چیمپئنزٹرافی ،بھارت کو پاکستان کے ہاتھوں54رنز سے عبرتناک شکست

Pak Win Against India

قومی ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ گئی ، قوم کے اداس چہروں پرایک بارپھر رونق لوٹ آئی ہندوستان کے خلاف کامیابی پر ملک بھر میں جشن ، لوگ سڑکوں پر نکل آئے ، پاکستان زندہ باد کے نعرے ، ملی نغموں پر بھنگڑے

اتوار 27 ستمبر 2009

Pak Win Against India
اعجازوسیم باکھری: چیمپئنزٹرافی کرکٹ ٹورنامنٹ کے اہم معرکے میں پاکستان نے بھارت کو 54رنز سے عبرتناک شکست دیکر سیمی فائنل کیلئے کوالیفائی کرلیا ہے ۔قومی ٹیم نے ایک ایسے مرحلے میں فتح حاصل کی جب پاک بھارت تعلقات کشیدہ ہیں اور سفارتی سطح پر دونوں ممالک کو ایک ٹیبل پر اکٹھا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ایسی صورتحال میں پاکستان کی بھارت کے خلاف فتح نے نہ صرف پاکستانی پرچم کو مزید سربلند کردیا ہے بلکہ بھارت کو ہٹ دھرمی ترک کرکے امن کا رویہ اختیار کرنے کا بھی پیغام دیا ہے ، ممکن ہے کہ کرکٹ میچ میں پاکستان کی فتح سے بھارتی ہٹ دھرمی ختم نہ ہولیکن پاکستان کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد یقینی طور پر ہندوستانیوں کو اس بات کا احساس ضرورہوگا کہ اُن کی دشمنی اور چپقلش کسی کمزور سے نہیں بلکہ ایک دلیراور زندہ قوم سے ہے جوکسی بھی میدان میں انہیں شکست دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔

(جاری ہے)

جنوبی افریقی شہر سنچورین میں ہونیوالے تاریخی معرکے میں پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 302رنز بنائے ، پاکستانی اننگز کی خاص بات شعیب ملک اور محمد یوسف کی شاندار بیٹنگ تھی ، دونوں نے چوتھی وکٹ کی شراکت میں ر یکارڈ206رنز بنائے، شعیب ملک نے 128اور محمد یوسف نے 87رنز کی ذمہ دارانہ اننگز کھیلی۔جواب میں بھارت نے 303رنز کے مشکل ہدف کا تعاقب شروع کیا تواُسے ابتدا ہی میں سٹار بیٹسمین سچن ٹنڈولکر کی وکٹ کا نقصان اٹھانا پڑا، ماسٹر بلاسٹر اور سنچریوں کی سنچری کے قریب پہنچنے والے بیٹنگ کے دیوتا کے صرف آٹھ رنز بنانے کے بعد نوجوان پیسر محمد عامر کا شکاربنے ،قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ سچن ٹنڈولکر نے اپنے کیرئیر کا آغاز 1989ء میں کیا جبکہ محمد عامر اُن کے کیرئیر کا آغاز سے 3برس بعد پیدا ہوئے ، محمد عامرکی اتنا عمرنہیں جنتا سچن ٹنڈولکر کو انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا تجربہ ہے لیکن قسمت جب مہربان ہوتی ہے تو وہ ان اعداد وشمار کو خاطر میں لائے صرف اُسی کا ساتھ دیتی ہے جس پر قدرت مہربان ہو اور اس بار قدرت پاکستانی ٹیم اور محمد عامر پر مہربان تھی یہی وجہ کہ سچن ٹنڈولکر جیسا بڑا بیٹسمین بھی اپنی ٹیم کو شکست سے نہ بچا سکا۔

گوتم گمبھیر اور راہول ڈریوڈ نے کچھ دیر تک مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن وہ دونوں بھی 1 ارب بھارتیوں کی کرکٹ ٹیم کو 16کروڑ پاکستانیوں کی ٹیم کے ہاتھوں شکست سے محفوظ نہ رکھ سکے۔پاکستانی باؤلرز کی عمدہ بولنگ کے سامنے سچن ٹنڈولکر، گوتم گمبھیر، کوہلی ،دھونی ، یوسف پٹھان ،ڈریوڈ اور رائنا جیسے بڑے نام بے بس نظرآئے اور آخرتک بے بسی کی تصویر بنے رہے۔

