پاکستانی کرکٹ ایک بار پھر بحران کاشکار

Pakistan Cricket Aik Baar Phir Bohraan Ka Shikar

محدود اختیارات ملنے پر جاوید میانداد ڈائریکٹر جنرل کے عہد ے سے مستعفی میں مرضی اورعزت سے کام کرنا چاہتا ہوں ،میانداد،سابق کپتان ماضی میں بھی تین بار یا تو برطرف کیے گئے یا پھر مجبوراً ان کو استعفیٰ دینا پڑا

جمعرات 29 جنوری 2009

Pakistan Cricket Aik Baar Phir Bohraan Ka Shikar
اعجازوسیم باکھری: پاکستان کرکٹ کی بدقسمتی ہے کہ جب اس پر برے دن آتے ہیں تو ایک ساتھ آتے ہیں اور بجائے حالات سدھرنے کے روز بروز بگڑتے چلے جاتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ معاملات سلجھنے کی پہنچ سے دور ہوجاتے ہیں۔سری لنکا کے خلاف تاریخی شکست کو ابھی تین روز ہوئے تھے کہ شعیب ملک کو کپتانی سے برطرف کرکے یونس خان کو نیا قائد بنادیا گیا۔

ابھی اس تبدیلی کو 24گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ سابق عظیم بیٹسمین جاویدمیاندادنے بطورڈائریکٹر جنرل پی سی بی کاعہدہ چھوڑ دیا۔میاندا د کا موقف ہے کہ ان کے پاس محدود اختیارات ہیں اور انہیں جوکام دینے کی حامی بھری گئی تھی وہ ان کے کنٹریکٹ میں شامل ہی نہیں ہے۔جاویدمیانداد نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ایک عزت اوربڑا مقام رکھتے ہیں اور کرکٹ کے حلقوں میں عمران خان کے بعد جاوید میانداد ہی ایک ایسا نام ہے جنہیں پاکستان کا دوسرا بڑا عظیم کھلاڑی کہاجاتا ہے۔

(جاری ہے)

میانداد نے ڈی جی کے عہدے سے استعفیٰ دیکر کوئی نیا یا انوکھا اقدام نہیں اٹھایا بلکہ اوّل تو جس روز انہیں کرکٹ بورڈ کا ڈی جی بنایا گیاتھا اسی روز یہ یقین ہوگیا تھا کہ موصوف بمشکل چھ ماہ کا عرصہ بورڈ میں گزار پائیں گے کیونکہ ماضی میں وہ تین بار قومی کرکٹ ٹیم کے کوچ بنائے گئے اور تینوں بار وہ وقت سے پہلے یا تو عہدے سے ہٹا دیئے گئے یا پھر انہوں نے خود استعفیٰ دیدیا۔

جاوید میانداد کے کرکٹ بورڈ سے یوں ناراض ہوکر چلے جانے سے ایک بات تو واضع ہوگئی ہے کہ سابق کرکٹرز سے کھچا کھچ بھرے بورڈ میں معاملات ٹھیک طرح سے نہیں چل رہے۔گوکہ جاوید میانداد نے واضع طور پر کہاکہ ان کا استعفیٰ شعیب ملک کی برطرفی اور یونس خان کی بطور کپتان تعیناتی کی وجہ نہیں ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ میانداد شعیب ملک کو ایک سیریز میں ناکامی پر برطرف کیے جانے کے خلاف ہیں اور انہوں نے بورڈ کے اعلیٰ حکام کو اس فیصلے پر تنقید کا نشانہ بنایا جس پر کرکٹ بورڈ نے عظیم بیٹسمین کو بطور ڈی جی ان کے کاموں کی لسٹ تھمادی جس کا بنیادی مقصد ان کویہ باور کراناتھا کہ ”جناب آپ کے یہ کام ہیں اور ان کاموں میں آپ نے مداخلت نہیں کرنی “بورڈ کی جانب سے کنٹریکٹ لسٹ تھمائے جانے کے بعد میانداد نے ماضی کی طرح استعفیٰ دیکر گھر کی راہ لینے کا فیصلہ کیا۔

بعض ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ میانداد کرکٹ بورڈ سے 10لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ مانگ رہے تھے جو بورڈ نے دینے سے انکار کردیا ۔ویسے بھی ماضی میں جاویدمیانداد کے بارے میں یہ کہا جاتا رہا کہ وہ پیسے کو ترجیح دیتے ہیں اوران کی اسی عادت کی وجہ سے انہیں ماضی میں سابقہ کرکٹ بورڈ یا تو قبول نہیں کرتے تھے اور اگر کوئی ان کی پاکستان کی جانب سے 124ٹیسٹ میچز میں نمائندگی کو مدنظر رکھ کر ملازمت دینے پر راضی بھی ہوا تو جاوید میانداد کی جانب سے بھاری پیسوں کا مطالبہ ان کی چھٹی کی وجہ بن گیا۔

