عمران نذیر کی طوفانی بیٹنگ نے لاہور بادشاہ کو آئی سی ایل چیمپئن کا خطاب جتوادیا

Lahore Badshah Icl Chamption

نوجوان اوپنر نے 44گیندوں پر113رنز کی اننگز کھیل دنیا ئے کرکٹ کو حیران کردیا ،رانا نوید مین آف دی سیریز قرار پائے عمران خان کیری پیکرسیریز کھیلنے کا جرم کرکے بھی پاکستان کیلئے کھیل سکتے ہیں تو رزاق ،سمیع ،فرحت اور عمران نذیر کیوں نہیں ؟؟

بدھ 19 نومبر 2008

Lahore Badshah Icl Chamption
اعجاز وسیم باکھری : آئی سی ایل کرکٹ چیمپئن شپ کا تیسرا ٹورنامنٹ پاکستانی کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم لاہوربادشاہ نے جیت لیا ہے۔فائنل میں لاہوربادشاہ نے دفاعی چیمپئن حیدرآباد ہیروز کو آٹھ وکٹوں سے شکست دی۔لاہور بادشاہ کی فتح میں نوجوان اوپنر عمران نذیر نے اہم کردار ادا کیا۔عمران نذیر نے فائنل معرکے میں گیارہ چھکوں کی مدد سے صرف 44گیندوں پر113رنز بنائے۔

عمران نذیر جنہیں پاکستان کرکٹ میں شجرممنوعہ قرار دیا جاچکا ہے آئی سی ایل کرکٹ کے سب سے خطرناک ترین بیٹسمین سمجھے جاتے ہیں ،عمران نذیر نے پورے ٹورنامنٹ میں شاندار کھیل پیش کیا اور اپنے ساتھی اوپنر عمران فرحت کے ساتھ ملکر لاہور بادشاہ کوبے پناہ فتوحات دلائیں۔ جبکہ ان کے ساتھی رانا نوید الحسن نے بھی پورے ٹورنامنٹ میں بے مثال آل راؤنڈ کارکردگی پیش کرکے نہ صرف اپنی ٹیم کو چیمپئن بنوایا بلکہ چالیس لاکھ روپے کی انعامی رقم حاصل کرتے ہوئے آئی سی ایل 2008ء کے پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کا خطاب بھی جیتا۔

(جاری ہے)

انضمام الحق کی قیادت میں لاہور بادشاہ کو آئی سی ایل کی ”آسٹریلیا“قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس ٹیم میں تمام کھلاڑی انٹرنیشنل کرکٹر ہیں اور تمام پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ستائے ہوئے ہیں ۔نسیم اشرف دور میں ان کھلاڑیوں کے ساتھ انتہاکی ناانصافی کی گئی اور ان سب کو باغی بننے پر مجبورکیا گیا تھا اور ان تمام نے آئی سی ایل کا رخ کیا جہاں انہوں نے پیسے کے ساتھ ساتھ کامیابی بھی سمیٹی لیکن آج بھی تمام پاکستان کی جانب سے کھیلنے کیلئے تیار ہیں لیکن زمینی حقائق ان کی خواہش کو اب پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے کیونکہ آئی سی ایل کھیلنے والے کرکٹرز کو سرکاری سطح پر قومی مجرم سمجھا جاتا ہے لیکن عوام آج بھی ان سٹارز کو اپنا ہیرو سمجھتی ہے۔

یہ بات ناقابل تردید حقیت ہے کہ عمران نذیر اور عبدلرازق جیسے کہنہ مشق کرکٹر ز کی پاکستانی ٹیم کو اشدضرورت ہے لیکن آئی سی سی کی کمزوری اور پی سی بی کی مجبوری ان کرکٹرز کی راہ میں روکاٹ ہے اور جب تک آئی سی ایل کو قبول نہیں کیا جاتاتب تک ان پر باغی کرکٹرز کا لیبل موجود رہے گا۔ کرکٹ کی دنیا میں آئے روز نئے اور انوکھے ترین واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں جو متنازع ہونے کے باوجود بھی عوامی دلچسپی کا باعث بن جاتے ہیں۔

