حد ہوگئی !لگاتار دوسرے ٹیسٹ میں بھی حیران کن شکست

Pakistan Loose 2nd Test

قومی ٹیم نے اپنا عالمی چیمپئن کا بھرم صرف21دن بعدہی خاک میں ملادیا ایک گھنٹہ قبل کھیل پر گرفت مضبوط رکھنے والی ٹیم کو اگلے گھنٹے میں عبرتناک شکست،دال میں کہیں کالا ضرور ہے

بدھ 15 جولائی 2009

Pakistan Loose 2nd Test
اعجاز وسیم باکھری: کرکٹ کا کھیل مجھے حد سے زیادہ پسند ہے اور میں دیکھنے کے ساتھ ساتھ خود اسے کھیلنا بھی پسند کرتا ہوں۔میری فیورٹ ٹیم پاکستانی ہے اور پاکستان کے میچز نہ دیکھنے کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،ٹیم اچھا کھیلے یا برا کھیلے میں ایک ہی شوق و جذبے سے میچ دیکھتا ہوں ،پہلے تو محض ایک کرکٹ لوور کے طور پر دیکھتا تھا لیکن گزشتہ ساڑھے چار سال سے سپورٹس جرنلزم میں آنے کے بعد میرے لیے میچ دیکھنا ایک لازمی جز بن چکا ہے ۔

گزشتہ ماہ قومی ٹیم نے جب ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ جیتا تو پوری قوم کے طرح میں بھی بہت خوش تھا اور مجھے سپورٹس جرنلزم سے وابستہ ہونے پر پہلی بار سب سے زیادہ خوشی محسوس ہوئی تھی اور پاکستان کی جیت پر مجھے دوستوں اور قارئین کی جانب سے بے تحاشہ فون ،ایس ایم ایس اور ای میلز موصول ہوئیں اور مجھے یوں لگا کہ جیسے میں بھی فاتح پاکستانی ٹیم کا حصہ ہوں ۔

(جاری ہے)

ورلڈکپ میں فتح اور اس کے بعد کا پورا ایک ہفتہ انتہائی خوشی اور فخریہ انداز میں گزرا لیکن آج ورلڈکپ جیتنے کے صرف 21روز بعد نہ صرف وہ ساری خوشی ہرن ہوگئی ہے بلکہ جو لوگ ٹیم کی کامیابی پر مبارکباد دے رہے تھے وہی تمام سری لنکا کے خلاف لگاتاردوسرے ٹیسٹ میں ناکامی پرا نتہائی غم و غصے کی حالت میں ٹیم پر تنقیدکے پہاڑ توڑرہے ہیں اور بہت سوں نے ایک ہی لفظ دہرایا کہ ”بلاوجہ ورلڈکپ جیت کر ہمیں پاگل بنایاگیا “۔

شائقین کے جذبات حق بجانب ہیں کیونکہ قومی ٹیم نے جس طرح حیران کن انداز میں دونوں ٹیسٹ میچوں میں جیت کے قریب آکر ہمت ہاری اور شکست کا جھومر اپنے ماتھے سجایااس پر جتنا بھی دکھ کا اظہار کیا جائے کم ہے ۔ فتح اور شکست دو ایسے عنصر ہیں جو کسی بھی مقابلے کے بعد لازمی سامنے آتے ہیں۔ظاہر ہے کہ شکست کسی کیلئے بھی قابل قبول چیز نہیں ہوتی لیکن مقابلہ سخت ہو اور کھلاڑی جان مارتے ہوئے ہار جائیں توایسی ہار کا دکھ نہیں ہوتا اور حریف ٹیم چاہیے کتناکمزور بھی کیوں نہ ہو ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے بعد بھی ملنے والی شکست کو برداشت کیا جاسکتا ہے۔

