کفرٹوٹا خدا خدا کرکے، پی سی چیئرمین کی میوزیکل چیئررک گئی ؟

Kufr Tota Khuda Khuda Kar K

نجم سیٹھی مستعفی،ذکاءاشرف کیس ہارگئے،7دن میں نگران چیئرمین بنےگا گومگوکی صورتحال ختم تو ہوئی تو لیکن بےچینی ہےکہ ختم ہونےکانام نہیں لےرہی جمہوریت کی آڑ میں بنایا گیا پی سی بی کا نیا آئین آمریت کے صفحات پر مشتمل

Ejaz Wasim Bakhri اعجاز وسیم باکھری منگل 3 فروری 2015

Kufr Tota Khuda Khuda Kar K
اعجازوسیم باکھری: کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، ایک سال سے پاکستان کرکٹ بورڈ میں پھیلی بے چینی آخرکار دم توڑ ہی گئی۔ کئی ماہ کی گومگو کی صورتحال آخرکار نجم سیٹھی کے استعفیٰ پر اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ سپریم کورٹ نے ذکاء اشرف کی بطورچیئرمین پی سی بی بحالی کا اسلام آباد ہائیکورٹ کافیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے پی سی بی کے انتخابات کے لئے 7 روز میں الیکشن کمیشن اور قائم مقام چیئرمین کی تقرری کاحکم دے دیا، جبکہ نجم سیٹھی نے بھی نہ صرف چیئرمین پی سی بی کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا بلکہ کرکٹ بورڈ کے انتخابات میں بھی حصہ نہ لینے کااعلان کردیا۔

سپریم کورٹ نے گوکہ ذکاء اشرف کیلئے پی سی بی کے دروازے بند کردئیے لیکن حکومت اس سے پہلے بند کرچکی تھی، موجودہ حکومت نے کرکٹ بورڈ میں خوب سیاست کی جس کا خمیازہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی بدنامی اور غیریقینی صورتحال کی شکل میں بھگتنا پڑا۔

(جاری ہے)

اب ذکاء اشرف اس فیصلے پر صبر کرتے ہیں یا حالات کسی اور طرف جاتے ہیں یہ فیصلہ تو وقت ہی کریگا لیکن کم از کم یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ عدالت نے آئندہ سات روز میں کرکٹ بورڈ کا نگران چیئرمین اور الیکشن کمشنر مقرر کرنے کا حکم تو دیدیا۔

اب حکومت کی مرضی کہ الیکشن کروانے کیلئے نگران چیئرمین کس کو نامزد کرتی ہے۔ توقع ہے کہ نجم سیٹھی کی سیاسی تقرری اور اس کے بعد کی صورتحال سے حکومت نے بہت کچھ سیکھا ہوگا اور اس بات کا ادراک شاید ہو ہی گیا ہو کہ کرکٹ بورڈ غیرسیاسی ادارہ ہے اور یہاں غیرسیاسی آدمی کی تقرری ہی کھیل کی بہتری میں ہے۔ موجودہ حکومت پر اب سب کی نظریں ہیں کہ وہ نگران چیئرمین کے طورپر کونسا بااختیار اور شفاف شخص تلاش کرتی ہے تاہم اس سے زیادہ حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگئی کہ وہ پی سی بی کے بورڈ آف گورنرز کیلئے کونسے دو نام تجویز کرکے پی سی بی ہیڈکوارٹرکو بھیجتی ہے۔

پی سی بی کی گورننگ باڈی اس وقت دس ممبران پر مشتمل ہے جن میں چار ممبر ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کی نمائندگی کرتے ہیں کہ جبکہ چار ممبران تعلق لوکل ایسوسی ایشنز سے ہے۔ نئے آئین کے مطابق جسے ایک عدالت منظور کرتی ہے تو دوسری معطل کردیتی ہے کے مطابق چیئرمین پی سی بی کے انتخاب کیلئے الیکٹورل کالج میں دس ووٹ موجود ہیں جو کہ پی سی بی گورننگ باڈی کے اراکین پر مشتمل ہیں اور اب اہم ترین مسئلہ ان دو شخصیات کے انتخاب کا ہے جو آگے چل کر پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا الیکشن لڑیں گے۔

