”کولمبوٹیسٹ میں پاکستانی بیٹنگ لائن اپ روایتی طورپر پھرفلاپ “

Pak Vs Srilanka 3rd Test Day 1

انگلینڈ نے لارڈزمیں 75سال بعد آسٹریلیا کو شکست دیکر عالمی چیمپئن کاغرور خاک میں ملا دیا پی سی بی سے کرکٹرزکنارہ کشی کرنے لگے ، عبدالقادر کے بعد عامر سہیل بھی مستعفی ہوگئے

منگل 21 جولائی 2009

Pak Vs Srilanka 3rd Test Day 1
اعجازوسیم باکھری : کل پیرکا روز کرکٹ اور کرکٹ کی خبروں کے حوالے سے کافی مصروف ترین دن تھااور ہمیشہ کی طرح کرکٹ کے حوالے سے یہ مصروف دن پاکستان کرکٹ ٹیم اور پی سی بی کیلئے کوئی زیادہ خوشگوار نہیں تھا جس کی بنیادی وجہ سری لنکا کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میں ایک بار پھر قومی ٹیم کی بیٹنگ لائن اپ کا فلاپ ہونا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پی سی بی کے چیئرمین اعجاز بٹ کے رویہ سے تنگ آکر عامر سہیل نے بھی گھر کی راہ لے لی۔

جہاں پاکستان کرکٹ کے حوالے سے کل کا دن اچھا نہیں تھا وہیں انگلینڈ کرکٹ ٹیم کیلئے کل کا دن ہمیشہ کیلئے یادگار حیثیت اختیار کرگیا۔انگلش ٹیم نے دوسرے ایشزٹیسٹ میں آسٹریلیا کو 115رنز سے شکست دیکر نہ صرف سیریز میں ایک صفرکی برتری حاصل کرلی جبکہ لارڈز میں آسٹریلیا کو ہرانے کیلئے 75سال سے جاری انتظار کابھی خاتمہ کردیا۔

(جاری ہے)

ایشزسیریز کے آغاز سے قبل ہی ناقدین نے انگلینڈ کو فیورٹ قرار دیدیا تھا کیونکہ آسٹریلوی ٹیم کی اب وہ قوت اور دہشت نہیں رہی جو آج سے چندسال پہلے تھی۔

موجودہ آسٹریلوی ٹیم میں ماسوائے رکی پونٹنگ کے دیگر کوئی بھی کھلاڑی زیادہ سینئر نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ آسٹریلوی ٹیم کی کارکردگی کا معیار گرتا چلا جارہا جس کی واضع مثال ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے پہلے راؤنڈ سے باہر ہونا اور اب ایشزسیریز میں ایک صفرکے خسارے میں چلے جانے سے آسٹریلوی ٹیم کی قوت کا پول کھل کر سامنے آگیا ہے۔ایشزسیریز کی تاریخ بہت پرانی ہے اور ہمیشہ کی طرح اس سیریز میں بھی میزبان ٹیم کا پلہ بھاری ہے ، 2005ء کی سیریز میں انگلینڈ نے اپنی سرزمین پرایشزراکھ جیتی تو دوسال کے وقفے کے بعد آسٹریلیا نے اپنے ہوم گراؤنڈز پر دوبارہ راکھ پر قبضہ جمالیا اب 2009ء کی سیریز جاری ہے جہاں پہلا ٹیسٹ انگلش بیٹسمینوں نے عمدہ کارکردگی کی بدولت ڈرا کردیا اور دوسرے ٹیسٹ میں انگلش باؤلرز نے آسٹریلوی بیٹسمینوں کیلئے وکٹ پر ٹھہرنا دوبھرکردیا ۔

لارڈز ٹیسٹ میں مائیکل کلارک نے 522رنز کے ہدف کے تعاقب میں کافی مزاحمت کی اور وہ سنچری سے زائد سکور بنانے میں کامیاب رہے لیکن اینڈریوفلنٹوف جوکہ اپنی آخری ٹیسٹ سیریز کھیل رہے ہیں کے سامنے کوئی بھی آسٹریلوی بلے باز زیادہ دیر نہ ٹھہرسکا یوں انگلینڈ نے 115کے بھاری مارجن سے کامیابی حاصل کرکے ایک طویل عرصے بعد انگلش شائقین کو خوشی کا موقع فراہم کیا۔

دونوں ٹیموں کے مابین تیسرا ٹیسٹ 30جولائی سے برج ٹاؤن میں شروع ہوگا جہاں آسٹریلوی ٹیم کم بیک کرنے کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو صرف کریگی لیکن اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو آسٹریلیا کیلئے سیریز یا ایشزراکھ کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ آسٹریلیا کے پاس ایسے باؤلر نہیں ہیں جو انگلش ٹیم کو دوبار آؤٹ کرسکیں ۔اس وقت بیٹنگ میں ہیڈن ، لینگر ،گلکرسٹ اور مارٹن کی عدم موجودگی میں صرف پونٹنگ ہی لمبی اننگز کھیلنے والے بیٹسمین ہیں یا پھر مائیکل کلارک بعض مرتبہ اچھی اننگز کھیل جاتے ہیں لیکن اگر ایک ٹیم کے حساب سے آسٹریلوی ٹیم کا جائزہ لیا جائے تو پونٹنگ الیون اس وقت کمزور ترین ٹیم بن کر رہ گئی ہے ۔