لیکن اگر ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کریں تو اتنا سکور کھا لیں جو کہ حاصل نہ کیا جاسکے ، اگر پہلے بیٹنگ کریں تو کھینچ کھانچ کا سکور 100تک محدود ہواور حریف ٹیم کبھی دس اور کبھی نو وکٹوں سے جیت جائے ،اگر ٹیسٹ میچ ہوتو ایک وکٹ کی شراکت میں 200رنز بنے اور باقی آٹھ وکٹیں صرف 35رنز کے عوض گرجائیں تو نہ صرف دل اداس ہوجاتا ہے بلکہ حد درجہ دکھ بھی ہوتا ہے،یہی سب کچھ گزشتہ روز پاکستان اور سری لنکا کے مابین دوسرے ٹیسٹ میچ میں ہوا جہاں یونس خان اور فواد عالم کے مابین 200رنز کی پارٹنرشپ قائم ہوئی اور یونس خان کی ایک انتہائی بے ہودہ شارٹ پر یہ پارٹنرشپ ختم ہوئی تو اُس وقت پاکستان کا سکو ر دو وکٹو ں پر 285رنز تھا اور صرف 35رنز بعد پوری ٹیم 320رنز پر سمٹ گئی ،یوں سری لنکا کو جیت کیلئے 171رنز کا ہدف ملا جو انہوں نے صرف تین وکٹیں کھو کر پورا کرلیا اور تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے خلاف اپنے ہوم گراؤنڈ ز پر ٹیسٹ سیریز اپنے نام کی۔

میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ لڑکر ہار جائیں چاہے ورلڈکپ کا فائنل ہار جائیں اُس ہار کا کو ئی دکھ نہیں ہوتا ۔لیکن بے دلی اور بے یقینی سے کھیل کر ملنے والی ہار سے تو نہ ہی کھیلا جائے وہ زیادہ بہترہے کیونکہ نہ ہی میدان میں اتریں گے اور نہ ہی ہماری صلاحیتوں سے دنیا واقف ہوپائے گی اور نہ ملک کی بدنامی ہوگی۔ہارنے کو تو آسٹریلوی ٹیم بھی ہار جاتی ہے جیسا کہ وہ ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے پہلے مرحلے میں ہار کر آؤٹ گئی لیکن آسٹریلوی ٹیم کے ہارنے کی وجہ صرف کھیل کے معیار میں کمی ہوتی ہے اور اُن کی ہار پر یہ پہلو کبھی سامنے نہیں آیا کہ آسٹریلوی ٹیم کے کھلاڑیوں میں اختلافات تھے یااُن میں چپقلیش اور گروپنگ کے تحت ٹیم شکست کھا بیٹھی۔

لیکن پاکستانی ٹیم واحد ایسی ٹیم ہے جہاں ٹیم کے مفاد کو کسی بھی وقت بالائے طاق رکھ کر میچ یا سیریز کو ذاتی اختلافات کی نذر کردیا جاتا ہے۔کوئی بھی ٹیم باہمی اتحاد اور یگانگت کے ساتھ کھیل کر کامیابی کی راہ ہموار کرسکتی ہے لیکن ہمارے ہاں اس پہلوکومدنظر ہی نہیں رکھا جاتا۔کس قدر بدنصیبی کی بات ہے کہ 21روز قبل ورلڈکپ جیتنے کے بعد ہی ٹیم میں گروپنگ کے آثار نظر آناشروع ہوگئے اور کھلاڑی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے ۔

حالانکہ یہی ٹیم تھی جس نے انتہائی مشکل حالات میں ورلڈکپ میں کامیابی حاصل کی لیکن یہاں ایک بار پھر وہی پرانی غلطیا ں دہرائی گئیں اور ٹیم کی شکست کی سب سے بڑی بنیادی وجہ ذاتی اختلافات اور پسند نہ پسند رہی۔حیران کن امر یہ ہے کہ پہلے ٹیسٹ کی طرح دوسرے ٹیسٹ میں بھی قومی بیٹسمین بار بار ایک ہی غلطی دہرا رہے تھے اور آخری آؤٹ ہونیوالے آٹھ بیٹسمینوں میں سے 6 ایل بی ڈبلیوآؤٹ ہوئے ،یہاں شک گزرتا ہے کہ قومی بلے باز یا تو جان بوجھ کرغلطیاں کررہے تھے یا پھر انتہائی غفلت کا مظاہرہ کرکے آؤٹ ہوئے ۔

