ایشیا کپ،ویل ڈن بنگلہ دیش، پاکستان ایشین ٹائیگر بن گیا

Pakistan Asian Tiger Ban Giya

پاکستان نے آخری گیند پر فتح حاصل کرکے 12سال بعد ایشین چیمپئن کا تاج اپنے سرسجا لیا قومی ٹیم کی فتح پر ملک بھر میں وسیع پیمانے پر جشن ، بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی خوشی سے جھوم اٹھے

جمعہ 23 مارچ 2012

Pakistan Asian Tiger Ban Giya
اعجازوسیم باکھری : پاکستان نے بنگلہ دیش کو فائنل میں شکست دیکر ایشین ٹائیگربننے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔ اعزاز چیمہ کے آخری اوور میں بنگلہ دیشی ٹیم میچ کی آخری گیند پر ہدف سے دو رنز پیچھے رہ گئی اور پاکستان نے ایشین چیمپئن کا تاج اپنے سر سجا لیا۔ انتہائی اعصاب شکن مقابلے کے بعد پاکستان کی جیت پر ملک کے کونے کونے میں جشن شروع ہوا اور رات گئے تک جاری رہا۔

ایشیا کپ کے فائنل میں پاکستان کا مقابلہ قدرے کمزور حریف سے تھا اور پاکستان کو یہ مشکل فتح بھی اس لیے مشکلات سے ملی شاید پاکستانی ٹیم نے بنگلہ دیش کو کمزور سمجھا تھا۔ بنگال ٹائیگرزنے جس طرح پورے ٹورنامنٹ میں عمدہ کارکردگی دکھائی وہ تسلسل فائنل میں بھی برقرا رکھا۔ پاکستان جیسی مضبوط بیٹنگ لائن اپ کو بنگالی باؤلرز نے ہاتھ کھولنے کا موقع ہی نہ دیا۔

(جاری ہے)

اوپنرز نے دغا دیاتو مڈل آرڈرز بری طرح فلاپ ہوگئے تاہم لوئر آرڈرزاور ٹیل اینڈرز نے کوشش کرکے ہدف کو قابل ستائس مجموعے تک پہنچا دیا۔ بنگلہ دیش نے اپنی باری کا آغاز کیا تو تمیم اقبال نے وہی روایتی انداز اختیار کرتے ہوئے ڈٹ کربیٹنگ کی۔ بنگلہ دیشی اوپنرز کا یہ ہمیشہ سے خاصہ رہا ہے کہ وہ دلیری کے ساتھ بیٹنگ کرتے ہیں اور حریف ٹیم کوئی بھی وہ اپنے طرز کو نہیں چھوڑتے یہی وہ خاص بات ہے جس کی بدولت وہ ایشیا کپ کے فائنل میں پہنچے اور پاکستان کو ٹف ٹائم دیا۔

شاہد آفریدی نے پاکستان کو پہلا بریک تھرو دلایا تو بنگالی بیٹنگ لڑکھڑانا شروع ہوگئی تاہم شکیب الحسن نے وکٹ پر قیام کرکے اور دلیری کے ساتھ پاکستان باؤلنگ کا مقابلہ کرکے پاکستانی کیمپ میں سنسنی اور بنگالی کیمپ میں خوشی پھیلا دی۔ ڈھاکہ کا میر پورسٹیڈیم اس وقت پرجوش اور خوش تھا جب شکیب پاکستان باؤلرز کے سامنے ڈٹا ہوا تھا اور ناصر حسین اس کا مسلسل ساتھ دے رہا تھا ۔

جوں جوں میچ آگے بڑھتا چلا گیا اور ہدف قریب آتا گیا میچ میں سنسنی خیز بڑھتی گئی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ پاکستانی ٹیم کو شکست قریب نظر آنا شروع ہوگئی۔ گزشتہ روز جب میچ کا آغاز نہیں ہوا تھا تو دوستوں نے پوچھا کہ کامیابی کس کو ملے گی توہمیشہ کی طرح میرا جواب تھا کہ پاکستان جیتے گا لیکن دیگر پاکستانیوں کی طرح میرے دوستوں کا خیال بھی تھا کہ پاکستان بنگلہ دیش سے یہ میچ ہار جائیگا اور اس کے انعام میں پاکستانی ٹیم بنگلہ دیش کا دورہ کریگی۔