اسے ملکی کرکٹ کی بدقسمتی کہیں یا نئے آئین کی نئی چالیں، آئندہ الیکشن کیلئے جن دو افراد کے مابین ون ٹو ون الیکشن ہوگا ان کا انتخاب وزیراعظم کریں گے۔ حالانکہ آئی سی سی کے قوانین کے مطابق کسی بھی ملک کے کرکٹ بورڈ کے سربراہ کا انتخاب سلیکشن سے نہیں الیکشن سے ہوگا۔ پی سی بی آئین میں آئی سی سی کو دھوکہ دینے کیلئے الیکشن تو کروائیں جائیں گے مگر جن دو افراد کے مابین یہ الیکشن ہوگا ان کی سلیکشن وزیراعظم ہاؤس سے ہوگی جوکہ سب سے بڑی بددیانتی اور آئی سی سی کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

حالانکہ بنیادی طور پر جن دو شخصیات کے مابین الیکشن ہونا چاہئے تھا وہ پہلے لوکل سطح پر ایسوسی ایشن یا ریجن میں الیکشن لڑ کر کامیاب ہوتے مگر یہاں ایسا بالکل نہیں ہے۔ گورننگ باڈی کے دس ممبران پر مشتمل پی سی بی الیکٹورل کالج ووٹنگ سسٹم میں جن دو افراد میں سے کسی ایک کا انتخاب عمل میں لایا جائیگا وہ براہ راست الیکشن میں کود پڑیں گے اور جس آمریت اور ستم گری کو آئی سی سی نے ختم کرنے کیلئے جمہوریت لانے کو کہا وہ پاکستان کرکٹ بورڈ سے نہ ختم ہوئی اور نہ ہی نئے آئین میں ختم کرنے کی کوشش کی گئی، البتہ ہاں نئے چیئرمین کے انتخاب کیلئے طریقہ پرانا اختیار کیا جائیگا مگر انتخاب کا انداز نرالہ اور یونیک ہوگا تاکہ آئی سی سی کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکے۔

کرکٹ بورڈ کے مشیر بھی باکمال لوگ ہیں، بورڈ میں جمہوریت لانے کیلئے جو آئین مرتب کیاگیا دراصل وہ آمریت کو مضبوط کرنے کیلئے بنایا گیا ہے اور اگر آئی سی سی تک یہ بات جاپہنچی یا کسی سمجھدار نے عدالت سے رجوع کردیا تو نئے چیئرمین کو شاید دفتر کے اتنے چکر نہ لگانے پڑیں جتنے عدالت کے لگانے پڑجائیں گے کیونکہ جس جمہوریت کی آئی سی سی نے بات کی اور اس پر پابندی کیلئے کہاں وہ جمہوریت کہیں بھی نظر نہیں آرہی اور آئندہ انتخابات میں بھی دور دور تک جمہوری طریقوں پر عمل درآمد نظر نہیں آرہا۔

حالیہ ڈیڑھ برس میں پاکستان نے کرکٹ کے میدان میں شاید اتنی کوریج حاصل نہ کی وہ جتنی کوریج پی سی بی ہیڈکوارٹرمیں چیئرمینوں کے آنے جانے کو ملی۔ یہ کوریج کوئی مثبت پیغام نہیں تھا بلکہ اس سے منفی تاثر ملا اور اس کا کسی حد تک ٹیم کو بھی نقصان پہنچا۔ کھلاڑی بھی اس صورتحال سے کسی حد تک پریشان رہے ۔ گزشتہ 15 ماہ میں پاکستانی کرکٹ بورڈ کے ساتھ کیا کیا ہوتا رہا وہ سب تاریخ کا حصہ بن گیا۔

سب سے پہلے 28 مئی 2013 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس وقت کے چیئرمین ذکاء اشرف کو گھر بھیج دیا اور نئے انتخابات کے احکامات جاری کردیئے۔ ذکاء اشرف پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے کرکٹ بورڈ کے الیکشن میں من مانی کرکے جمہوری طریقے اختیار کیے بغیر خود کو چیئرمین بنوا لیا اور قوانین کے پر عمل نہیں کیا۔23 جون 2013ء کو وزیر اعظم نواز شریف نے کرکٹ کو ایک صحافی کے ذریعے چلانے کا فیصلہ کیا اور نامور اینکر نجم سیٹھی کو چیئرمین بنایا دیا۔