کرکٹ کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا برس آیا ہو کہ جہاں کوئی نیا تنازعہ وقوع پذیر نہ ہوا ہو۔ماہرین کا خیال ہے کہ کرکٹ کی تاریخ میں سب سے بڑے بحرانوں کی اگر فہرست تیار کی جائے توکیری پیکر کو سب پر فوقیت حاصل ہوگی کیونکہ 1986ء میں اس وقت کی کرکٹ کی گورننگ باڈی نے کیری پیکر سیریز کو کھیل کیلئے زہر قاتل قرار دیا تھا اور کرکٹ کھیلنے والے تمام ممالک نے اپنے پلیئرز پر کیری پیکرسیریز میں کھیلنے کی پابندی عائد کردی تھی اور کیری پیکر میں شرکت کرنے والے کرکٹرز کو نیشنل ٹیموں سے دور رکھا گیا۔

لیکن اس کے برعکس کیری پیکر نے نہ صرف کھیل میں انقلاب کی بنیاد رکھی بلکہ کرکٹ کو ایک نئے طرز میں پیش کرکے شائقین کو کھیل کی رنگینی سے نہ صرف لطف اندزو ہونے کا موقع فراہم کیا بلکہ کھلاڑیوں کی مالی پریشانی کو حل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔کیری پیکر تنازع نے ایسی ہوا پکڑی کہ دنیائے کرکٹ کے کئی نامور سٹار کرکٹرز اس میں شمولیت کے جرم میں کئی برس تک اپنے ملک کی نمائندگی سے محروم رہے جن میں پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے عظیم ترین کپتان عمران خان بھی تھے جنہیں کیری پیکر سیریز میں کھیلنے کے جرم میں کرکٹ بورڈ نے قومی ٹیم میں شامل کرنے سے انکار کردیا تھا تاہم اس وقت کے پاکستان کے صدر مملکت جنرل ضیاء الحق کی ذاتی مداخلت پر عمران خان قومی ٹیم میں واپس آنے میں کامیاب ہوئے۔

دوسال قبل بھارت کے چندبزنس مین اور بعض ٹاپ ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت ایشیا کے سب سے بڑے ٹی وی نیٹ ورک (zee)ٹی وی اور zee ٹیلی فلم کے مشترکہ تعاون سے”انڈین کرکٹ لیگ یعنی آئی سی ایل“کے نام پر کیری پیکر طرز کی سیریز کروانے کا پروگرام ترتیب گیاتو کرکٹ کی دنیا میں ایک طوفان برپا ہوگیا ۔کرکٹ کھیلنے والے تمام ممالک نے اپنے کرکٹرز کو آئی سی ایل سے دور رہنے کا حکم دیا لیکن سلیکشن سے ٹھکرائے گئے اور ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ جانے والے کھلاڑیوں کی بڑی تعداد نے آئی سی ایل کی جانب رخ کیا اور تین تین سال کے معاہدے کرڈالے۔

آئی سی ایل انتظامیہ نے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان سے بھی کھلاڑیوں کی تلاش شروع کی تو دو درجن کے قریب ایسے قومی کرکٹرز سامنے آئے جو جنہوں نے آئی سی ایل کو جوائن کرنے کافیصلہ کیا ۔معین خان پاکستان میں آئی سی ایل کے ایجنٹ کے طور پر کام کررہے ہیں اور وہ لاہور بادشاہ کے کوچ کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔آئی سی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کی زیادہ تعداد دیکھ کر منتظمین نے پاکستانی کھلاڑیوں پر مشتمل الگ ٹیم بنانے کا فیصلہ کیا ،یوں لاہور بادشاہ کے نام پر بننے والی ٹیم کی کمان انضما م الحق کو سونپی گئی جبکہ عبدالرزاق اور شبیر احمد بھی آئی سی ایل میں مختلف ٹیموں کی نمائندگی کررہے ہیں۔