لیکن میں اس منطق کا سخت مخالف تھا تاہم جب بنگلہ دیش کو آخری اوور میں میچ جیتنے کیلئے نو رنز کی ضرورت تھی تو اس وقت پہلی بار مجھے محسوس ہوا کہ کہیں ہم یہ میچ ہار تو نہیں جائیں گے۔ تاہم دعائیں رنگ لے آئیں اور اعزاز چیمہ نے پاکستان کو بڑا اعزاز دلا دیا جس پر پوری قوم کا نہ صرف سرفخر سے بلند ہوگیا بلکہ اداس چہروں پر رونق بھی لوٹ آئی۔ پاکستان کی جیت پر شائقین نے ایسا جشن منایا کہ شہروں میں زندگی معطل ہوکر رہ گئی۔

نوجوان دیوانوں کی طرح سڑکوں پر ناچتے رہے اور ڈھول کی تھاپ پر رقص رات گئے تک جاری رہا۔ مصباح الحق کے بارے میں فیس بک اور ایس ایم ایس پر جو تنقیدی مہم جاری تھی وہ مبارکباد کے پیغامات میں بدل گئی۔ شاہد آفریدی سے جس کو گلہ تھا وہ اس کی تعریف میں مصروف تھا۔ بھارت کیخلاف شکست پر جنہوں نے دوبارہ میچ نہ دیکھنے کا عہد کیا تھا وہ عہد توڑ کر ٹیم کی جیت پر خوشی مناتے رہے۔

مالی ، گھریلو اور ملکی حالات سے جو پریشان تھے وہ اپنی پریشانی کو بھول چکے تھے اور ایک ہی بات کی خوشی تھی کہ پاکستان ایشین چیمپئن بن گیا ہے۔ ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں جیت کی آس میں خوشیاں منانے کے جو پروگرام دھرے کے دھرے رہ گئے تھے وہ اپنی پوری آب و تاب سے دوبارہ شروع ہوئے اور پوری رات جاری رہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی جنہیں ہمیشہ آس رہتی ہے کہ پاکستان سے کوئی اچھی خبرآئے اور ان کے چہروں پر رونق آئے ان کا بھی انتظار ختم ہوا اور انہیں بھی پاکستانی ہونے پر فخر کرنے کا بڑے موقع میسر آیا۔

انگلینڈ ، امریکہ ، یواے ای اور سعودی عرب میں بسنے والوں دوستوں کے پیغامات سے اندازہ ہوگیا کہ پاکستان کی جیت پر وہ کس قدر خوش ہیں۔ ایک طویل عرصہ بعد جب ٹیم کی کامیابی کی خبرپہنچی تو پاکستانیوں کے سرفخر سے بلند ہوگئے اور یہی وہ مواقع ہوتے ہیں جب دنیا آپ کی قدر کرتی ہے اور عزت و توقیر دی جاتی ہے۔ گوکہ یہ کامیابی بنگلہ دیش کیخلاف تھی لیکن ایک پاکستانی کیلئے فخر کرنے کرنے کیلئے یہی کافی ہے کہ ان کی ٹیم ان کا ملک ایشین چیمپئن یعنی ایشین ٹائیگر بن گیا ہے۔

بھارت کے ہوتے ہوئے بلکہ اس کے ذلت آمیز انخلاء کے بعد پاکستان کا ایشین چیمپئن بننا اگر عالمی چیمپئن بننے کے برابر نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔ قومی ٹیم کی جیت ایک تاریخی کارنامہ ہے اور جیت سے جہاں پاکستانیوں کو رواں سال کی پہلی بڑی خوشی میسر آئی وہیں پاکستان کے وقار میں بھی اضافہ ہوا جس پر ہم پاکستانی جس قدر بھی ناز کریں وہ کم ہے اور جس قدر خوشی منائیں وہ بھی کم ہے کیونکہ دنیا دیکھ لے ہم ایشین ٹائیگر بن گئے ہیں۔

مزید مضامین :