نجم سیٹھی کی تعیناتی پر ان پر اور حکومتی فیصلے پر کڑی تنقید کی گئی۔ حکومت پر الزام عائد کیا گیا کہ عام انتخابات میں بطور نگران وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی نے ن لیگ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا اور اس کے انعام کے طور پر انہیں ملک کے سب سے خوشحال ادارے کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ 15 اکتوبر کو کرکٹ بورڈ کے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے معاملات کو چلانے کے لئے نجم سیٹھی کی سربراہی میں ایک مینجمنٹ کمیٹی تشکیل دے دی جس میں شہریار خان اور ظہیر عباس جیسے بڑے نام بھی شامل کرلیے گئے۔

15 جنوری 2014 ء کو چیئرمین بورڈ کی کہانی نے نیا موڑ لیا اوراسلام آباد ہائی کورٹ نے ذکاء اشرف کو چیئرمین کے عہدے پر بحال کرکے کرکٹ بورڈ اور حکومتی ایوان میں ہلچل مچا دی۔ ذکاء اشرف کو اقتدار میں واپس آئے صرف 25دن گزرے تھے کہ 10 فروری کو وزیر اعظم اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے کرکٹ بورڈ پر مارشل لاء نافذ کرتے ہوئے نہ صرف پی سی بی کا آئین ، گورننگ باڈی معطل کی بلکہ ذکاء اشرف کو بھی برطرف کرکے ایک بار پھر نجم سیٹھی کوغیرجمہوری طریقے سے چیئرمین بنادیا۔

اس تبدیلی اور نئی تعیناتی کو تین ماہ گزرے تھے کہ17 مئی کوعدالت نے اپنے بااختیار ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ایک با رپھر ذکاء اشرف کو بحال اور وزیراعظم کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے نجم سیٹھی کو گھر کی راہ دکھادی۔ یہی وہ موقع تھا جب بات عدالتی فیصلوں سے آگے نکل کر انا تک جا پہنچی کیونکہ اس فیصلے پر حکومت کی انا کو ٹھیس پہنچی کیونکہ عدالت نے نجم سیٹھی کی بحالی کا وہ نوٹیفیکشن معطل کیا جسے خود وزیراعظم نے جاری کیا تھا۔

آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، صرف پانچ دن بعد یعنی 21 مئی کو ذکاء اشرف کی بحالی کی خوشی ایک بار پھر غم میں بدل گئی اور اس بار سپریم کورٹ نے ذکاء اشرف کی بحالی کو الوداع کرتے ہوئے نجم سیٹھی کو بحال کردیا۔10مئی کو عدالتی جنگ میں حکومت نے ہار مانتے ہوئے نجم سیٹھی کو عہدے سے ہٹا کر جسٹس ریٹائرڈ جمشید علی شاہ کو نگران چیئرمین بنادیا لیکن اس بار عدالت کو یہ فیصلہ پسند نہیں آیا اور عدالت نے وزیراعظم کا حکم معطل کرتے ہوئے دوبارہ نجم سیٹھی کو پی سی بی کا چیئرمین بنادیا۔

اب 21جولائی کو پھر ایک بار عدالت لگی اور اس بار نجم سیٹھی نے خود ہی استعفیٰ دے دیا لیکن انہوں نے استعفیٰ تب دیا جب عدالت نے ذکاء اشرف کی بحالی کی تمام درخواستیں خارج کرتے ہوئے ان کیلئے پی سی بی کے راستے بند کردئیے تو نجم سیٹھی نے فاتح کے روپ میں عہدے چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ اب کرکٹ بورڈ کے سات دن میں نیا چیئرمین سامنے آئیگا، وہ کون ہوگا اور کتنے دن رہے گا اور الیکشن کے بعد پی سی بی کا سربراہ کون بنتا ہے اور کتنے دن سکون رہتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔

مزید مضامین :