یہ سوال آج بھی اپنے جواب کا منتظر ہے کہ ”لاہور بادشاہ“کا وجود عمل میں کیوں آیا اور اس کے پیچھے کن لوگوں کا ہاتھ تھا۔اگر مثبت انداز میں اس بات کا جائزہ لیا جائے پاکستان کرکٹ بورڈ کی سابقہ انتظامیہ یعنی نسیم اشرف گروپ اس تمام تر نقصان کی ذمہ دار ہے کیونکہ نسیم اشرف دور میں جس انداز میں قومی کرکٹرز کی تذلیل کی گئی اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی اور اس کا یہی نتیجہ نکلا کہ کھلاڑی باغی ہوگئے اور آئی سی ایل جوائن کرڈالی۔

نسیم اشرف کے ہاتھوں ذلیل ہونے والے میں ایک نام محمد یوسف کا بھی تھا جنہوں نے ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں ٹیم میں شامل نہ کرنے پر عبدالرزاق اور عمران فرحت کے ہمراہ آئی سی ایل جوائن کرنے کافیصلہ کرلیا تھا لیکن پاکستان کے وسیع تر مفاد میں یوسف نے آئی سی ایل کھیلنے کا فیصلہ واپس لے لیاتھا۔نسیم اشرف نے یوسف کو سرکاری لیگ یعنی آئی پی ایل سے کنٹریکٹ بھی کرادیااور بھاری رقم بھی دی مگر آئی سی ایل نے کورٹ میں رٹ دائرکرکے یوسف کا آئی پی ایل کھیلنے کا خواب پورا نہ ہونے دیا جس نے یوسف کو ہلا کررکھ دیا اور نئے بورڈ نے یوسف کی کوالٹی کو بھانپتے ہوئے اسے ابوظہبی سیریز کیلئے بغیر فٹنس ٹیسٹ لیے قومی ٹیم میں شامل کیا لیکن محمد یوسف کسی کو بتائے بغیر آئی سی ایل کھیلنے چلے گئے جو کہ انتہائی غلط اور خود غرضی پر مبنی فیصلہ تھا ۔

کیونکہ یوسف کے ساتھ پچھلی بورڈ انتظامیہ نے زیادتی کی تھی اور اگراسے شعیب ملک سے کوئی شکایت تھی تو اس نے آئی سی ایل جانے سے قبل اس بات کا انکشاف کیوں نہیں کیاتھا ؟ تاکہ کرکٹ بورڈ اس بات تدارک کرتا لیکن موصوف نے ملک کی بجائے پیسوں کی ترجیح دی۔گوکہ محمدیوسف کی آئی سی ایل شمولیت پر تمام پاکستانی دکھی ہیں کہ ان کے قومی سٹار نے پاکستان کو ترجیح نہیں دی لیکن وہیں پاکستانی عوام کی اکثریت آج بھی عبدالرزاق اور عمران نذیر کو قومی ٹیم کا حصہ دیکھنا چاہتی ہے جبکہ محمد سمیع اور عمران فرحت بھی نظرانداز نہیں ہونے چاہیں۔

عمران نذیر نے آئی سی ایل میں شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کرکے یہ ثابت کیا کہ وہ پاکستان کے نیشنل اوپنرز سے کہیں بہترکھیل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہ اس بات کا مکمل حق رکھتا ہے کہ اسے پاکستان کی قومی ٹیم میں شامل کیا جانا چاہیے ۔جبکہ عبدالرزاق نے بھی پورے ٹورنامنٹ میں تن تنہااپنی ٹیم حیدرآباد ہیروز کو فائنل تک پہنچنے میں اہم کردار ادا کیا ۔

