کالی آندھی کے سامنے پاکستانی وکٹیں خزاں کی پتوں کی طرح طرح گرتی رہیں۔

مجموعی طو رپر پاکستان کیلئے یہ ورلڈکپ بدترین ٹورنامنٹ ثابت ہوا۔ اس ٹورنامنٹ میں جن دومیچز میں کامیابی نصیب ہوئی ان دو میچز میں دو نوجوان کھلاڑیوں کی بہترین اننگز تھیں۔

(جاری ہے)

آسٹریلیا کیخلاف فتح میں عمراکمل کے چورانوے رنز کا کردار تھا جبکہ بنگلہ دیش کیخلاف احمد شہزاد نے 111رنز کی اننگز کھیل کر ٹیم کو فتح دلائی۔ بقیہ دو میچز میں یہ دونوں نہیں چل سکے اور پوری ٹیم بھی نہیں چل سکی۔

یہ پانچواں ٹی ٹونٹی ورلڈکپ ہے اور اب تک ہونیوالے چار میگاایونٹس میں دو کے پاکستان نے فائنل کھیلے جس میں سے ایک میں پاکستان چیمپئن رہا جبکہ بقیہ دو ایونٹ میں پاکستانی ٹیم نے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی اور یہ پہلی بار ہوا کہ ٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی جس کی ذمہ داری ٹیم انتظامیہ کے ساتھ ساتھ سینئر کھلاڑیوں پر بھی عائد ہوتی ہے جن میں نمایاں کپتان محمد حفیظ، کامران اکمل، عمرگل اور شعیب ملک ہیں۔

شاہد آفریدی کیلئے بھی یہ ٹورنامنٹ زیادہ کامیاب نہیں رہا البتہ ٹی ٹونٹی میچز میں ان کے لیٹ آرڈر بیٹنگ نمبر کی وجہ سے وہ شاید ان چاروں سے کم ذمہ دار ہیں جبکہ سعید اجمل بھی اس ٹورنامنٹ میں آسٹریلیا کے میچ کے علاوہ یکسر آف کلر نظر آئے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں پاکستان نے ابتدائی پندرہ اوورز بہترین باؤلنگ کی لیکن آخری پانچ اوورز میں 82رنز کھائے جبکہ آخری 3اوورز میں پاکستانی باؤلرز کو61رنز پڑے جو ٹیم کی شکست کا سبب بنے۔

باؤلرز کو مار پڑنا معمولی بات ہے ، بڑے بڑے باؤلرز کی پٹائی ہوجاتی ہے لیکن اس موقع پر کپتان کا کردار اہم ہوتا ہے کہ وہ ایسے فیصلے کرتا اور باؤلنگ میں تبدیلی اس انداز میں کی جاتی ہے کہ رنز کا سیلاب کنٹرول ہوجاتا ہے لیکن محمد حفیظ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ چلیں سکور بننا تھا بن گیا، کپتانی کی نااہلی اور باؤلرز کی سستی روی کی وجہ سے پاکستان کو جیت کیلئے 167رنز کا ہدف دیا۔

یہ ٹارگٹ قابل حصول تھا کیونکہ پاکستان کے پاس احمد شہزاد، کامران اکمل، محمد حفیظ، عمراکمل ، شعیب ملک، صہیب مقصود اور شاہد آفریدی جیسے بڑے بلے باز تھے جن کیلئے یہ ٹارگٹ انتہائی معمولی تھا لیکن بزدلی اور خوف پاکستانی ٹیم کو لے ڈوبا اور ٹی ٹونٹی کی تاریخ میں پاکستان کو بدترین شکست کا سامنا کر پڑا۔ احمد شہزاد پراس لیے تنقید نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ جس پر بال پر ایل بی ڈبلیو آؤٹ ہوئے وہ ٹورنامنٹ کی شاید بہترین بال تھی، ریورس سوئنگ یارکر وہ بھی اننگز کی پہلی بال پر اس کی توقع احمد بھی نہیں کررہا ہوگا اور ویسے بھی ہر میچ میں ایک ہی کھلاڑی کا سکور کرنا ضروری نہیں ہوتا۔

احمد کے بعد کامران اکمل جس انداز میں آؤٹ ہوئے اس پر محض افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ طویل عرصہ بعد ٹیم میں واپس آنے والے کامران اکمل کو اس بات کا احساس کرنا چاہئے تھا کہ انتہائی مشکل سے اس کی ٹیم میں جگہ بنی ہے لیکن لاپرواہی کی وجہ سے ان کی وکٹ گرتے ہی پاکستانی ٹیم پریشر میں چلی گئی۔ کامران اکمل جب بیٹنگ کررہے تھے تو ان کی حالت بالکل ویسی ہی تھی جیسے 96ء ورلڈکپ کے بنگلور کوارٹرفائنل میں جاویدمیاندادکی تھی۔

تھکن کامران کے چہرے پر نمایاں تھی فٹنس کا معیار بھی ایسا نہیں تھا کہ وہ یہ ٹورنامنٹ کھیلتے لیکن سلیکشن کمیٹی اور ٹیم انتظامیہ ہی جواب دے سکتے ہیں کہ کس بنیاد پر کامران اکمل کو ٹیم میں جگہ ملی۔ شعیب ملک کے بارے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان کا خوش نصیب کھلاڑی ہے جو بغیر کوئی کارنامہ سرانجام دئیے قومی ٹیم میں طویل عرصے سے کھیل رہا ہے۔

