میلبورن ٹیسٹ، پاکستانی بیٹسمینوں کا روایتی ناقص کھیل، آسٹریلیا فاتح

Pak Test Lose

پاکستان کو طلوع آفتاب سے پہلے ہی غیر متوقع شکست آج صبح پاکستانی شائقین نے جیت آس لگاکر ٹی وی آن کیے تو آگے 170رنز کی شکست کی خبروں نے سب کو حیران کردیا

بدھ 30 دسمبر 2009

Pak Test Lose
اعجاز وسیم باکھری: میلبورن ٹیسٹ میں آسٹریلیا نے پاکستان کو 170رنز سے شکست دے کر تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں ایک صفر سے برتری حاصل کرلی ۔ایم سی جی کرکٹ گراوٴنڈ میں کھیل کے آخری دن422رنز کے ہدف کے تعاقب میں پاکستانی بیٹسمین آسٹریلوی بالرزمچل جانسن اور نیتھن ہورز کے سامنے بالکل بے بس نظر آئے اور غیر ضروری شارٹس کھیل کر اپنی وکٹیں گنواتے رہے ، گزشتہ ایک سال میں پاکستانی ٹیم ایسے بے شمارٹیسٹ میچز میں جیت کے قریب پہنچ کر ہمت ہارگئی اور پاکستان کو خسارے میں جانا پڑا اور ہرباربیٹسمینوں کی غیرذمہ دارانہ بیٹنگ شکست کا سبب بنی۔

گزشتہ رات دیر سے سونے کیو جہ سے میں صبح پانچ بجے کے الارم کے شور پر نہ اٹھ سکا ،جب سات بجے میری آنکھ کھلی تو میں پاکستان کی شکست کی خبرسن کر حیران رہ گیا کہ ”یہ کیا ہوا“کیونکہ ہرایک کا خیال تھا کہ 252رنز اور سات وکٹیں، پاکستان آسٹریلیا کے خلاف جیت کیلئے بھرپورکوشش کریگا لیکن طلوع آفتاب سے پہلے ہی شکست نصیب ہونا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

(جاری ہے)

چنددوست بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے میچ کی صورتحال جاننے سے قاصر تھے جب انہیں شکست کا ایس ایم ایس کیا تو کوئی بھی یقین کرنے کو تیارنہیں تھا کہ پاکستانی ٹیم جس کے 170پر3آؤٹ تھے 251پر آل آؤٹ ہوگئی ہے۔لیکن یہ پاکستانی بیٹسمینوں کی اب عادت بن چکی ہے کہ وہ اہم موقع پرہمت ہارجاتے ہیں۔ آج صبح بھی میچ کے پانچویں دن پاکستان نے دوسری نامکمل اننگز 170رنز3کھلاڑی آوٴٹ سے شروع کی تو قومی ٹیم کو میچ جیتنے کے لیے مزید 252رنز کی ضرورت تھی اور سات وکٹیں باقی تھیں۔

تاہم پاکستانی آرمان پہلے ہی اوور میں اُس وقت خاک میں مل گئے جب مچل جانسن نے پہلے ہی اوور میں پہلے عمر اکمل کو پویلین بھیجا اور پھر اگلی ہی گیند پر مصباح الحق کو بغیر کسی رنزکے آوٴٹ کرکے آسٹریلیا کیلئے جیت کویقینی بنادیا۔اس سے پہلے سری لنکا پھرنیوزی لینڈ اور اب آسٹریلیاکے خلاف پہلے ٹیسٹ میں پاکستانی بیٹنگ لائن اپ نے دھوکہ دیا اور ہربار مڈل آرڈرز بلے باز ہمت ہار جاتے ہیں۔