رزاق عصرحاضر کا نمبر ون آل راؤنڈر ہے لیکن سابقہ سلیکشن کمیٹی نے اسے ڈراپ کرکے پاکستان کرکٹ کا بہت بڑا نقصان کیا کیونکہ وہ ایسا آل راؤنڈ ر تھا جسے کھیل کے تینوں شعبوں پر مکمل عبور حاصل تھا اور وہ ٹیسٹ اور ایک روزہ کرکٹ میں اپنی ٹیم کیلئے ہمیشہ نمایاں کھیل پیش کرتا چلا آرہا تھا لیکن نجانے کن وجوہات کی بنا پر صلاح الدین صلو اورنسیم اشرف نے اسے بغاوت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔

یہ بات یقینی ہے کہ اگر کرکٹ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ کے بس میں ہوتو وہ آئی سی ایل کھیلنے والے سبھی اہل اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو قومی ٹیم میں واپس لے آئے لیکن ایسا کرنا پی سی بی کے بس کی بات نہیں ہے۔آئی سی سی چونکہ ایک کمزور ترین ادارہ بن چکا ہے اور اس میں سخت فیصلے کرنے کی پاور نہیں رہی یہی وجہ ہے کہ بھارتی کرکٹ بورڈ نے اپنی اجارہ داری قائم کررکھی ہے اور ہرکرکٹ بورڈ کو دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر کسی نے آئی سی ایل کو قبول کیا تو اس کے ساتھ مراسم ختم کردئیے جائیں گے اور پی سی بی واحد ایسا بورڈ ہے جسے ہمیشہ بی سی سی آئی کی مدد درکاررہتی ہے ایسے میں جب تک آئی سی سی اور بھارتی بورڈ ملکر آئی سی ایل کا مسئلہ حل نہیں کرتے تب تک رزاق ،عمران نذیر،عمران فرحت ،محمد یوسف ،محمد سمیع ،حسن رضا اور شاہد یوسف پاکستان کی جانب سے نہیں کھیل سکتے ۔

البتہ پی سی بی کی نئی انتظامیہ بالخصوص اعجاز بٹ کوشاں ہیں کہ آئی سی ایل کا مسئلہ حل ہو اور نوجوان کھلاڑی پاکستانی ٹیم میں لوٹ آئیں اور ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ عمران نذیر،محمد یوسف اور عبدالرزاق دوبارہ پاکستانی ٹیم کا حصہ بنیں اور پاکستان کیلئے کامیابی سمیٹیں۔ یاد رہے کہ آئی سی ایل انتظامیہ کا اگلا ٹورنامنٹ ”آئی سی ایل ورلڈسیریز“23نومبرسے شروع ہورہا ہے جس میں چار ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں ان میں پاکستان ،بھارت ،بنگلہ دیش اور ورلڈالیون کی ٹیم شامل ہوگی۔

پاکستانی ٹیم لاہور بادشاہ کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہوگی جبکہ عبدالرزاق بھی پاکستانی سکواڈ کا حصہ ہونگے۔بنگلہ دیشی ٹیم بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ،بھارتی ٹیم میں بھارتی کھلاڑی اور ورلڈالیون آسٹریلیا ،جنوبی افریقہ،انگلینڈ ،سری لنکا ،نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہوگی۔10دن تک جاری رہنے والے اس ایونٹ کی خاص بات یہ ہے کہ تمام میچزٹیسٹ کرکٹ کی طرز پر 20،20اوورز کی دو دو اننگز پر مشتمل ہونگے۔

مثال کے طو رپر ایونٹ کے افتتاحی میچ میں پاکستان بھارت کے خلاف پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 20اوورز کھیلے گا ،جواب میں بھارتی ٹیم اپنے 20اوورز میں بیٹنگ کریگی،پھر دوبارہ پاکستانی ٹیم اپنی دوسری اننگز کھیل کر حریف ٹیم کو حتمی ٹارگٹ دے گی اور جواب میں بھارت اپنی دوسری اننگز میں مطلوبہ ہدف کا تعاقب کریگا ۔ماہرین آئی سی ایل انتظامیہ کی اس نئی کاوش کو زبردست انداز میں سہرا رہے ہیں کیونکہ اس طرز کے میچز میں انتہائی سخت اوردلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔

مزید مضامین :