پہلی بار بننے والی خواتین ٹیم نے سیمی فائنل کھیل کر نئی تاریخ رقم کردی
بابر گجر کی کپتانی قومی ٹیم نے فائنل میں بھارت کو ٹف ٹائم دیا، کھلاڑی اگلی بار چیمپئن بننے کیلئے پرعزم
اعجازوسیم باکھری:
کبڈی پاکستان کے کو نے کونے کا مقبول ترین کھیل ہے لیکن یہ کھیل سب سے زیادہ پنجاب میں کھیلا جاتا ہے۔ پنجاب کے دیہاتوں اور چھوٹے شہروں کے اس مقبول کھیل نے اب دنیا بھر میں پذیرائی حاصل کرلی ہے۔ ماضی میں پاکستان کا کبڈی میں راج تھا لیکن گزشتہ چار پانچ سالوں میں پاکستان کبڈی فیڈریشن کی اندورنی سیاست نے اس کھیل کو بری طرح متاثر کیا۔
فیڈریشن اپنی ذمہ داریوں سے ہٹ کر سیاست میں الجھی تو براہ راست اس کے برے اثرات کھیل اور کھلاڑیوں پر پڑے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کھلاڑی دیہاتوں کو محدود ہوکررہ گئے تھے تاہم اب حالات بہتر ہوچکے ہیں اور کبڈی ترقی کی راہ پر چل پڑی ہے جس کا کریڈٹ پنجاب سپورٹس کو جاتا ہے۔ بھارت میں گزشتہ ہفتے ہونیوالے ورلڈکپ میں پاکستان نے کئی تاریخی کارنامے سرانجام دئیے جس میں نمایاں خواتین ٹیم تیار کرکے اُسے ورلڈکپ میں متعارف کروانا تھا۔
(جاری ہے)
گوکہ پاکستان کی خواتین اور مردوں کی ٹیمیں ٹائٹل جیتنے میں ناکام رہی لیکن اس بار ایونٹ میں ایسے نقوش چھوڑ کر وطن واپس آئے جس سے ملک میں کبڈی کو نئی زندگی ملی ہے۔
بھارت میں ہونیوالے ورلڈکپ میں شرکت کا دعوت نامہ پاکستان کبڈی فیڈریشن کو ملنے کی بجائے پنجاب سپورٹس بورڈ کو موصول ہوا۔ بھارتی پنجاب کی حکومت کی میزبانی میں ہونیوالے عالمی کپ میں پاکستانی پنجاب کی حکومت کو براہ راست دعوت نامہ بھیجا گیا جس کے بعد سپورٹس بورڈ نے ٹیمیں تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
پنجاب سٹیڈیم میں ایک ماہ تک جاری رہنے والے کیمپ میں مردوں کی ٹیم کے ساتھ ساتھ خواتین ٹیم بھی تیار کرکے ان کی بھی تیاری کروائی گئی۔ پاکستانی لڑکیوں میں کبڈی کا کھیل ہرگز نہ مقبول تھا اور نہ ہی متعارف، کبڈی کھیلنے کیلئے کھلاڑیوں کو راضی کرنا اور کبڈی کیلئے موزوں کھلاڑی تلاش کرنے کی ذمہ داری پنجاب سپورٹس بورڈ کے سینئر عہدیدار وقاص اکبر کو سونپی گئی جنہوں نے محض ایک ہفتے میں پچیس کھلاڑیوں کو پنجاب سٹیڈیم میں اکٹھا کر کوچ غلام عباس بٹ کے حوالے کردیا۔
غلام عباس بٹ ماضی کے نمبرون سٹاپررہے ہیں اور بھارت ، امریکہ اور کینیڈا میں کوچنگ کرچکے ہیں۔ غلام عباس بٹ کے پاس کبڈی کھیلنے کیلئے آنیوالی لڑکیوں میں بیشتر اتھلیٹکس، ویٹ لفٹینگ اور پاور لفٹینگ کی کھلاڑی تھیں جنہیں کبڈی کے رموز بھی بتائے گئے اور کھیلنے کا گُر بھی سکھائے گئے۔ محض ایک ماہ کے کیمپ میں لڑکیاں کبڈی کو سمجھ بھی گئیں اور سیکھ بھی گئیں۔
خواتین ٹیم نے پہلی بار ورلڈکپ میں حصہ لیا اور سیمی فائنل کھیل کر نئی تاریخ رقم کردی۔ پاکستان کے مقابلے میں دیگر خواتین ٹیمیں دوسری سے تیسری بار عالمی کپ میں شرکت کررہی تھیں لیکن پاکستانی ٹیم نے پہلی بار تیار ہوئی اور ورلڈکپ میں شرکت کی اور سیمی فائنل کھیل کر میزبان اور چیمپئن ٹیم بھارت کو بھی حیران کردیا۔پاکستانی خواتین ٹیم کی سیمی فائنل تک رسائی میں کپتان مدیحہ لطیف ، نیلم ریاض ، ندا، سعدیہ، اگسٹا اجمل، زینت پروین اور فریدہ خانم نے نمایاں کھیل پیش کرکے کوچ اور ٹیم مینجر کو اُن پر فخر کرنے کا موقع فراہم کیا۔