ہماری ٹیم کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب شکست کے بادل منڈلانے لگتے ہیں تو اچھے بھلے کھلاڑیوں کے ہاتھ پاؤں کا م کرنا چھوڑ دیتے ہیں ایسے حالات میں جم کر کھیلنے کی بجائے شکست کو قسمت سمجھ قبول کرلیا جاتا ہے لیکن ٹیم میں چند ایسے ”ناسور“بھی ہیں جو سخت جدوجہد کرکے یہ تاثر چھوڑ دیتے ہیں کہ ہم نے تو آخری دم تک کوشش بہت کی لیکن قصور قسمت کا تھا۔

یہی سب کچھ گزشتہ دوٹیسٹ میچز میں کپتان یونس خان اور اُس کے بیٹسمین کرتے چلے آرہے ہیں ’۔میری آج احمد شہزاد کے ساتھ ایک طویل نشست ہوئی ’جہاں میں نے اُس کا تفصیلی انٹرویو کیا جواگلے دو تین روز تک اردپوائنٹ پر اپ ڈیٹ ہوجائے گا ،میں نے احمد شہزاد سے پوچھا کہ جب بیٹسمین غلط شارٹ کھیل کر آؤٹ ہوجاتے ہیں توآپ کی مسلسل ناکامی پر کپتان یونس خان کا کیا رد عمل ہوتا ہے؟جواب میں وہ کہتا ہے کہ ”یونس بھائی کی یہی تو خوبی ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں بولتے“۔

میرا حیران ہوا کہ یہ کیسی کپتانی ہے؟؟اور یہ کیسا کپتان ہے جو کسی کھلاڑی کی مسلسل ناکامی پر بھی کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرتا۔ ویسے تو یونس خان ہمیشہ کہتے ہیں کہ عمران خان میرا فیورٹ کپتان ہے اور میں عمران خان کی طرح کامیابیاں اور سٹیووا کی طرح دنیائے کرکٹ پر راج کرنا چاہتا ہوں لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ” عمران خان اور سٹیووا کو کپتانوں کا کپتان کہا جاتا ہے کیا وہ اسی بات پر عمل پیرا ہوکر عظیم کپتان کہلوانے کے مستحق ٹھہرے؟؟عمران خان اور سٹیووا کی نقل کرنے کے خواہش مند کپتان یونس خان کو یہ یاد ہونا چاہیے سٹیووا کی قیادت میں اُس کے جڑواں بھائی مارک وا کو ناقص کارکردگی پر ٹیم سے نکال دیا گیا تھا اورخود کو عمران خان کا جانشین کہلوانے والے خان صاحب کویہ بھی یاد ہونا چاہیے کہ عمران خان کی قیادت میں اُن کے کزن ماجد خان کو بھی بری کارکردگی پر سائیڈ لائن پر بٹھادیا گیا تھا جس سے عمران خان اور ماجد خان کے فیملی تعلقات میں دیواریں کھڑی ہوگئیں اور گزشتہ برس عمران خان کے والد کے انتقال پراُس 30سالہ ناراضگی کا خاتمہ ہوا ۔

