سڈنی ٹیسٹ، شکست کا خوف لے ڈوبا، پاکستان جیتا ہوا میچ ہار گیا

Pakistan Lose Test Series Against Australia

ایک گھنٹہ قبل کھیل پر گرفت مضبوط رکھنے والی ٹیم کو اگلے گھنٹے میں عبرتناک شکست سری لنکا، یواے ای، نیوزی لینڈ اور اب آسٹریلیا میں بھی بیٹسمینوں نے رسوا کرا دیا، شائقین میں سخت مایوسی پھیل گئی

بدھ 6 جنوری 2010

Pakistan Lose Test Series Against Australia
اعجازوسیم باکھری: کرکٹ کا کھیل مجھے حد سے زیادہ پسند ہے اور میں دیکھنے کے ساتھ ساتھ خود اسے کھیلنا بھی پسند کرتا ہوں۔میری فیورٹ ٹیم پاکستانی ہے اور پاکستان کے میچز نہ دیکھنے کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،ٹیم اچھا کھیلے یا برا کھیلے میں ایک ہی شوق و جذبے سے میچ دیکھتا ہوں کہ پاکستان جیتے گا۔پہلے نیوزی لینڈ اور اب آسٹریلیا میں پاکستانی ٹیم کے میچز صبح چار بجے شروع ہوتے ہیں تو بلاناغہ میچ کیلئے جاگنا معمول بن چکا ہے لیکن آج قومی ٹیم کی لگاتار دوسرے ٹیسٹ میں عبرتناک شکست نے نہ صرف مایوس کیا بلکہ اس ٹیم کیلئے صبح جاگ کر میچ دیکھنا اور اپنے آپ کو بے آرام کرنا بھی احمقانہ حرکت لگ رہی ہے۔

چلیں ایک بار ہوتا ہے کہ ٹیم ہار گئی لیکن قومی ٹیم نے تو اب معمول بنا لیا ہے کہ نہ تو فائٹ کرنی ہے اور نہ ہی میچز جیتنے ہیں۔

(جاری ہے)

کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک ایسا ٹیسٹ میچ جس کے آغاز سے لیکر اختتام سے تین گھٹنے قبل تک گرفت مضبوط رکھنے کے بعد پاکستانی ٹیم میچ ہار گئی ۔یوسف الیون اس قدر شکست کے خوف میں مبتلا تھی کہ انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور کس حکمت عملی کے تحت کھیلنا ہے ۔

آسٹریلیا کے خلاف پہلے میلبورن اور پھر آج صبح سڈنی میں لگاتاردوسرے ٹیسٹ میں ناکامی پرپاکستانی شائقین ا نتہائی غم و غصے کی حالت میں ہیں کیونکہ مسلسل شائقین کے جذبات کا خون کیا جارہا ہے۔ ٹیموں کی یہی وہ ناکامیاں ہوتی ہیں جو انہیں غیر مقبول بناتی ہیں اور ملک میں کھیل کو فضول چیز کی درجہ دیا جاتا ہے ۔پاکستان جہاں پہلے ہی سپورٹس کو اُس کی ضرورت کے مطابق اولیت نہیں دی جاتی اور جب پاکستانی ٹیم لگاتار پے در پے تباہ کن ناکامیوں کا سامناکرتی ہے تو پوری سپورٹس کمیونٹی پراس چیزکا برا اثر پڑتا ہے۔

پاکستان کو میچ ہارے ہوئے ابھی چند گھنٹے ہوئے ہیں اور شائقین اور ماہرین کی جانب سے ٹیم پر تنقیدکے پہاڑ توڑرہے ہیں اور بہت سوں نے ایک ہی لفظ دہرایا کہ ”اگر اسی برے اور شرمناک طریقے سے ہارنا تھا تو امید کی کرن کیوں دکھائی تھی“۔شائقین کے جذبات حق بجانب ہیں کیونکہ قومی ٹیم نے جس طرح حیران کن انداز میں دونوں ٹیسٹ میچوں میں جیت کے قریب آکر ہمت ہاری اور شکست کا جھومر اپنے پرماتھے سجایااس پر جتنا بھی دکھ کا اظہار کیا جائے کم ہے ۔

فتح اور شکست دو ایسے عنصر ہیں جو کسی بھی مقابلے کے بعد لازمی سامنے آتے ہیں۔ظاہر ہے کہ شکست کسی کیلئے بھی قابل قبول چیز نہیں ہوتی لیکن مقابلہ سخت ہو اور کھلاڑی جان مارتے ہوئے ہار جائیں توایسی ہار کا دکھ نہیں ہوتا ۔ حریف ٹیم چاہیے کتناکمزور بھی کیوں نہ ہو ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے بعد بھی ملنے والی شکست کو برداشت کیا جاسکتا ہے۔لیکن اگر 176رنز کے جواب میں پوری ٹیم 139رنزپر سمٹ جائے تو نہ صرف دل اداس ہوجاتا ہے بلکہ حد درجہ دکھ بھی ہوتا ہے۔