پہلے اوور میں وکٹیں گنوانے کے بعد پاکستانی بیٹنگ نہ سنبھل سکی اور باقی رہ جانیوالے بیٹسمین اپنی موت آپ مرنے کی مصداق آؤٹ ہوتے رہے ۔نیتھن ہورز کی گیند پر کامران اکمل غیر ذمہ دارنہ شاٹ کھیلتے ہوئے سٹمپ ہوئے اور اگلی ہی گیند پر آف سپنر نے محمد عامر کو بھی پویلین بھیج دیا ۔ پاکستان ٹیم نے کھانے کے وقفے پر 8وکٹ پر 249رنز بنالیے تھے ۔کھانے کے وقفے کے بعد کپتان محمد یوسف 61جبکہ سعید اجمل 10رنز بنا کر آوٴ ٹ ہوئے ۔

یو ں آسٹریلیا نے تین میچوں کی سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ 170رنز سے باآسانی جیت لیا ۔آسٹریلیا کی طرف سے آخری اننگز میں نیتھن ہورز نے شاندار باوٴلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانچ وکٹیں حاصل کیں جبکہ اس سے پہلے محمد عامرنے اننگزمیں پانچ وکٹیں حاصل کرکے بطورکم عمرفاسٹ باؤلروسیم اکرم کا ریکارڈ توڑڈالا۔ میلبورن ٹیسٹ کے پانچویں روز پاکستانی بیٹسمنیوں نے جوکیا یا جوگزشتہ ایک سال میں ٹیسٹ میچز میں پاکستانی بیٹسمین کرتے چلے آرہے ہیں یہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی نہ تو پہچان ہے اور نہ ہی روایت ہے کہ مشکل حالات میں بیٹسمینوں کے ہاتھ پاؤں پھول جائیں۔

ماضی میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے دنیا کی ہرٹیم کے خلاف کامیابیاں حاصل کیں اور شاید ہی کوئی ایک سال ایسا گزرا ہوجب پاکستان کو کسی سیریز میں کامیابی نہ ملی ہو۔ لیکن گزشتہ چند سالوں سے پاکستان ٹیسٹ سیریز جیتنے کیلئے ترس گیا ہے۔یہ بات بھی سچ ہے کہ ہماری ٹیم میں قابلیت بھی ہے اور اہلیت بھی، لیکن اچانک اہم موقع پر بیٹسمین پریشرہینڈل نہیں کرپاتے اور حریف ٹیم کی جانب سے کیا جانیوالا اٹیک پاکستانی ٹیم سے سنبھالا نہیں جاتا اور دیکھتے ہی دیکھتے چنداوورز میں پوری ٹیم قلیل ہدف کے سامنے سمٹ جاتی ہے۔

حالانکہ ماضی میں پاکستان نے آسٹریلیا کو اُس کی سرزمین پر،بھارت کو بھارت میں ،سری لنکا سمیت نیوزی لینڈ اورانگلینڈ ہربڑی ٹیم کو اُن کے ہوم گراؤنڈزپرہرایا ۔لیکن مشرف کی آمریت میں قومی ٹیم ایسی بیک فٹ پر گئی کہ لاکھ کوششوں کے باوجود ٹیم ٹریک پرنہیں آپارہی ،حالانکہ ہم نے پہلے ٹونٹی ورلڈکپ کافائنل کھیلا دوسرے میں ٹائٹل جیتا ،چیمپئنزٹرافی کا سیمی فائنل کھیلا لیکن اس کے باوجود ٹیم میں نہ تو تسلسل آیا ہے اور نہ ہی کھلاڑیوں میں جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

یونس خان جب تک کپتان تھے ہمارا خیال تھا کہ شاید اُن کی ناقص کپتانی اور خودسری پاکستان کی جیت میں آڑے آجاتی ہے لیکن اب تو خان صاحب خود ہی سائیڈ لائن پر بیٹھے ہیں لیکن ٹیم کا وہی حال ہے۔بیک اپ میں بھی ایسے منجھے ہوئے سٹارز نہیں ہیں کہ ان بڑوں سے نجات حاصل کرکے نیا خون سامنے لایا جائے کیونکہ قائد اعظم ٹرافی ہمارے سامنے ہے جہاں کوئی بھی بیٹسمین نمایاں طورپرسامنے نہیں آیا جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اُسے مصباح الحق یا فیصل اقبال کے متبادل کے طور پر ٹیم میں شامل کیا جائے ۔