حالانکہ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پاکستانی باؤلرز نے جہاں اچھی گیندیں پھینکیں وہیں خراب بولنگ بھی کھلے دل سے کی ، لاتعدادنوبالز کی گئیں اور پھر فری ہٹ گیندوں پر چھکے چوکے کھائے گئے لیکن اس کے باوجود بھارتی بیٹسمین کچھ نہ کرسکے اور ہدف سے 54رنز دور248پرہی ڈھیر ہوگئے ۔پاکستان اس کامیابی سے سیمی فائنل میں پہنچنے والی پہلی ٹیم بن گئی ہے ،پہلے میچ میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو پانچ وکٹوں سے شکست دی تھی اور اب بھارت کے خلاف کامیابی حاصل کرکے پاکستان اپنے گروپ میں ٹاپ پوزیشن پر آگیا ہے جبکہ اس گروپ سے دوسری سیمی فائنلسٹ ٹیم کا فیصلہ بھارت اور آسٹریلیا کے میچ میں ہوگا ۔

ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کی طرح جیسے ہی پاک بھارت میچ ختم ہوا تو رات کے دو بجے بھارت کے خلاف کامیابی پر جشن کا وسیع سلسلہ شروع ہوا اور چند ہی منٹوں میں تمام بڑے شہروں میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور خوب بھنگڑے ڈالے جبکہ چاروں اطراف پاکستان زندہ باد کے نعرے سنائی دے رہے تھے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کرکٹ ہم پاکستانیوں کے خون میں رچی بسی ہے ،ٹونٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا فائنل ہویا پھر چیمپئنزٹرافی میں بھارت کے خلاف کامیابی پاکستانی نوجوانوں نے دونوں فتوحات پر خوب جشن منایا ،گزشتہ رات چونکہ ویک اینڈ تھا اس لیے نوجوان ساری رات گاڑیوں اور موٹرسائیکلز پر پاکستان کی جیت کا جشن مناتے رہے کیونکہ بھارت پاکستان کا کراہ ارض پر سب سے بڑا دشمن ہے ۔

بھارتی حکومت اور پاکستانی فنکار جو بھی کہیں لیکن یہ اٹل حقیقت ہے کہ پاکستا ن اور بھارت ایک دوسرے کے دوست نہ ہیں ، نہ تھے اور نہ کبھی بنیں گے ۔یہ دو الگ الگ ملک ہیں جہاں مختلف مزاج کے لوگ رہتے ہیں لہذا بھارت کے ساتھ رنجش ہمارے خون میں شامل ہے اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں نمایاں کشمیر ہے اور اب یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے اندر بم دھماکوں میں ملوث ہیں اور بھارت ہرطریقے سے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ لہذا یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم بھارت یا بھارت کی دوستی کو تسلیم کریں ۔

یہی وجہ ہے کہ بھارت کے ساتھ جب بھی پاکستان کا کرکٹ یا ہاکی کا میچ ہوتا ہے کہ تو پوری قوم یکجا ہوکر اپنی ٹیم کیلئے دعاگو ہوتی ہے اور شکست پر تمام لوگوں کے چہرے اتر جاتے ہیں اور جب کامیابی ملتی ہے تو پورا ملک جشن کیلئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔پاکستان کی کامیابی پر جشن صرف پاکستان ہی میں نہیں منایا جاتا بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی پاکستانی موجود ہیں وہ بھارت کے خلاف اپنی ٹیم کی جیت پر مسرور ہوتے ہیں باقاعدہ جشن مناتے ہیں ، پاکستان سے باہر منایا جانیوالا جشن جیت کی خوشی کیلئے اتنانہیں ہوتا جتنا بھارتیوں کے دل جلانے اور انہیں اُن کی حیثیت یاد دلانے کیلئے منایا جاتا ہے ۔