میں یہ بات دعوے سے کہتا ہوں کہ کسی کلب ٹیم کا کپتان بھی اپنے بیٹسمینوں کی مسلسل ناکامی پر چیخ اٹھتا ہوگا لیکن یونس خان میں اتنا ہمت نہیں ہے کہ وہ اپنے سینئر کھلاڑیوں کو سمجھائیں کہ وہ ہوش مندی اور ذمہ داری سے بیٹنگ کریں ،یونس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ناقص کھیل پیش کرنے والے کھلاڑیوں کو ہرگز نہ کھلائے اور جو شکست کا سبب بنتا ہے اسے ڈراپ کردینا چاہئے ،ویسے آپس کی بات ہے کہ یونس خان اگر کسی بیٹسمین کو یہ الفاظ کہنے کی ہمت بھی کرلے تو کس منہ سے کہے گا ؟کیونکہ اگر کسی نے یونس خان کوگزشتہ روز آؤٹ ہوتے ہوئے دیکھا ہو تو وہی شخص ہی بہتر بتا سکتا ہے کہ قومی ٹیم کی ذلت آمیز شکست میں دیگر آٹھ بیٹسمینوں کا کتنا قصور ہے خود کپتان یونس خان کاکتنا ہے ؟نجانے اُ س نے کیا سوجھی اور ریورس سوئپ کھیلنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی دے ماری اور صرف اورصرف یونس خان کی غلطی کی وجہ سے پوری ٹیم اگلے 35رنز میں ڈھیر ہوگئی،اگر موصوف ایسی بے ہودہ شارٹ نہ کھیلتے تو جو پارٹنرشپ 200رنز بنا چکی تھی وہ 300تک بھی جاسکتی تھی لیکن قومی کپتان نے ساری محنت پر پانی پھیر دیا ۔

بہرحا ل :کھیل میں ہار جیت لازمی چیز ہے لیکن کم از کم ایسی ہار ناقابل برداشت ہوتی ہے ۔گال ٹیسٹ میں جب پاکستانی ٹیم ایک ہی گھنٹے میں سمٹ گئی تو میں نے اُس وقت لکھا تھا کہ پاکستان ٹیسٹ میچ تو ہار گیا ہے لیکن کم از کم میچ میں دو مثبت اور خوش آئند چیز یں نظر آئیں جن میں ایک تو محمد یوسف کی کامیاب واپسی اور دوسری عبدالراؤف ،سعید اجمل اور محمدعامر کا کامیاب ڈبیو پہلے ٹیسٹ میچ کی مثبت چیز تھی ،دوسرے ٹیسٹ میں ایک بارپھر پاکستانی ٹیم برے طریقے سے ہار چکی ہے لیکن اس بار ایک ہی مثبت چیز نظر آئی اور وہ فواد عالم کی ڈبیو ٹیسٹ میچ پر سنچری ہے جبکہ اگرٹیم میں نظرآنے والے منفی پہلو پر بات کی جائے تو گروپ بندی کاپہلو نمایاں نظر آیا ۔

لگاتار دوسرے میچ میں ذلت آمیز شکست کے بعد میرے بہت سے دوستوں اور حتیٰ کہ سینئر سپورٹس رپورٹرز نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستانی ٹیم جوئے میں ملوث ہے اور لگاتار دوسری شکست میچ فکسنگ کا واضح ثبوت ہے لیکن میں ذاتی طور پر موجودہ دور میں کسی بھی ہار کو میچ فکسنگ سے تعبیر کرنے کے حق میں نہیں ہوں اور میرا ذاتی خیال ہے کہ 2003ء کے بعد سے کم از کم گراؤنڈ سے جواّ ختم ہوگیا ہے اور کھلاڑی اب میچ فکسنگ میں ملوث نہیں ہوتے لیکن ہاں گروپ بندی اور کسی کپتان یا ٹیم مینجمنٹ سے جا ن چھڑانے کیلئے چند کھلاڑی آپس میں اتفاق رائے قائم کرکے بلاوجہ وکٹیں گنوا کراپنی ٹیم کی شکست کا سبب ضروربنتے ہیں اور سری لنکا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں قومی ٹیم کی شکست مجھے اسی گروپ بندی کا سبب لگتی ہے اور اگر واقعی ایسا ہے توپی سی بی کو اس میں ملوث کھلاڑیوں کو فوری طور پر وطن واپس طلب کرلینا چاہئے ۔

اگر ایسا نہیں ہے تو بورڈ کو چاہئے کہ وہ شکست کے اسباب ڈھونڈے اور جوبھی کمی کوتاہی ہے اس کو فوری دور کیا جائے تاکہ ورلڈچیمپئن ٹیم مزید رسوائی سے بچ سکے۔

مزید مضامین :