شعیب ملک کی کارکردگی اب ایسی نہیں ہے کہ اسے ٹیم میں جگہ دی جائے اور اگر ایسی کارکردگی کے ساتھ وہ مستقبل میں بھی ٹیم کے ساتھ رہے تو سلیکٹرز کے انتخاب پر شکوک و شبہات سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ محمد حفیظ نے ایک اینڈ پر وکٹیں گرتے دیکھ کر غیرضروری محتاط رویہ اختیار کیا۔ ٹی ٹونٹی کرکٹ میں جب ایک اینڈ پر وکٹیں گرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے تو دوسرے اینڈ پر موجود سیٹ بیٹسمین کو سکور بورڈ کو متحرک رکھنا پڑتا ہے۔

محمد حفیظ کے چہرے پر نمایاں خوف کے اثار ہی پاکستان کی شکست کا سبب بنے۔ کانپتی ٹانگوں کے ساتھ حفیظ نے دفاعی حکمت عملی اپنائی جس سے نہ صرف رن ریٹ بڑھ گیا بلکہ پاکستان اس قدر پریشر میں چلا گیا تو میچ ہی ہاتھ سے نکل گیا۔ کپتان اس انداز میں بلے بازی نہیں کرتے ، محمد حفیظ ایک طویل عرصے سے جب بھی مشکل حالات میں بیٹنگ کیلئے آتے ہیں تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔

ویسٹ انڈیز میں ہونیوالے 2007ء کے عالمی کپ میں محمد حفیظ مشکل حالات میں بری طرح فلاپ ہوئے، اس کے بعد جنوبی افریقہ میں ہونیوالے 2007ء کے ٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں بھی محمد حفیظ کی بیٹنگ کارکردگی ناقص رہی۔ سری لنکا میں ہونیوالے گزشتہ ٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں بھی محمد حفیظ نے یہی کچھ کیا اور پاکستان کی شکست ان کی سست روی سے ہوئی۔ 2011ء کے ورلڈکپ کے موہالی سیمی فائنل میں بھی محمد حفیظ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور پاکستان بری طرح میچ ہار گیا۔

اب رواں ورلڈکپ میں ویسٹ انڈیز کیخلاف اہم میچ تھا جہاں حفیظ کو قائدانہ اننگز کھیلنی تھی اور اپنے تجربہ کے بل بوتے پر ٹیم کو مشکل سے نکلانا تھا لیکن وہ ہمیشہ کی طرح ناکام رہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حفیظ سیریز میچز کی کھلاڑی ہے ٹورنامنٹس کا پلیئر نہیں ہے۔ پاکستان کیخلاف اسی ٹورنامنٹ میں آسٹریلوی ٹیم کے اوپنر پہلے ہی اوور میں آؤٹ ہوگئے تاہم میکسویل اور فینچ نے اٹیکنگ کرکٹ کھیلی اور اپنی ٹیم کو جیت کی پوزیشن میں لاکھڑا کیا۔

ویسٹ انڈیز کیخلاف اگر ابتدائی بل بلے باز جلد لوٹ گئے تو حفیظ کو اٹیکنگ کرکٹ کھیلنا چاہئے تھی جوکہ ان کی روایتی بزدلی کی وجہ سے شائقین اٹیکنگ کرکٹ دیکھنے سے قاصر رہے اور پاکستان پہلی بار سیمی فائنل کھیلنے سے محروم رہا۔ اس میگاایونٹ میں جہاں محمد حفیظ ایک نااہل کپتان کے طور پر سامنے آئے ہیں وہیں کوچ معین خان بھی بری طرح فلاپ ثابت ہوئے۔

بہترین کوچ کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اگر ٹیم مشکلات میں ہے تو وہ صورتحال کو قابو میں لانے کیلئے شارٹ ٹائم حکمت عملی تیار کرے جو معین خان تیار نہ کرسکے۔ پورے ٹورنامنٹ میں معین خان اور حفیظ نے ایک مرتبہ بھی بیٹنگ آرڈر تبدیل نہیں کیا جوکہ سست روی کی واضح مثال ہے۔ ویسٹ انڈیز کے باؤلنگ کوچ ثقلین مشتاق پاکستان کیخلاف کامیابی پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔

ثقلین کے شاگرد بدری اور سنیل نارائن نے پاکستانی بلے بازوں کو اُسی انداز میں تگنی کا ناچ نچایا جو ثقلین ماضی میں حریف بلے بازوں کے ساتھ کرتے تھے۔ بطور کوچ ثقلین مشتاق نے معین خان کو بری طرح شکست دیدی ہے اور ایک طرح پیغام دیا ہے کہ کوچنگ معین خان کے بس کی بات نہیں۔ ٹی ٹونٹی ورلڈکپ ہاتھ سے نکل گیا اب پی سی بی کو ہوش کے ناخن لینا ہونگے اور پچاس اوور ورلڈکپ میں صرف چند ماہ رہ گئے ہیں ۔ اگر کرکٹ بورڈ نے سلیکشن کا معیار بہتر نہ کیا اور نااہل کھلاڑیوں کو فارغ نہ کیا تو آسٹریلیا میں ہونیوالے مین ورلڈ کپ میں بھی اسی طرح شرمندگی اٹھانا ہوگی۔

مزید مضامین :