میں اس کے حق میں ہوں کہ جس سے جو بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی جیت کیلئے ضرور خوشی منائے اور بھارتیوں کوجلایا جائے کیونکہ میرے پاس سینکڑوں ایسی ای میلز موجود ہیں اور میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جن کی پاک بھارت میچ پر بھارتیوں سے لڑائیاں ہوتی ہیں ، پاکستان سے باہر مقیم پاکستانی بالخصوص نوجوان سٹوڈنٹس کی اکثر و بیشتر مرتبہ بھارتیوں سے لڑائی ہوجاتی ہے کیونکہ بھارتی پاکستان کے خلاف غلط زبان استعمال کرتے ہیں جوکہ کسی بھی پاکستانی کیلئے قابل وقبول نہیں ہے لہذا جب بھی پاکستان بھارت کے خلاف کرکٹ یا ہاکی کے میدان میں کامیابی حاصل کرے تو ایسے جیت کا جشن شاندار طریقے سے منا یا جانا چاہئے تاکہ دنیا کو اس بات کا احساس ہوکہ پاکستانی دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ یہ دنیا کے ہرشعبے میں نمایاں کارکردگی پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

انگلینڈ میں ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں پاکستان کی جیت پر جس انداز میں وہاں مقیم پاکستانیوں نے جشن منایا وہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن گزشتہ روز جنوبی افریقہ سنچورین میں بھی پاکستانی شائقین نے اپنی ٹیم کی جیت پر خوب بھنگڑے ڈالے اور بھارت کو ہرانے کی خوشی میں اس حد تک ہوش کھو بیٹھے کہ آخری کھلاڑی کے بولڈ ہوتے ہی دیوانہ وارگراؤنڈ میں داخل ہوگئے اور قومی کھلاڑیوں کو کاندھوں پر اٹھالیا حالانکہ گراؤنڈ میں داخل ہونا ایک جرم ہے اور ایسی حرکت کرنیوالے تماشائی کی مستقبل کیلئے سٹیڈیم داخلے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے لیکن گزشتہ روز پاکستانیوں نوجوانوں نے تمام پابندیاں بھلاکر اپنی ٹیم کی جیت کا جشن خوب منایا۔

لاہور سے گئے ہوئے صحافیوں سے میچ کے فوری بعد بات ہوئی تو اُن کے بقول سٹیڈیم سے ہوٹل جانا مشکل لگ رہا ہے خوشی کا ایسا سماں کہ اوول کا میدان یاد آگیا جہاں ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کی جیت کی خوشی میں پاکستانیوں نے تین گھنٹے تک جشن منایا۔پاکستان کی بھارت کے خلاف کامیابی پر جہاں بے پناہ خوشی ہے وہیں مجھے ساؤتھ افریقین ہائی کمیشن پر بے حد غصہ بھی آرہا ہے کہ تین ہفتے ہونیوالے ہیں مجھ سمیت متعدد پاکستانیوں صحافیوں کو تاحال چیمپئنزٹرافی کی کوریج کیلئے ویزے جاری نہیں کیے گئے اور بلاوجو تاخیر کی جاری ہے، بھارت کے خلاف تاریخی کامیابی کا منظرجہاں اپنی آنکھوں سے دیکھنا تھا وہ سب ہائی کمیشن کی نااہلی کی نظر ہوگیا ہے لیکن اس کے باوجود بھر پورخوشی ہے کہ قومی ٹیم نے قوم کو مایوس نہیں کیا اور توقع ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف 30ستمبر کو بھی پاکستان اسی جذبے کے ساتھ کھیلے گا ، اگر قومی ٹیم آسٹریلیا سے شکست بھی کھا جاتی تو اُس سے سیمی فائنل تک رسائی کیلئے کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی ، قومی کھلاڑیوں نے جس طرح بڑے میچ میں بڑے دل کے ساتھ کرکٹ کھیلی اسی تسلسل کے ساتھ کے چیمپئنزٹرافی کے بقیہ میچزبھی کھیلنے چاہیں کیونکہ ٹرافی اب صرف 2میچ دور ہے ۔

اگر پاکستان چیمئنزٹرافی جیتنے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ تو پہلا ملک بن جائیگا جسے تما م بڑے ٹورنامنٹس جیتنے کا شرف حاصل ہوگا کیونکہ پاکستان اس سے قبل 92کا ورلڈکپ ،ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ سمیت ایشیا کپ جیتا چکا ہے اور اگرآخری رہ جانیوالا چیمپئنزٹرافی کا ٹائٹل بھی پاکستان حاصل کرلیتا ہے تو اس سے نہ صرف پاکستان کرکٹ کو نئی جان ملے گی بلکہ ملک کی عزت و توقیر میں بھی اضا فہ ہوگا۔

مزید مضامین :