بھارت کیخلاف سیمی فائنل میں پاکستانی لڑکیوں کے کم تجربے کیو جہ سے ناکام ہوئیں تاہم بھارتی ٹیم کو کڑے کی ٹکر دی جس سے میزبان ٹیم کی لڑکیاں بھی متاثر ہوئیں۔پہلی بار ورلڈکپ میں حصہ لینا اور سیمی فائنل کھیلنا کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ لڑکیوں نے جس طرح جذبے اور لگن سے ورلڈکپ میں حصہ لیا اور کارکردگی دکھائی اس سے دیگر کھیلوں سے وابستہ لڑکیوں میں بھی کبڈی کھیلنے کا شوق پیدا ہوا ہے اور اگر اسی طرح ان کی پنجاب سپورٹس بورڈ نے سرپرستی جاری رکھی تو آئندہ ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم سیمی فائنل سے بھی اگلی منزل تک پہنچ سکتی ہے۔
مردوں کے عالمی کپ مقابلوں میں پاکستانی ٹیم نے پہلی بار سب کو متاثر کیا اور شاباش لی۔ یہ پہلا ورلڈکپ تھا جب ٹیم کبڈی فیڈریشن کی بجائے سپورٹس بورڈ نے تیار کی ۔ غلام عباس بٹ اور وقاص اکبر نے تجربہ کارکھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ نئے لڑکوں کو بھی موقع دیا جنہیں نے اپنے انتخاب کو درست ثابت کردکھایا۔ پاکستان نے فائنل سے پہلے چھ میچز کھیلے اور تمام میں کامیابی حاصل کی۔
پاکستانی ٹیم نے تمام حریفوں کو بھاری مارجن سے شکست دیکر فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ راؤنڈ میچز میں کپتان بابر گجر، اکمل ڈوگر، شفیق چشتی اور خالد مہر نے حریف ٹیموں کے سٹاپرز کی ایک نہ چلنے کی دی جبکہ پاکستان کی سٹاپر لائن بھی مضبوط نظر آئی۔ سینئر جاپھی ارشد محمود نے نئے کھلاڑیوں کے ساتھ حریف ٹیم کے ریڈرز کو خوب ستایا۔ ارشد محمود کے ساتھ ساتھ مطلوب حسین ، وقاص گجر، محسن واہلہ ، نعیم سندھو اور جانی سنیارہ نے متاثر کن کھیل پیش کرکے اپنی ٹیم کو باآسانی فائنل تک رسائی دلائی۔
بدقسمتی سے ورلڈکپ کے تمام راؤنڈ میچز میں ٹیم کے تجربہ کار ساھی لالا عبیداللہ بخار میں مبتلا رہے اور ایکشن میں دکھائی نہ دئیے تاہم فائنل میں لالا عبید اللہ نے بھارت کیخلاف میدان میں اترنے کافیصلہ کیا اور بغیر پریکٹس کے متاثر کن کھیل پیش کیا۔ لدھیانہ میں کھیلے گئے فائنل میں پاکستانی ٹیم بہترین حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتری جس کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے بہترین ریڈر سکھبیر سنگھ سکھی کے ہوش اڑا کررکھ دئیے۔
قومی کوچ غلام عباس بٹ نے فائنل سے ایک دن پہلے ہی میڈیا سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اُن کے جاپھی سکھی کو دکھی کردیں گے اور فائنل میں من و عن ایسے ہی ہوا۔ بھارتی کپتان سکھی نے تین بار کبڈی ڈالی اور تینوں بار پاکستانی جاپھیوں نے سکھی کو ”جھپہ“ ڈالا اور پوائنٹ حاصل کرکے لدھیانہ سٹیڈیم میں سناٹا برپا کردیا۔ سکھی حالات کی نزاکت کو سمجھ گیا اور فائنل میچ کے دسویں ہی منٹ میں گیم چھوڑ کر بینچ پر بیٹھ گیا۔