پاکستان اور سری لنکا کے مابین کل سے شروع ہونیوالے تیسرے ٹیسٹ کے پہلے روز کے کھیل پر اگر نظردوڑائی جائے تویوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستانی بیٹسمین جیت کیلئے نہیں بلکہ اپنی روایت برقراررکھنے کیلئے زیادہ محنت کررہے ہیں۔یہ لگاتار تیسرا ٹیسٹ میچ ہے جہاں پاکستانی بیٹسمین سارا دن عمدہ کھیل پیش کرتے ہیں اور صرف ایک گھنٹہ غیرذمہ داری سے کھیل کرساری محنت پر پانی پھیر دیتے ہیں۔

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ ہمارے بیٹسمین شاید اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں یا انہیں سمجھانے والا کوئی نہیں یا پھر وہ کچھ سیکھنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ ہربار ایک ہی طریقے ، ایک ہی وقت میں ایک دم سے بھیگی بلی بن جاتے ہیں اور میچ میں کئی گھنٹوں سے کی جانیوالی محنت ایک گھنٹے میں ضائع کردیتے ہیں۔قومی بیٹسمینوں کا ایک دم سے فلاپ ہونا کم از کم میرے لیے ایک معمہ بن کر رہ گیا ہے نجانے ایسی کیا وجہ ہے یہ چند منٹوں میں اپناصفایا کرابیٹھتے ہیں ۔

اعجاز بٹ اور یونس خان جتنا بھی انکار یا تردید کریں لیکن یہ تو سچ ہے کہ ٹیم میں اختلافات بھی ہے اور گروپ بندی بھی عروج پر ہے ورنہ ٹیم کی کارکردگی یہ نہ ہوتی ۔اگر سری لنکن باؤلرز اچھی بولنگ کراتے تو پھر الگ بات تھی لیکن انہیں کبھی اچھی بولنگ کرانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ پاکستانی بیٹسمین خود اپنی وکٹیں انہیں تحفے کے طورپر پیش کرتے ہیں ۔

پہلے روز محمد یوسف اور خرم منظور نے عمدہ بیٹنگ کی لیکن اُن کے بعد آنیوالے بلے بازوں نے اُسی غیر ذمہ داری سے بیٹنگ کی جس طرح وہ پہلے کرتے چلے آرہے تھے تاہم اس کے باوجود بھی امید کی جاسکتی ہے کہ قومی ٹیم ایک ٹیم کی طرح مقابلہ کرے گی اور یہ ٹیم کم بیک کی صلاحیت رکھتی ہے اگر ایمانداری سے کھیلیں تو پاکستان میچ میں واپس آسکتا ہے جس کی شائقین اب بھی توقع کررہے ہیں ۔

گزشتہ روز پی سی بی کے ڈائریکٹر گیم ڈویلپمنٹ اینڈ اکیڈمیز عامر سہیل نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ،عبدالقادر کے بعد کرکٹ بورڈ سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے عامر سہیل دوسرے بڑے کھلاڑی ہیں ۔یوں لگتا ہے کہ کرکٹرز پی سی بی کے امور چلانے میں ناکام ہوگئے ہیں یا پھر اعجاز بٹ ایک آمر کی طرح بورڈ پر قابض ہیں جس سے ناراض ہوکر ٹیسٹ کرکٹرز نے بورڈ سے کنارہ کشی اختیار کرنا شروع کردی ہے ۔

اس سے پہلے جاوید میانداد بھی ناراض ہوکر چلے گئے تھے لیکن وہ تنخواہ میں اضافے کے بعد بورڈ میں لوٹ آئے لیکن عامر سہیل اور عبدالقادر کی واپسی کا کوئی چانس نہیں ہے کیونکہ یہ سخت اصول پسند سمجھے جاتے ہیں ۔اگر بورڈ سے اسی طرح ٹیسٹ کرکٹرز کے استعفوں کا تسلسل جاری رہا تو ٹیم کی کارکردگی کی طرح بورڈ بھی بیٹھ جائے گا ۔اعجاز بٹ کو چاہیے کہ وہ جس جذبے کے ساتھ بورڈ میں خود آئے تھے اور ٹیسٹ کرکٹرز کو لائے تھے اُسی جذبے سے کام کریں تاکہ پاکستان کرکٹ بحران سے نکل سکے اور بالخصوص بٹ صاحب کی رخصتی کے بعد انہیں اچھے الفاظ میں یاد رکھا جاسکے ۔

مزید مضامین :