کیایونس خان کی کپتانی کا سورج غروب ہونیوالا ہے؟

Kiya Yunis Khan Ki Kaptani Ka Sooraaj Gharoob Hone Wala Hai

محمدعامر کی ریکاڈر ساز کارکردگی کے باوجودپاکستان سیریزہارگیا ایک بار پھر پاکستانی بیٹنگ کے پہاڑ ریت کی دیوارثابت ہوئے قومی ٹیم کی کارکردگی پر دبئی سے اُردوپوائنٹ سپورٹس ایڈیٹر اعجازوسیم باکھری کی خصوصی رپورٹ

بدھ 11 نومبر 2009

Kiya Yunis Khan Ki Kaptani Ka Sooraaj Gharoob Hone Wala Hai
اعجازوسیم باکھری: یونس خان کوبرطرف کرو،یونس خان مردہ باد،یونس خان مردہ باد۔یہ نعرے ابوظہبی کے شیخ زاید سٹیڈیم میں اس وقت تک مسلسل سننے کو ملتے رہے جب تک محمد عامر اورسعید اجمل کے درمیان آخری وکٹ کی شراکت میں 50رنز نہیں بنے تھے۔میرے لیے یہ حیران کن چیز تھی اور میں پہلی بارسٹیڈیم میں کھلاڑیوں کے خلاف نعرے بازی سن رہا تھا۔یہ بات سچ ہے کہ پاکستان کی شکست سے شائقین کو سخت مایوسی ہوئی لیکن یونس خان کے خلاف نعرے بازی کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بھی ہوسکتی ہے ۔

پاکستان سیریز تو اسی وقت ہار گیا تھا جب صرف 101رنز پرپاکستان کے 9کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تھے لیکن محمد عامر اور سعید اجمل کی ناقابل فراموش پارٹنرشپ نے ایک امید پیدا کردی تھی لیکن آخرمیں نتیجہ وہی نکلا جوپاکستانی ٹاپ بیٹنگ لائن اپ اپنے لیے خود لکھ کرآئی تھی۔

(جاری ہے)

محمد عامر نے دسویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے نہ صرف ریکارڈ 73رنز کی اننگز کھیلی بلکہ پاکستان کو جیت کے قریب بھی پہنچا دیا تاہم آخری اوور میں جب پاکستان کو جیت کیلئے 8رنز درکارتھے سعید اجمل جیکب اورم کی پہلی ہی گیند پر کیل ملزکے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوگئے۔

محمد عامر اور سعیداجمل کے مابین ہونیوالی آخری وکٹ کی پارٹنرشپ میں 103رنز بنے ،جبکہ عالمی ریکارڈ کیلئے صرف دو رنز چاہئے تھے لیکن اس کے باوجود عامر اور سعیدنے ایک ریکارڈساز اوریادگار اننگزکھیلی۔عامرنے جس روانی سے شارٹس کھیلیں ان سے لگ رہا تھا کہ اس وکٹ پر بیٹنگ کرنا کوئی مشکل نہیں۔پریس کانفرنس کے دوران میں نے عامر سے یہی سوال کیا کہ آپ نے اس وکٹ پر بیٹنگ بھی کی ہے اور بولنگ بھی ،کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ وکٹ بیٹنگ کیلئے سازگارنہیں تھی۔

عامرکے جواب سے پوراپریس کانفرنس روم حیرت زدہ رہ گیا،اس نے مسکراتے ہوئے کہاکہ وکٹ کوئی بھی ہواگر آپ اپنی طرف سے پوری کوشش کریں اور ذمہ داری سے کھیلیں تو آپ کو کامیابی ملتی ہے۔عامرکی یہ بات من و عن سچی ہے کیونکہ پاکستانی ٹیم کے دیگرسینئرکھلاڑیوں میں نااتفاقی اور آپس کی رنجش نے ٹیم کوایک ناکام سائیڈبناکررکھ دیا ہے،اگر سینئرکھلاڑی پوری ذمہ داری اور جذبے سے کھیلیں تو عامر کے بقول آپ کوضرورکامیابی ملتی ہے۔

جہاں پور ی ٹیم کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے وہیں کپتان کو سب سے زیادہ ذمہ داری دکھانا چاہئے تھی تاہم بدقسمتی سے یونس مسلسل ناکام ہوتے چلے جارہے ہیں۔لیکن یہ بات تو طے ہے کہ یونس خان کو اب کپتانی اور ٹیم میں جگہ برقرار رکھنے کیلئے اپنی بیٹنگ کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا ورنہ اب ان کی کسی بھی وقت چھٹی ہوسکتی ہے۔ ابوظہبی میں تیسرے میچ سے قبل میڈیا سینٹر میں ان افواہوں نے چند گھنٹوں تک شدت اختیار کیے رکھی کہ محمد یوسف کو کپتان بنانے پر غور کیا جارہا ہے۔