اوپننگ کا مسئلہ کئی برس سے حل طلب تھا جو عمران فرحت اور سلمان بٹ نے قدرے حل کردیا ہے مگراس میں بھی بہتری کیلئے ابھی بھی 80فیصد مزید ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا باقی ہے اور ٹیل اینڈرز بھی آخرمیں ہربارنہ سہی کبھی کبھار اچھا کرجاتے ہیں ۔تمام مسئلہ تمام کمی اور ناکامی کی بنیادی جڑ ٹاپ آرڈرز اورمڈل آرڈرز کی غیرذمہ داری اور لاپرواہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان ٹیسٹ میچز میں جیت سے کو سوں دورہے۔

بولنگ کا شعبہ پاکستان کا ہمیشہ سے اچھے نتائج دیتا چلا آرہا ہے ،آصف ، عامر،دانش کنیریا اورعمرگل آج بھی حریف ٹیموں کیلئے وبال بن ہوئے ہیں اور یہ باؤلرز ہربارٹیم کو جیت کی امید دلاتے ہیں لیکن بیٹسمین ہربار”لٹ ڈاؤن“کرتے ہیں جس کا خمیازیہ شکست کی صورت میں بھگتناپڑتا ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم مینجمنٹ کو سنجیدگی سے ٹیم میں واضع نظرآنیوالی کمزریوں کو رفع کرنے کیلئے کوئی ٹھوس حکمت عملی کو اپناناچاہئے تاکہ بیٹسمین کم سے کم غلطیاں کریں اورفیلڈنگ میں جو آسان کیچز گرائے جاتے ہیں اُن پر بھی قابوپایا جائے۔

پاکستانی ٹیم کسی سے کم نہیں ہے اور بقول رکی پونٹنگ کہ، عالمی کرکٹ میں یہ واحد ٹیم ہے جسے ہرانے کیلئے کوئی حکمت عملی کام نہیں آتی ،کیونکہ کبھی یہ ٹیم ہرحکمت عملی پرپانی پھیردیتی ہے اور کبھی بغیر حکمت عملی مرتب کیے ہمیں پاکستان کے خلاف آسان جیت نصیب ہوجاتی ہے۔لہذا پی سی بی کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک طویل عرصے سے بیٹنگ میں چلنے والی کمزوریوں کو ختم کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پرکام کرے اور پاکستانی ٹیم کو جیت کے ٹریک پر واپس لانے کیلئے سنجیدگی اختیارکی جائے۔

آسٹریلیا اب وہ مضبوط آسٹریلوی ٹیم نہیں رہی جوآج سے چند سال پہلے تھی، گزشتہ سیزن میں اسی آسٹریلوی ٹیم کو بھارت اور جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرناپڑا تھا ۔اس بار بھی پاکستان کے خلاف آسٹریلیا نے کوئی ”آؤٹ سٹیڈنگ “کھیل پیش نہیں کیا ، بس نارمل کرکٹ کھیل کر پاکستان کو پہلے ٹیسٹ میں 170رنز سے شکست دی ہے ، حالانکہ رنزکے لحاظ سے یوں لگتا ہے کہ جیسے آسٹریلیا نے پاکستان کے خلاف بڑی کامیابی حاصل کی ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے ، یہ صرف پاکستانی بیٹسمینوں کی لاپرواہی سے آسٹریلیا کو اتنے بڑے مارجن سے کامیابی ملی ہے ،اگر آج صبح یوسف الیون ذمہ داری سے کھیلتی تو آسٹریلوی جیت کا مارجن کہیں کم ہوتا۔

بہرحال:ابھی بھی سیریز کے تین ٹیسٹ میچز سمیت پانچ ون ڈے میچ باقی ہیں ، پاکستانی ٹیم کے پاس اپنی ناکامی اور غلطیوں کا ازالہ کرنے کیلئے کافی وقت موجود ہے اور اگر بیٹسمینوں نے ذمہ داری کا ثبوت پیش کیا تو بقیہ میچز میں آسٹریلیا کو ہراناکوئی مشکل ٹاسک نہیں ہے۔

مزید مضامین :