پہلے ہاف میں پاکستان نے بہت عمدہ کھیل پیش کیا تاہم دوسرے ہاف میں قومی جاپھی توقعات کے مطابق کھیل پیش نہ کرسکے۔ بھارتی آرگنائزر نے اپنی ٹیم کو جتوانے کیلئے ماضی کی طرح اس بار بھی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جس میں نمایاں فائنل میچ کا تاخیر سے آغاز تھا۔ رات دس بجے فائنل میچ شروع کیا گیا تب تک گراؤنڈ پر شبنم گر چکی تھی اور پاکستانی کھلاڑی باربار سلپ ہوتے رہے۔
لالا عبیداللہ اور کپتان بابر گجر جو کسی جاپھی کے ہتھے نہیں چڑھتے اس بار فائنل میں گراؤنڈ گیلا ہونے کی وجہ سے دو سے تین بار جکڑے گئے۔ پاکستان نے فائنل میں کامیابی کیلئے سرتوڑ کوشش کیں تاہم آخری لمحات میں کھلاڑیوں نے کچھ غلطیاں کیں جبکہ ریفریز نے بھی پاکستان کیخلاف خوب دشمنی نکالی اور چھ پوائنٹ بلاوجہ بھارت کی جھولی میں ڈال دئیے جس کا میزبان ٹیم کو فائدہ اٹھاتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔
فائنل میچ کے مہمان خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب میاں شبہاز شریف تھے جنہوں نے فائنل معرکہ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ پرکاش سنگھ بادل اور ڈپٹی وزیراعلیٰ سکھبیر سنگھ بادل کے ساتھ میدان میں بیٹھ کردیکھا۔ اس موقع پر صوبائی وزیر کھیل رانا مشہود احمد خان اور ڈی جی سپورٹس بورڈ عثمان انور بھی موجود تھے۔ فائنل کے اعصاب شکن مقابلے کے وقت کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے رانا مشہود اور ڈی جی سپورٹس بورڈ عثمان اپنی وی آئی پی کرسیاں چھوڑ کر ٹیم مینجمنٹ کے بینچ پر آبیٹھے اور کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔
فائنل میں پاکستانی ٹیم نے اپنی پوری قوت لگائی جس کا کریڈٹ کوچ غلام عباس اور مینجر وقاص اکبر کوجاتا ہے جنہوں نے کھلاڑیوں کو لڑایا اور ماضی کے برعکس اس بار بہترنتائج دئیے۔بھارت گوکہ ورلڈکپ جیت گیا لیکن انہیں اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ اگر آئندہ برس عالمی کپ جیتنا ہے تو پاکستانی ٹیم کا مقابلہ کرنے کیلئے زیادہ تیاری کرنا ہوگی کیونکہ پاکستانی ٹیم تیور بتا رہے ہیں کہ اگلی باراس ٹیم کو کوئی نہیں ہرا پائے گا۔
غلام عباس بٹ نے وطن واپسی پر قوم سے وعدہ کیا کہ انہیں اس بار تیاری کیلئے زیادہ وقت نہیں ملا تاہم اگلی بار ورلڈکپ میں بھارت سے ٹرافی چھین لی جائے گی۔ مینجر وقاص اکبر نے کہاکہ ہے کہ پنجاب سپورٹس بورڈ نے کبڈی کے فروغ اور ترقی کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے اور آئندہ ورلڈکپ میں پاکستانی کھلاڑی بھوکے شیروں کی طرح بھارتی ٹیم پر حملہ آور ہونگے اور عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کرینگے۔
کبڈی ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم نے جس جذبے کے ساتھ مقابلوں کو میں حصہ لیا اس سے کبڈی کو بھی فروغ ملا اور کبڈی کے شوقین ایک بار اس سے کھیل سے وابستہ ہونے کیلئے واپسی کی راہ لے چکے ہیں جس کا مستقبل میں فائدہ ہوگا۔ عالمی کپ میں بھارت نے کامیابی تو حاصل کی تاہم ریفریز کے دوہرے فیصلے بھی ان کی جیت کا سبب بنے۔ اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ کبڈی ورلڈکپ جب تک بھارت میں ہوتا رہے گا اُسے ہرانا مشکل ہے تاہم پاکستانی کھلاڑیوں نے عزم ظاہر کیا ہے کہ آئندہ ورلڈکپ میں بھارت سے ٹائٹل چھیننا ان کا سب سے بڑا ہدف ہے۔