گوکہ یوسف کو تیسرے ون ڈے میں نہیں کھلایا گیا لیکن ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پی سی بی کے چیئرمین اعجازبٹ نے یونس خان کو صاف الفاظ میں تنبیہ کی ہے کہ وہ اپنی انفرادی کارکردگی کو بہتر بنائیں کیونکہ وہ بیٹنگ میں مسلسل ناکام چلے آرہے ہیں، اگر ان کی ناکامیوں کا تسلسل برقرار رہا تو وہ نہ صرف کپتانی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے بلکہ انہیں ڈراپ بھی کیا جاسکتا ہے۔

یونس خان بجائے اعجاز بٹ کی تنبیہ کے بعد بہتر کھیل پیش کرتے وہ مزید براکھیلنے لگے ہیں۔ہمارے ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ یونس خان کو اگر بیٹنگ کارکردگی کی بنا پر ٹیم سے ڈراپ کیا جاتا ہے تو اعجازبٹ نے نئے کپتان کے طور پر محمد یو سف کا انتخاب کرلیا ہے ۔یونس خان چونکہ مڈل آرڈربلے باز ہیں اور گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان کا مڈل آرڈر بری طور پر فلاپ ہورہا ہے ،اسی صورتحال کے پیش نظر ٹیم مینجمنٹ کو کبھی عمراکمل کو ڈراپ کرنا پڑتا ہے تو کبھی شعیب ملک کو باہربٹھادیا جاتا ہے اور اب تیسرے میچ میں محمد یوسف کو سائیڈ لائن کیا گیا ،اگر یونس خان کپتان نہ ہوتے تو اب تک شاید انہیں بھی آرام کرایا جارہا ہوتا ،یہی وجہ ہے کہ چیئرمین پی سی بی اعجازبٹ نے اب مزید آنکھیں بند رکھنے کی بجائے آنکھیں دکھانے کافیصلہ کرلیا ہے اور ان کی ابتدائی نظروں میں کپتان یونس خان آگئے ہیں اور یونس کے گرد گھیرا تنگ ہوتا ہوا محسوس ہورہاہے۔

یونس کو چاہئے کہ بیٹنگ کارکردگی پر توجہ دیں اور مشکل حالت میں ٹیم کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی بجائے کمی لائیں۔ ابوظہبی کے شیخ زیدسٹیڈیم میں شائقین کی جانب سے شاہد آفریدی اور کپتان یونس خان کیلئے الگ الگ رویہ دیکھنے کوملا۔عام پر طور پر جب بھی یونس خان بیٹنگ کیلئے آتے تو شائقین بیزاری کا اظہار کرتے اور جب یونس آؤٹ ہوکر واپس لوٹتے تو شائقین نے ان پر خوب آوازیں کسیں۔

فائنل معرکے میں بھی یونس خان جب تین رنزبنانے کے بعد آؤٹ ہوئے تو شائقین کی جانب سے ان کے خلاف خوب نعری بازی کی گئی اور انہیں برا بھلا کہاگیا جبکہ اس کے عکس شاہد آفریدی جب بیٹنگ کیلئے آئے تو شائقین نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور خوب سہراہا اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ آفریدی جب آؤٹ کے ہوکرواپس لوٹ رہے تھے تب بھی شائقین کی جانب سے انہیں سہراہا گیا اور یونس جیسے رویے سے گریز کیا گیا۔

پاکستان کی فائنل میچ میں شکست پر بھی شائقین خوب غصے میں نظرآئے اور زبردست نعرے بازی کی گئی۔میری وہا ں پاکستانی شائقین جن میں اکثریت پٹھانوں کی تھی جو وہاں ٹیکسی چلاتے ہیں ان سے بات ہوئی تو انہو ں نے بتایا کہ وہ قومی ٹیم سے بہتر کارکردگی کی توقع لگاکر اپنے کام کاج کو چھوڑ کر سٹیڈیم آئے ہیں لیکن پہلے اپریل میںآ سٹریلیا اور اب نیوزی لینڈ کے خلاف قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی نے ہمیں مایوس کردیا ہے۔

میں پٹھان پردیسیوں کی بات سے اتفاق کرتا ہوں اور وہ بجاطور پر صحیح کہہ رہے تھے کہ وہ اپنے کام کاج کو ترک کرکے اپنی ٹیم کی سپورٹ کیلئے آتے ہیں لیکن انہیں ایک تو مالی طورپر نقصان ہوتا دوسراسٹیڈیم آکر بھی مایوسی ہوتی ہے،لہذا قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو چاہئے کہ لوگ ان سے بے پناہ پیار کرتے ہیں وہ ایک ٹیم ہوکر کھیلیں اور اپنے ذاتی اختلافات کو اپنی کارکردگی پر اثرانداز انہ ہونے دیں۔امید ہے کہ قومی ٹیم کل دبئی سپورٹس سٹی میں ٹونٹی ٹونٹی عالمی چیمپئن ہونے کا ثبوت پیش کریگی اور کیویز کو ہراکر کم از کم ون ڈے سیریز کا ہارکے دکھ کو ضرورکم کریگی۔

مزید مضامین :