ہاکی فیڈریشن نے محمد ثقلین کو خود ساختہ ریڈ کارڈ دکھا کر سائیڈ لائن کردیا

M Saqlain

ناانصافی کی ایک اور بڑی مثال ، سابق کپتان پرجبری ریٹائرمنٹ کیلئے پریشر مکمل فٹ ہوں، کھیل جاری رکھوں گا،300میچز کھیلے ، ملک پر اپنی جوانی قربان کی ، آخر میں مجھے کیا صلہ ملا؟محمد ثقلین کی ”اردوپوائنٹ سے گفتگو

جمعہ 7 اگست 2009

M Saqlain
اعجازوسیم باکھری: پاکستان دنیا کا خوش نصیب ملک ہے اور جتنا یہ ملک خوش نصیب ہے اُس سے کہیں زیادہ یہ ملک بدقسمت بھی ہے۔ایک طرف اگر اس ملک میں باصلاحیت لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے تو دوسری طرف یہاں باصلاحیت لوگوں کی صلاحیتوں کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے اور اہل لوگوں کی اس قدر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کہ اب تو لوگوں نے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔

یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ٹیلنٹ بھی وسیع ہے اور سفارشیوں کی بھی کوئی کمی نہیں ۔دنیامیں اگر کسی کو یہ دیکھنا ہے کہ ٹیلنٹ کا مذاق کیسے اڑایا جاتا ہے اور کس طرح باصلاحیت لوگوں کو ایڑیاں رگڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو یہ تمام چیزیں پاکستان کے ہرادارے میں ایک عام سی چیز کی حیثیت رکھتی ہے اور یہاں میرٹ کا قتل عام کرنا ایک معمول کی بات ہے۔

(جاری ہے)

دنیا میں کسی بھی ملک کی ترقی اور وہاں کی قوم کی تہذیب کا اندازہ اُس ملک کی بین الاقومی سطح پر کھیلوں میں شرکت اور فتوحات سے لگایا جاتا ہے ۔ ماضی میں پاکستان تقریباً ہرسال کوئی نہ کوئی بڑا ایونٹ جیتنے میں ایک منفرد پہچان رکھتا تھا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ ملک چار ورلڈکپ کا فاتح تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حالات اس حد تک تبدیل ہوچکے ہیں کہ کرکٹ میں بے شمار ریکارڈز کا مالک پاکستان گزشتہ دو ورلڈکپ مقابلوں کے پہلے راؤنڈ سے باہر ہوگیا۔

سکوائش جہاں ایک زمانے میں چیمپئن بھی پاکستانی ہوا کرتا تھا اور دفاعی چیمپئن کا بھی تعلق پاکستان سے ہوتا تھا، لیکن آج دنیا کے ٹاپ 20کھلاڑیوں کے فہرست میں محض ایک یا دونام ہی پاکستانی ہوتے ہیں۔ہاکی جوکہ ہمارا قومی کھیل ہے ایک زمانہ ایسا تھا کہ ہمارے خلاف حریف ٹیموں نے جیت کی امید رکھنابھی چھوڑ دی تھی لیکن آج حالات اس حدتک مخدوش ہوچکے ہیں کہ ہمیں ورلڈکپ کھیلنے کیلئے کوالیفائنگ راؤنڈ جیسا ذلت آمیز مرحلہ عبورکرنا پڑرہا ہے۔

آزادی کے ساٹھ سال گزرنے کے بعد اگر آج ہم پاکستان کے کھیلوں کی ترقی کا جائزہ لیں تو چند عشرے قبل ہم نے جن ممالک پر سبقت حاصل کررکھی تھی آج وہ ممالک ہمارے لیے ناقابل شکست کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔دنیا میں کوئی بھی ادارہ اُس وقت تک تباہ نہیں ہوتا جب تک اُسے چلانے والوں کی نیت خراب نہ ہو۔بدقسمتی سے پاکستان کے ہرادارے کو چلانے والوں کی نیت خراب ہے اور وہ ہرفیصلہ اپنی ذاتی پسند یا عناد کی بنیاد پرکیا جاتا ہے جس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہے۔

ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے اور اس کھیل کو قومی کھیل اس لیے قرار دیا گیا تھا کیونکہ ہم اس کھیل میں ناقابل شکست ہوا کرتے تھے۔آج فیڈریشن کی من مانیوں اور اقتدار کے نشے نے قومی کھیل کو دیوار کے ساتھ لگادیا اور کھلاڑیوں کو سائیڈ لائن!۔موجودہ فیڈریشن اپنے خلاف لگائے جانیوالے الزامات سے اس حد تک پریشان اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے کہ ایک غلطی کا ابھی خسارہ پورا نہیں ہوتا دوسری اس بڑی سرزرد ہوجاتی ہے۔

ابھی چند روزپہلے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں پی ایچ ایف کے عہدیداروں کو واضع الفاظ میں کہاگیا کہ ایسے فیصلے کریں جس سے قومی کھیل ترقی اختیار کرے لیکن اسلام آباد سے واپس آتے ہی فیڈریشن نے ایسے فیصلے کرنا شروع کردیئے جوکہ ہاکی کے لیے مزید تباہی کا سبب بنتے جارہے ہیں۔ اس بڑی افسوسناک صورتحال اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہاکی کے سب سے پہلے ورلڈکپ کی فاتح پاکستانی ٹیم اب ورلڈکپ کھیلنے کیلئے کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلے گی۔

کوالیفائنگ راؤنڈ کا مر حلہ پاکستان ہاکی کی تاریخ کا سب سے مشکل ترین مرحلہ ثابت ہوگا اور یہاں فیڈریشن کو اپنے سینئر کھلاڑیوں پر انحصار کرکے ایک مضبوط ٹیم کے ساتھ میدان میں اترنا چاہئے تھا لیکن گزشتہ روز پی ایچ ایف کی انتظامیہ نے سابق کپتان اولمپئن محمد ثقلین کو ڈراپ کرکے ماہرین کو انگشت بدنداں کردیا۔محمد ثقلین پاکستان کیلئے 300میچز کھیل چکے ہیں اور وہ موجودہ بین الاقومی ہاکی میں سب سے تجربہ کار کھلاڑی تصورکیے جاتے ہیں لیکن محمد ثقلین کے بقول پی ایچ ایف کے سیکرٹری آصف باجوہ انہیں ذاتی عناد کی بھینٹ چڑھا کر سائیڈ لائن پر بٹھانا چاہتے ہیں لیکن وہ کسی بھی صورت میں پی ایچ ایف کے سامنے سرنڈر نہیں کرینگے۔

یہ بات درست ہے کہ پی ایچ ایف نے ثقلین کو جبری طور پر ریٹائرمنٹ پر مجبورکرکے انتہائی غیردانشمندانہ اقدام اٹھایا ہے کیونکہ ثقلین ریحان بٹ ، شکیل عباسی ، سہیل عباس اور محمد وسیم کی طرح مکمل فٹ کھلاڑی ہے اور اس کی کارکردگی بھی ان سب سے بہتر ہے لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پی ایچ ایف کی انتظامیہ نے کس چیز کو بنیاد بناکر ثقلین کو ڈراپ کیا حالانکہ وہ مکمل فٹ ہے۔

”اردوپوائنٹ“ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے محمد ثقلین نے کہاکہ پی ایچ ایف اُن سے جبری ریٹائرمنٹ لیکر مزید ہاکی کھیلنے سے روکنا چاہتی ہے ، لیکن مکمل طور پر فٹ ہوں اور میں مزید چند سال تک پاکستان کیلئے ہاکی کھیلنا چاہتا ہوں ۔محمد ثقلین نے کہاکہ پی ایچ ایف انتظامیہ نے انہیں انگلینڈ کے دورہ سے ڈراپ کرتے ہوئے آن ریکارڈ کہاکہ آپ اپنی ٹریننگ جاری رکھیں اور ورلڈکپ کوالیفائنگ راؤنڈ کیلئے تیار ہیں لیکن چند روز سے پی ایچ ایف کے اعلیٰ عہدیدار مجھے ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور کررہے تھے اور مجھے آفرز کی گئی کہ میں ہاکی سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردوں مجھے اس کے بدلے بھاری معاوضے پر جونیئر کا ٹیم کوچ تعینات کیا جائیگا ، پی ایچ ایف کی جانب سے اس طرح کی آفرز سن کر میں پریشان ہوگیا اور میں نے اپنی فیملی سے رائے طلب کرنے کی مہلت مانگی ، بعدازاں میں نے واضع الفاظ میں فیڈریشن سے کہاکہ میں مزید کھیلنا چاہتا ہوں لیکن بلاوجہ مجھے زبردستی ریٹائرمنٹ پر مجبورکیا جارہا ہے اور بغیر کسی وجہ کے کوالیفائنگ راؤنڈ کے تربیتی کیمپ سے ڈراپ کردیا گیا ۔