یہی سب کچھ آج صبح پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین دوسرے ٹیسٹ میچ میں ہوا جہاں پاکستان نے پہلے مائیکل ہسی اور پیٹر سیڈل کو اُن کی مرضی کے مطابق 175رنز کی برتری حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا اور جب ٹیم نے 176رنز کے ہدف کا تعاقب شروع کیا تو وکٹیں خزاں کے پتوں کی طرح گرتی رہیں اور پوری ٹیم 139رنز پر ڈھیر ہوگئی ۔یوں آسٹریلیا نے ابتدائی دونوں ٹیسٹ میچز جیت کر سیریز اپنے نام کرلی ہے۔

ہدف کے تعاقب میں پہلی وکٹ کی شراکت میں دونوں اوپنرز (جنہوں نے پہلی اننگز میں سنچری پارٹنر شپ قائم کی تھی) دوسری اننگز میں 34رنز بنا سکے۔عمران فرحت کی ایک انتہائی بے ہودہ شارٹ پر یہ پارٹنرشپ ختم ہوئی توفیصل اقبال کو بھیجا گیا ، وکٹ پر پہنچ کر فیصل اقبال نے بھی ثابت کیا کہ وہ اپنے ماموں جاوید میانداد کی سفارش پر ٹیم میں ہے مگر جاوید میانداد جیسا نہیں ہے۔

کپتان محمد یوسف نے اپنا کیچ پلیٹ میں رکھ کرباؤلر کو پکڑ ادیا حالانکہ وہ ٹیم کے سب سے سینئر اور تجربہ کار بیٹسمین ہیں لیکن شکست کا خوف ہی اس قدر پوری ٹیم پر طاری تھا کہ خوف ہی خو ف میں ایک آسان اور جیتا ہوا میچ ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔عمراکمل سے کچھ توقعات تھیں لیکن وہ اکیلے اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے تھے کہ لگاتار دوسری اننگز میں 49رنز کے انفرادی سکور پر کیچ دے بیٹھے۔

بعد میں آنے والے ٹیل اینڈرز کو آسٹریلوی باؤلرز نے چندمنٹوں میں سمیٹ کر سیریز کا اہم میچ اپنے نام کرلیا۔ ہماری ٹیم کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب شکست کے بادل منڈلانے لگتے ہیں تو اچھے بھلے کھلاڑیوں کے ہاتھ پاؤں کا م کرنا چھوڑ دیتے ہیں ایسے حالات میں جم کر کھیلنے کی بجائے شکست کو قسمت سمجھ قبول کرلیا جاتا ہے لیکن ٹیم میں چند ایسے ”ناسور“بھی ہیں جو سخت جدوجہد کرکے یہ تاثر چھوڑ دیتے ہیں کہ ہم نے تو آخری دم تک کوشش بہت کی لیکن قصور قسمت کا تھا۔

میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ لڑکر ہار جائیں چاہے ورلڈکپ کا فائنل ہار جائیں اُس ہار کا کو ئی دکھ نہیں ہوتا ۔لیکن بے دلی،بے یقینی اور بغیر مزاحمت کیے کھیل کر ملنے والی ہار سے تو نہ ہی کھیلا جائے وہ زیادہ بہترہے کیونکہ نہ ہی میدان میں اتریں گے اور نہ ہی ہماری صلاحیتوں سے دنیا واقف ہوپائے گی اور نہ ملک کی بدنامی ہوگی۔ہارنے کو تو آسٹریلوی ٹیم بھی ہار جاتی ہے لیکن وہ ایسے خوفزدہ ہوکر نہیں ہارتی۔

آج صبح بھی آسٹریلوی پر شکست کے بادل منڈلا رہے تھے اور پونٹنگ کا چہرہ بھی اترا ہوا تھا لیکن ہمارے بیٹسمین مسلسل اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارکر آؤٹ ہوتے رہے اور آسٹریلینز کیلئے جیت کی راہ ساز گار ہوتی چلی گئی۔یہ پہلا موقع نہیں کہ جب پاکستانی بیٹسمینوں نے جیتی ہوئی بساط ا لٹا دی ہو ، ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ جیتنے کے بعد سری لنکا کے خلاف دونوں سیریز میں بھی یہی کچھ ہوا تھا ،ابوظہبی میں نیوزی لینڈ کی جانب سے دئیے جانیوالے ہر قلیل ہدف کے تعاقب میں پاکستانی ٹیم اپنی موت آپ مرنے کے مترادف شکست کھاگئی ۔

پھر نیوز ی لینڈ میں ٹیسٹ سیر یز کے پہلے معرکے میں یہی کارکردگی جو آج صبح سڈنی میں پیش کی وہاں بھی پیش کی گئی تھی اور حیران کن شکست کا ایوارڈ اپنے نام کیا گیا تھا ۔اسی طرح میلبور ن ٹیسٹ میں بھی جیت کیلئے اچھا موقع تھا وہ بھی ہاتھ سے گنوا دیا اور آج صبح سڈنی میں جو کچھ ہوا وہ ناقابل ذکر اور ناقابل برداشت ہے۔یہ بات بھی ناقابل یقین ہے کہ پاکستان جیتا ہوا میچ ہار کر سیریز سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے ، اب شائقین کیلئے بھی اور ٹیم کیلئے بھی ماسوائے افسوس کرنے کے اور کوئی کام نہیں ہے لیکن مینجمنٹ کو بیٹھ کر سوچنا چاہئے کہ آخر کب تک یوں شائقین کے جذبات کا خو ن کیا جاتا رہے گا۔

مزید مضامین :