اس بار جب میانداد بورڈ میں آئے تو سب کا خیال تھا کہ پہلی مرتبہ میانداد کو سابق کرکٹرز کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل رہا ہے اور اس بار نہ تو انہیں کوئی تنگ کریگا اور نہ وہ کسی سے تنگ آئیں گے لیکن وہیں میانداد کے مزاج سے واقف لوگوں کویقین تھا کہ وہ بورڈ میں زیادہ عرصہ نہیں گزارپائیں گے اور بالآخر وہی ہوا ۔وہ اس لیے ناراض ہو کر بورڈ سے چلے گئے کہ انہیں صرف ڈومیسٹک تک محدود رکھا جارہاہے۔

استعفیٰ دینے کے بعد قذافی سٹیڈیم لاہور میں جب اپنے دور کے عظیم بلے بازاور شارجہ میں آخری بال پر چھکا لگا کر پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرانے والے جاوید میانداد میڈیا سے بات چیت کررہے تھے تومیں بھی اس پریس کانفرنس میں موجود تھا۔جاوید میانداد مسلسل بول رہے تھے اور میں ان کا چہرہ غور سے دیکھ رہا تھا اور 15منٹ کی بریفنگ کے دوران میں نے میانداد کو کئی بار مسکراتے ہوئے تو دیکھا لیکن ایک باربھی وہ غمزدہ نظر نہیں آئے اور نہ ہی ان کے چہرے پر اداسی یا مایوسی کے اثار نظر آئے البتہ ہاں ،وہ ایک دو بار غصے میں ضرور آگئے تھے ۔

صحافیوں سے بات چیت کے دوران جاویدمیانداد نے کہا کہ ” مجھے صرف ڈومیسٹک کرکٹ تک محدود کیا جارہا تھا جو میرے لئے قابل قبول نہیں،اس لئے استعفیٰ دیدیا ہے۔ میری ناراضگی کا تعلق شعیب ملک کو ہٹانے اور یونس خان کو کپتان بنانے سے نہیں ہے بلکہ میں نے پی سی بی کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا اورکرکٹ کیلئے بے لوث خدمت کررہاتھا اور اب تک بورڈ سے ایک پائی تک نہیں لی جبکہ مجھے پہلے کچھ اور بتایا گیا تھا کہ میرے کیا کام ہونگے تاہم کنٹریکٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس پر میں نے عزت کے ساتھ رخصت ہونے کو ترجیح دی ۔

میرے ہاتھ میں جب کچھ نہیں تو میں کیا رزلٹ دوں گا،میں اختیارات کا توازن چاہتاہوں تاکہ کرکٹ کی بھرپور خدمت کرسکوں اورکنٹریکٹ میں دیے گئے کام مجھے پسند نہیں ہیں۔شعیب ملک کو برطرف کیے جانے کے سوال پر میانداد نے کہاکہ اگر ایک سیریز میں ناکامی کو ایشوبنا کر کپتان تبدیل کیا گیا ہے تو یہ غلط فیصلہ ہے ۔بطور کرکٹرمیں سمجھتا ہوں کہ کپتان سمیت تمام کھلاڑیوں کو عزت دی جانی چاہیے ۔

کھیل میں ہار جیت ہوتی ہے اور یونس خان کیلئے ان کی نیک خواہشات ہیں ،کرکٹ بورڈ جب کسی کو کپتان بناتا ہے تو اچھا سمجھ کر بناتا ہے اور جب کھلاڑی کپتان بن جاتا ہے تو اس میں مزید بہتری آتی ہے لہذا سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا چاہیں۔ اللہ نے مجھے بہت عزت دی ہے، پاکستان سے باہر جاکر ہماری عزت کا آپ کو اندازہ ہوگا، لہذا ہر بار میں نے صرف اپنی عزت کی وجہ سے استعفیٰ دیا ہے کیونکہ عزت سب کو پیاری ہوتی ہے۔

قارئین:اس بات کااندازہ لگانا مشکل ہے کہ جاویدمیانداد کے کرکٹ بورڈ سے چلے جانے سے پاکستانی کرکٹ پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں یا نہیں ۔کیونکہ جاوید میانداد کا ٹریک ریکارڈ اس بات کا شاہد ہے کہ وہ جنتا عرصہ بھی بورڈ میں رہے ہمیشہ ایک متنازع شخصیت کے طور پر رہے ۔لیکن اس کے باوجود پی سی بی نے ایک عظیم کھلاڑی کو ناراض اور مایوس کرکے نہ صرف جاویدمیانداد جیسے بڑے نام کے ساتھ زیادتی کی ہے بلکہ اس سے سابق کھلاڑیوں کا دل بھی ٹوٹ گیا ہے او ر پاکستان میں کرکٹ بھی ہاکی کے طرح قریب زوال ہوتی چلی جارہی ہے۔

مزید مضامین :