محمد ثقلین نے مزید بتایا کہ میرا ہمیشہ سے ٹیم کے سپر فٹ کھلاڑیوں میں شمار ہوتا چلا آیا ہے اور اس وقت بھی میری فٹنس ٹیم کے دیگر اہم کھلاڑیوں کے برابر ہے لیکن مجھے بلاوجہ ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ ثقلین کا کہنا تھا کہ آصف باجوہ ماضی کی ذاتی عناد کی وجہ سے میرے ساتھ ایسا سلوک کررہے ہیں ، کیونکہ 2006ء کے ورلڈکپ میں قومی ٹیم کی قیادت میرے پاس تھی اور یہ ٹیم کے کوچ تھے اس وقت میں نے ٹیم کی کارکردگی پر ایک کالم لکھا جس کی انہیں رنجش تھی۔

اس سے قبل میں نے پاکستان کو رابوٹرافی میں کامیاب دلائی لیکن کریڈٹ آصف باجوہ نے لے لیا ۔ثقلین نے کہاکہ اگر اسی طرح ذاتی پسند کی بنیاد پر فیصلے ہوتے رہے تو نہ صرف ہم کوالیفائنگ راؤنڈ میں بری طرح شکست کھا کر ورلڈکپ سے آؤٹ ہوجائیں گے بلکہ پاکستان ہاکی کا جو معمولی ڈھانچہ رہ گیا ہے یہ بھی گرپڑے گا۔محمد ثقلین نے مزید کہاکہ انہوں نے پاکستان کیلئے دس سال تک ہاکی کھیلی ہے اور اپنی جوانی اس ملک پر قربان کی ۔

300 میچ کھیلنے کے بعد میرے ساتھ جورویہ اختیار کیا جارہا ہے اس سے نوجوان کھلاڑیوں کے حوصلے ٹوٹیں گے ، ثقلین نے کہاکہ میں نے پاکستان کیلئے کیا کیا اور پاکستان مجھے کیا دے رہا ہے اس بارے میں سوچ کر آنکھوں میں آنسوآجاتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ محمد ثقلین عصر حاضر کے ایک نامور کھلاڑی ہیں اور وہ مزید چند سال تک پاکستان کیلئے ہاکی کھیل سکتے ہیں ۔

یہ معاملہ اس وقت انتہائی پیچیدہ ہوچکا ہے اوروزیر اعظم گیلانی جوکہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے پیٹرن انچیف ہیں انہیں اس تمام صورتحال کا ازخود نوٹس لیکر پی ایچ ایف کے نااہل عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرنا چاہئے اور محمد ثقلین جیسے نامور کھلاڑی کو انصاف فراہم کرنا چاہئے اور اُن کی فٹنس کا جائزہ لیکر انہیں ٹیم میں شامل کیا جائے تاکہ پاکستان کوالیفائنگ راؤنڈ میں ایک مضبوط ٹیم کے ساتھ شرکت کرسکے اور وہاں کامیابی حاصل کرکے ورلڈکپ کیلئے کوالیفائی کیا جاسکے ۔

اگر محمد ثقلین کے ساتھ ہونیوالی ناانصافی کا کسی نے نوٹس نہ لیا تواس سے نہ صرف نوجوان کھلاڑیوں کے حوصلے ٹوٹیں گے بلکہ فیڈریشن کے عہدیداروں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ اسی طرح اپنی مرضی کے فیصلے کرکے پاکستان ہاکی کا باقی بچ جانیوالا ڈھانچہ بھی گرا دیں گے۔

مزید مضامین :